“اپریل 2013 میں بھارتی شہری سربجیت سنگھ کو پاکستان کے شہر لاہور کی ایک جیل میں قتل کر دیا گیا تھا۔”
سربجیت سنگھ مبینہ جاسوسی اور بم دھماکے کے الزام میں پاکستان میں سزا کاٹ رہا تھا، جب دو قیدیوں نے جیل کے اندر سربجیت پر حملہ کیا۔ بعد میں سربجیت سنگھ اسپتال میں دم توڑ گیا۔ سربجیت سنگھ پر حملہ کرنے والے دو قیدیوں کے نام عامر سرفراز عرف تمبا اور مدثر منیر تھے۔ اتوار کو لاہور میں عامر سرفراز پر جان لیوا حملہ ہوا تھا۔ عامر سرفراز کو زخمی حالت میں اسپتال میں داخل کرایا گیا ہے۔پاکستان کے وزیر داخلہ محسن نقوی نے پیر کو ایک پریس کانفرنس میں دعویٰ کیا کہ عامر سرفراز پر حملے کے معاملے میں ملنے والے شواہد براہ راست بھارت کے ملوث ہونے کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ ہمیں شبہ ہے کہ اس حملے میں بھارت کا ہاتھ تھا۔ محسن کا کہنا تھا کہ ‘فی الحال تفتیش جاری ہے اور اب تک ملنے والے شواہد اسی طرف اشارہ کر رہے ہیں لیکن تحقیقاتی رپورٹ آنے سے پہلے میں کچھ نہیں کہہ سکتا’۔ عامر سرفراز کے بھائی نے ماضی میں سرحد پار سے ہونے والی ہلاکتوں کے سلسلے میں ایف آئی آر درج کرائی ہے۔
“سربجیت سنگھ 1990 سے پاکستان کی جیل میں تھے۔”
سربجیت سنگھ کو 1990 میں پاکستان میں جاسوسی اور بم دھماکوں کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ 1990 سے 2012 تک سربجیت سنگھ کی رہائی کے لیے بہت کوششیں کی گئیں۔ لیکن یہ کوششیں کامیاب نہیں ہوئیں اور سربجیت سنگھ کو سزائے موت سنادی گئی۔ اپریل 2013 میں سربجیت سنگھ پر لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں اینٹوں اور تیز دھار ہتھیاروں سے حملہ کیا گیا۔اس حملے میں سربجیت سنگھ شدید زخمی ہو کر کوما میں چلا گیا۔ سربجیت سنگھ کے قتل کے الزام میں دو قیدی عامر سرفراز اور اس کے ساتھی مدثر منیر لاہور کے جناح اسپتال میں زیر علاج تھے۔ 2018 میں لاہور کی مقامی عدالت نے ان دونوں ملزمان کو عدم گواہی کے باعث بری کر دیا تھا۔ سربجیت کے قتل کے واقعے نے پاکستان اور بھارت کے تعلقات میں کشیدگی کو بہت بڑھا دیا تھا۔عامر سرفراز کے بھائی جنید سرفراز کی جانب سے درج کرائی گئی ایف آئی آر کے مطابق حملہ کے وقت عامر گھر پر تھے جنید سرفراز نے بتایا کہ میں نیچے والے حصے میں تھا اور اوپری حصے کا دروازہ باہر سے کھلا ہوا تھا۔ دو نامعلوم موٹر سائیکل سوار آئے۔ ایک نے ہیلمٹ پہنا ہوا تھا اور دوسرے نے ماسک پہن رکھا تھا۔ دونوں نے اوپر جا کر عامر سرفراز پر تین گولیاں چلائیں۔مقدمہ درج کرنے والے پولیس افسر سجاد حسین کا کہنا تھا کہ وہ موقع پر موجود نہیں تھے، اس لیے انہیں عامر سرفراز کی حالت کا علم نہیں تھا۔ اسلام پورہ پولیس سٹیشن کے ایک اور اہلکار نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کے پاس اس معاملے پر مزید معلومات نہیں ہیں۔
یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ کسی واقعے کا الزام پاکستان پر لگایا جا رہا ہو۔ گزشتہ دو سالوں میں پاکستان میں عسکریت پسندوں کے پراسرار طور پر مارے جانے کے کئی واقعات ہوئے ہیں۔ برطانوی اخبار دی گارڈین نے اپنی حالیہ رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ بھارت ‘غیر ملکی سرزمین پر رہنے والے ملک دشمن عناصر’ کو ختم کرنے کے لیے ایک جامع حکمت عملی اپنا رہا ہے۔’دی گارڈین’ کے مطابق بھارت نے 2020 سے پاکستان میں اس سلسلے میں کئی اقدامات کیے ہیں۔ ایک انٹرویو کے دوران جب بھارتی وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ سے اس رپورٹ کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے نہ تو اس کی تصدیق کی اور نہ ہی تردید۔ اگر کسی بھی پڑوسی ملک سے کوئی بھی دہشت گرد ہندوستان کو ہراساں کرنے یا یہاں دہشت گردانہ کارروائیاں کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اسے منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔
جب سربجیت سنگھ کا قتل ہوا تو پاکستانی میڈیا میں عامر سرفراز کا نام آیا۔ پاکستان کے سرکاری اداروں نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے سربجیت سنگھ کو 1990 میں اس وقت گرفتار کیا تھا جب وہ واہگہ بارڈر کے ذریعے لاہور اور بھارت کے دیگر علاقوں میں بم دھماکے کرنے کی منصوبہ بندی کر رہا تھا۔پاکستانی حکام کے مطابق تفتیش کے دوران سربجیت سنگھ نے دھماکے کی سازش میں ملوث ہونے کا اعتراف کیا جس کے بعد انسداد دہشت گردی کی عدالت نے اسے 1991 میں سزائے موت سنائی۔ وہ پیشے کے اعتبار سے مقامی رہائشی اور کسان ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ غلطی سے سرحد پار کر کے پاکستان پہنچ گئے تھے۔سربجیت سنگھ کو سزائے موت دینے کے عدالتی فیصلے کو پہلے لاہور ہائی کورٹ نے برقرار رکھا اور بعد میں سربجیت کے اہل خانہ نے اس وقت کے صدر پرویز مشرف کے سامنے معافی کی درخواست دائر کی جسے انہوں نے مسترد کر دیا۔ اس کے بعد اسے مئی 2008 میں پھانسی دی جانی تھی لیکن 3 مئی کو حکومت پاکستان نے عارضی طور پر پھانسی پر روک لگا دی۔صحافی مجید نظامی کے مطابق ’اس وقت عامر سرفراز اور مدثر منیر کو قتل اور ڈکیتی کے ایک مقدمے میں مقامی عدالت نے سزائے موت سنائی تھی‘۔ یہ دونوں جیل میں اپنی سزا کاٹ رہے تھے اور ان کے مقدمات اعلیٰ عدالتوں میں زیر سماعت تھے۔مجید نظامی نے کہا، “سربجیت سنگھ کے قتل کے حوالے سے، اس وقت کے حکام نے کہا تھا کہ دو قیدیوں نے سربجیت سنگھ کو بلیڈ اور اینٹوں سے زخمی کیا تھا جب وہ کھانا کھا رہے تھے۔ حملے کے بعد سربجیت کو اسپتال لے جایا گیا لیکن وہ وہاں دم توڑ گیا۔ مجید نظامی نے کہا کہ عامر سرفراز اور مدثر منیر کے خلاف بعد ازاں مقدمہ چلایا گیا لیکن انہیں اس بنیاد پر بری کر دیا گیا کہ کوئی گواہ موجود نہیں تھا اور ان کے قتل کے لیے استعمال ہونے والا ہتھیار نہیں مل سکا۔
مجید نظامی کے مطابق ’’اسی وقت ایک بھارتی جیل میں بھی ایک پاکستانی شہری ثناء اللہ کو قتل کر دیا گیا تھا اور بعد میں اس قتل کے ملزم کو پاکستان نے بری کر دیا تھا‘‘۔مجید نظامی کا کہنا ہے کہ ‘اس دوران عامر سرفراز کے خلاف قتل، ڈکیتی اور منشیات کے دیگر مقدمات چل رہے تھے۔’ اس نے سزائے موت کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل کی اور فیصلہ ان کے حق میں آیا۔ رہائی کے بعد وہ کچھ عرصہ قبل جیل سے باہر آیا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ جیل سے رہائی کے بعد عامر سرفراز کو علاقے میں زیادہ طاقتور اور بااثر سمجھا جاتا تھا۔پولیس کی جانب سے بی بی سی کو موصول ہونے والی معلومات کے مطابق ان کی رہائی کے بعد ان کے خلاف لاہور کے چار تھانوں میں چار الگ الگ مقدمات درج کیے گئے تھے۔ یہ مقدمات قتل کی کوشش، دھمکیاں، پولیس کو ڈرانے اور تشدد کے تھے۔
ایک پولیس افسر نے بتایا کہ رہائی کے بعد عامر سرفراز کو سنبھالنا مشکل ہو گیا ہے۔ اس کے خلاف درج مقدمات میں گرفتاری کے بعد اسے ضمانت مل جاتی۔ صحافی فیض اللہ کے مطابق عامر سرفراز پر حملہ گزشتہ حملوں سے مختلف تھا جس میں کالعدم تنظیموں کے ارکان مارے گئے تھے، یعنی زیادہ تر ہلاکتیں مساجد میں نماز کی ادائیگی کے دوران یا گھروں کی حفاظت میں کی گئیں۔انہوں نے کہا کہ عامر سرفراز کو گھر میں گھس کر حملہ کر کے قتل کیا گیا، جو بلاوجہ جرائم کرتے ہیں۔ ایسی حالت میں حملہ ایسی جگہ کیا جاتا ہے جہاں انسان خود کو بہت محفوظ سمجھتا ہو۔

سربجیت سنگھ کے قتل کے ملزم پر جان لیوا حملے کا معاملہ کیا ہے؟
-