کسان باردانے کے لیے خوار گندم کی خریداری میں تاخیر کا امکان

کسان باردانے کے لیے خوار گندم کی خریداری میں تاخیر کا امکان

تخت لاہور کے نادرشاہی فیصلوں کے باعث صوبے میں کسان کوڑیوں کا محتاج ہو گیا ہے جنوبی پنجاب میں اس سال ریکارڈ رقبے پر گندم کاشت کی گئی تھی اور کسانوں کو اس فصل سے بہت امیدیں وابستہ تھیں جو تخت لاہور کی جانب سے خریداری کی پالیسی اور ریٹ کا اعلان ہونے کے بعد مٹی میں مل گئیں اور رہی سہی کسر بارشوں اور خراب موسم نے پوری کردی بار دانے کے حصول کے لیے صوبائ حکومت کی قائم کردہ ایپ پر زرائع کے مطابق تین لاکھ ساٹھ ہزار سے زائد درخوٹموصول ہو چکی ہیں اورصوبائی وزیر خوراک بلال یاسین کا کہنا ہے کہ کہ ’ہماری حکومت ایک ماہ پہلے آئی ہے مگر اس سے پہلے سرکاری گوداموں میں 26 لاکھ میٹرک ٹن گندم کا سٹاک موجود ہے۔ جو نگران حکومت نے درآمد کر رکھی ہے ہمارے گوداموں میں گندم رکھنے کی جگہ موجود نہیں۔ حکومت جو گندم خریدے گی وہ بھی جگہ کرائے پر لے کر رکھی جائے گی۔‘خریداری ضرور ہو گی مگر پہلے سے آدھی خریدنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ تین لاکھ 60 ہزار درخواستیں موصول کی جارہی ہیں۔ جن سے درخواستیں موصول ہوئی ہیں ان سے گندم ضرور خریدیں گے۔ اگر ساری گندم خریدیں تو حکومت کو تین سے پانچ سو ارب روپے تک نقصان ہو گا۔‘جو درخواستیں موصول ہو چکی ہیں ان پر خریداری کی جائے تو حکومت کو 40 لاکھ میٹرک ٹن گندم خریدنی پڑے گی جس سے تیں چار سو ارب روپے کا نقصقن ہوگاجنوبی پنجاب کے اضلاع مظفر گڑھ رحیم ہار خان میں کسانوں کو بار دانہ تاحال جاری نہی کیا جارہا جس سے گندم کی خریداری میں مزید تاخیر کا خدشہ ہے اور بارشوں کی پیشگوئی کی وجہ سے کسان اونے پونے داموں گندم بیچنے پر مجبور ہیں سرکاری ریٹ پر سرکار خود خریداری نہی کر رہی جس کے باعث بیوپاری 3200 سے 3300 روپے فی من پر گندم خرید رہے ہیں جبکہ فلور ملوں والے گندم تین ہزار سے بھی کم ریٹ پر خرید رہے ہیں ان قیمتوں سے کسان کے اخراجات بھی پورے نہی ہوتے کسان اتحاد کے رہنماوں کا کہنا ہے کہ نگران حکومت پاکستانی کسانوں کی فصلوں کا سوچے بغیر 22 لاکھ ڈالر کی گندم بیرون ملک سے منگوائی۔ملتان اور بہاولپور ڈویژنوں میں 70 لاکھ میٹرک ٹن گندم کی پیداوار ہوئی اس کا کسان کیا کریں؟‘ کسان اتحاد کے رہنماوں کا کہنا ہے کہ اگر ان کے مطالبات تسلیم نہ کیے گئے تو 29 اپریل کو پنجاب اسمبلی کے سامنے پورے پاکستان کے کسان دھرنا دیں گے۔‘شوگر مافیا نے کسانوں کا پیسہ نیچے لگا رکھا ہے۔ اگر آپ ان مافیاز کو کنٹرول نہیں کر سکتے تو بارڈر کھول دیے جائیں۔ ہم افغانستان اور دوسرے ہمسائیہ ممالک کو گندم بیچ کر ملک میں زرمبادلہ لائیں گے۔‘خریداری کا عمل بروقت شروع نہ ہوا تو بارشوں کے باعث کسانوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا پاسکو سنٹرز والو کا کہنا ہے کہ بار دانے کی ایڈوانس بکنگ ہو چکی ہے نہ تو ڈی ایف سی آفس کی ہیلپ لائن کا کوئی ٹیلی فون نمبر کام کر رہا ہے اور نہ ہی لاہور پی ایف ڈی کا ہیلپ لائن نمبر جواب دیتا ہے۔ اس صورتحال میں خدشہ ہے کہ گندم کی کمی کے باعث کسان دیوالیہ ہوجائیں گے۔ تخت لاہور کے حکمرانوں کو کسانوں کی پرہشانیوں کا احساس کرنا چاہیے اگر حکومت نے خریداری نہی کرنی تو ایکسپورٹ کے لیے بارڈر کھول دیے جائیں ےو کسان فلور مل مالکان اور بیوپاریوں کے ہاتھوں بلیک میل پونے سے بچ جائے گا اور ملک کو قیمتی زدمبادلہ بھی مل سکتا ہے