کسانوں کی آواز کو طاقت سے دبانے کے بجائے ان کے زخموں پر مرہم رکھیں

جہاں پناہ فرمان جاری کرتے ہیں کہ گندم کی خریداری کا ہدف بڑھا دیا گیا ہے اور گوری طور پر گندم کی خریداری شروع کی جائے لیکن ملک کے اہم ترین صوبے پنجاب کی والی ان کی لاڈلی بھتیجی ہیں جنہوں نے پہلے ہی گندم کی خریداری کا ہدف کم سے کم کر رکھا ہے اور قیمت بھی چوری کے مال والی لگا رکھی ہے انہیں شاید جہاں پناہ کےفرمان میں کوئ دلچسپی ہے نہ اپنی بادشاہت میں دخل گوارا ہے اس لیے ابھی تک کندم کی چریداری تو دور کی بات بار دانے کی فراہمی بھی شروع نہیں کی اگر جہاں پناہ کے فرمان کی سرتابی کی گستاخی رعایا سے سرزد ہوتی تو شاید ریاست کے ہرکارے جہاں پناہ کا اقبال بلند رکھنے کے کیے ایسے گستاخ کا سر قلم کر دیتے لیکن بات اپنے گھر کی ہے اس لیے عتاب کے سزاوار پنجاب کے چھ کروڑ سے زائد کسان ہی ٹھہر رہے ہیں جن لا سب سے بڑا قصور یہ ہے کہ زرعی ملک کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی سمجھی کانے والی فصل گندم کو انہوں نے اپنے خون پسینے سے سینچا ہے اور اس بار گندم کی بمپر فصل کی 70لاکھ میٹرک ٹن سے زائد پیداوار دی ہے پنجاب کی حکمران نے فقط 20 لاکھ میٹرک ٹن خریدنے کا عندیہ دیا اور اور یہ خریداری بھی شروع نہی کی جارہی جس کے باعث گندم تین ہزار سے 3200 روپے فی من پر رل رہی ہے کسان برباد ہو چکا ہے جہاں پناہ کا بیان کسانوں کی بربادی کا مزاق اڑانے کے مترادف ہے لیکن ایسا نہی کہ رہاست سوئ ہوئ ہے کسانوں کی بربادی پر کسان اتحاد اور دیگر تنظیموں نے پنجاب کے ایوان اقتدار کے سامنےاحتجاج کا اعلان کیا تو ریاست کے ہرکاروں نے کسان بورڈ کے صدر رشید منہالہ سمیت چار سرکردہ افراد کو گرفتار کر لیا اور لاہور کی مال روڈ اور ایوان اقتدار کو جانے والے راستوں پر ریاست اپنی طاقت کے مظاہرے دکھا رہی ہے دو روز قبل صدر پاکستان کسان اتحاد خالد کھوکھر نے وزیر اعظم کو خط بھی لکھا تھا جس میں ملک میں گندم بحران اور قومی خزانے کو نقصان پہنچانے کی انکوائری کا مطالبہ کیا تھا صدر پاکستان اتحاد نے خط میں لکھا تھا کہ غیر ضروری طور پر گندم درآمد سے ملکی خزانے کو ایک ارب ڈالرکا نقصان ہوا، وزرات تحفظ خوراک نے 35 لاکھ میٹرک ٹن سے زائد گندم درآمد کی، جس سےکسانوں کو 3 سو 80 ارب اور حکومت 104 ارب روپے کا نقصان ہونے کا خدشہ ہےموسمی تبدیلیوں کے باعث بھی کسانوں کی پریشانیاں بڑھ گئی ہیں گندم کی فصل کٹ چکی ہے یا کٹ رہی پے اور بارشوں کا سپیل شروع ہے جبکہ حکومت خریداری ہی شروع نہی کر رہی اس سے کسانوں کی محنت برباد ہو رہی ہے چھوٹے کسان اس قابل نہی کہ گندم زخیرہ کریں اس لیے بیوپاری گندم کے ریٹ چوری کے مال والے لگا رہے ہیں اور کسان اونے پونے داموں اپنی فصل بیچنے پر مجبور ہے جس سے اس کے اپنےاخراجات بھی پورے نہی ہو رہےتخت لاہور کے حکمرانوں اور جہاں پناہ کی خدمت میں دات بدستہ عرض ہے کہ پنجاب کے چھ کروڑ کسان بھی آپ کی رعایا ہیں آپ کا نعرہ ووٹ کو عزت دو تھا تو کیا کسان ووٹر نہی ہے اسے اس جرم میں زلیل کیوں کیا جارہا ہے کہ اس نے اس بار ملکی ضروریات کے لیے بمپر فصل کاشت کی کسان کی بربادی کا ملک زرعی ملک کی معیشت کی بربادی ہے براہ کرم کسان کی بربادی کا نوحہ سنیں اور اس کی فریاد پر کان دھریں گندم کی خریداری فوری شروع کر کے کسانوں کی شکایات کا ازالہ کیا جائے اور کسانوں سے زیادتی پر اواز اٹھانے والوں کی آواز ریاستی طاقت سے دبانے کے بجائے ان کے زخموں پر مرہم رکھا جائے