نظام کی خرابیاں ۔۔۔۔گندم بحران اور کسانوں کی مشکلات

پاکستان میں گندم خریداری کا بحران، کسانوں، کاشتکاروں کی مشکلات، حکومت کا گندم کی کم قیمتیں مقرر کرنا، زمینداروں کو کھاد بیج اور پانی جیسے مسائل کا سامنا اور قسم قسم کے مسائل پر اندیشے، خدشات، اور قیاس آرائیوں کا تسلسل کوئی نئی بات نہیں پاکستان میں گزشتہ تین دہائیوں سے انہی معاملات پر نہ صرف بحث مباحثے ہوتے رہے اور ہو رہے ہیں بلکہ یہ ایک تسلسل ہے جو نظام کی خرابیوں کا تسلسل ہے یہاں حکومتوں کا وجود تو بنتا ہے مگر انکے پاس پالیساں بنانے کا اختیار نہیں ہوتا یہی وجہ ہے کہ مستقل بنیادوں پر کوئی پالیسی یا ترجیحات کا تعین نہیں ہو پاتا اس وقت وطن عزیز میں گندم بحران کا جاری تسلسل اسی روایتی تسلسل کی نشاندہی کر رہا ہے۔ واضح رہے کہ 2022ء میں عمران خان حکومت کے خلاف عدم اعتماد کے نتیجے میں جب شہباز حکومت قائم ہوئی تو پیداوار بڑھانے کے ضمن میں ایک بہت بڑا پروگرام تشکیل دیا گیا تھا جس میں غیرآباد رقبوں کو آباد کرنے کی منصوبہ بندی کے دعوے ہی نہیں کئے گئے۔ بلکہ گندم پیداوار میں اضافے کے حوالے سے حکومت پنجاب نے ” زیادہ گندم” مہم کا آغاز بھی کیا تھا اس کے ساتھ کسانوں کو کھاد مافیا کے جبر و وحشت سے نجات دلانے کے دعوے بھی کئے گئے مگر کھاد مافیا کو لگام نہ ڈالی جا سکی اور یوں گندم کاشت کے وقت میں کھاد کی فی بوری قیمت 5 ہزار سے چھ ہزار روپے تک میں فروخت ہوتی رہی اسکے علاوہ حکومت کی جانب سے فرٹیلائزرز پر دی جانے والی سبسٹڈی سے بھی کسانوں کی بجائے کھاد مافیا کو ہی فائدہ پہنچتا رہا اب جبکہ فصل تیار ہوئی تو جہاں باردانہ کی مد میں کسانوں کو ریلیف ملنا چاہیے تھا وہاں ایسا نہ ہوا اور باردانہ کی تقسیم کے حوالے سے کسانوں کو ہی مشکلات درپیش رہیں۔ اس حوالے سے ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ روز تک محکمہ خوراک پنجاب کو چار لاکھ 8 ہزار سے زیادہ درخواستیں موصول ہوئیں جن میں سے دو لاکھ 20 ہزار درخواستوں کو مسترد کیا گیا مگر پھر بھی محکمہ خوراک نے باردانہ کی تقسیم شروع نہیں کی اور یوں ہزاروں کسانوں اور کاشتکاروں کو گندم کی سرکاری فروخت سے محروم کیا تو پنجاب کسان بورڈ نے احتجاجی مظاہرے کا اعلان کر دیا اور پنجاب حکومت سے مطالبہ کرتے ہوئے فوڈ سینٹرز کو گندم خریداری کے فوری احکامات جاری کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ فی الفور ٹارگٹ میں اضافے کا نوٹیفکیشن جاری کیا جائے۔ تاکہ کسان سرمایہ دار مافیا کی لوٹ کھسوٹ سے محفوظ رہ سکیں اور حکومت کو اپنی گندم سرکاری ریٹ پر فروخت کرتے ہوئے گندم خریداری کا ممکنہ ٹارگٹ کی تکمیل میں اپنا کردار ادا کر سکیں کسان بورڈ نے کسانوں کی لاگت کے اعتبار سے حکومت کے مقرر کردہ 3900 روپے فی من ریٹ کو مسترد کرتے ہوئے کسان نمائندوں کی مشاورت سے قیمت مقرر کرنے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔ جبکہ باردانہ کی سیکیورٹی بصورت کال ڈیپازٹ جیوٹ بوری 525 روپے کی بجائے 200 روپے کرنے اور پی پی تھیلے کا سیکیورٹی ریٹ 138 کی بجائے 50 روپے کرنے کا مطالبہ کیا ہے اسی طرح ڈیلیوری چارجرز 30 روپے فی 100 کلو گرام بہت کم ہے، کم ازکم 100 روپے فی 100 کلو گرام کیا جائے۔ اور پرکیورمنٹ سنٹرز پر سیاسی نمائیندوں کی بجائے قانون کے مطابق رجسٹرڈ اور متحرک کسان تنظیموں کے نمائندوں کو کمیٹی ممبر بنانے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ ان مطالبات کی حمایت میں پنجاب کے مختلف اضلاع کی بار ایسوسی ایشنوں کی جانب سے بھی عدالتوں کے بائیکاٹ کرنے کی اعلان بھی کیا جا رہا ہے اس صورتحال میں کسانوں کے جو مسائل ہیں انکے حل کے لئے ماضی میں بنائی گئی پالیسیوں کا جائزہ لینے کی بجائے صوبائی وزیر اطلاعات عظمیٰ بخاری فرماتی ہیں کہ گندم کی خریداری کے بحران پر میڈیا منفی پروپیگنڈا کر رہا ہے انکے اس تبصرے کو اگر حقائق سے نابلد کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا یہ حکومت کی طرف سے کسانوں اور کاشتکاروں کے زخموں پر نمک پاشی کرنے جیسا ہے اسی طرح حصول باردانہ کے ضمن میں حکومت پنجاب کا ڈیجیٹل ” ایپ ” کے متعارف کرانے کا اعلان بھی بہودہ مذاق لگتا ہے اسلئے کہ ڈیجیٹل ایپ سے کسانوں کے فوری مسائل یا باردانے کا حصول ممکن نہیں ہوسکتا اس کیلئے کسان طبقات کی تربیت نہیں ہے لہذا ڈیجیٹلزئزئشن کا ڈھونگ بند کیا جائے اور کسانوں کو باردانہ کے حصول میں درپیش شدید مشکلات کا فوری ازالہ کیا جائے وزیر اعلیٰ پنجاب محترمہ مریم نواز صاحبہ اگر یہ سمجھتی ہیں کہ وہ گندم کا سرکاری ریٹ مقرر کرنے اور باردانہ ایپ متعارف کرانے کے بعد اپنی ذمہ داریوں سے بری الزمہ ہوچکی ہیں تو یہ نہایت حماقت ہے۔ سرکاری سطح پر گندم کی خریداری کے مربوط طریقہ کار میں تاخیر سے پیدا ہونے والی مشکلات سے غالباً پنجاب حکومت آگاہ نہیں ہے یہاں روٹی اور نان کی قتمیتوں پر جبرا” عمل درامد کرانے سے اصل مسائل حل نہیں ہونگے یہ ماضی میں تبدیلی سرکار کے مرغی، انڈے، لنگر خانون اور شیلٹر ہوم بنانے کا پرتوں لگتا ہے حکومت کو کسانوں کے جاری استحصال پر ٹھوس حکمت عملی تشکیل دینا ہوگی اس کے لئے فوری طور پر کسانوں سے ایک ایک دانہ گندم کی سرکاری سطح پر خریداری کو ممکن بنانا ہے اگر خریداری کے اہداف میں حکومت نے 20 لاکھ ٹن گندم کی خریداری کو اہداف میں رکھا ہے تو اس سے حکومتی ویژن کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے حکومت کے ان ممکنہ اہداف سے بحران میں مزید مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں اور نان و روٹی کو جس قیمت پر عوام کو دینے کا اعلان کیا گیا ہے یہ ممکن نہ رہے گاایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مڈل مین اور آڑھتی مافیا نے کسانوں کو 564 ارب کے خسارے سے دوچار کر دیا ہے پنجاب بھر میں گندم کی25 ملین ٹن سے زیادہ پیداوار ہوئی جبکہ محکمہ خوراک نے صرف گندم کا 22 لاکھ ٹن خریداری کا ہدف مقرر کیا۔ جو کل پیداوار کا تقریبا نو فیصد ہے جبکہ تقریبا 23 ملین ٹن گندم بچ جائے گی جنوبی پنجاب میں خریداری کا ہدف تقریبا 195.912 ٹن ہے واضح رہے کہ جنوبی پنجاب کی گندم کی پیداوار پنجاب کی کل پیداوار کا 19.7 فیصد بنتا ہے یوں جنوبی پنجاب میں سرکاری خریداری کا ہدف 46.41 فیصد ہے ان اعداد و شمار کے مطابق جنوبی پنجاب کی 78.1 ملین ٹن گندم سرکاری خریداری سے بچ جائے گی اور بچ جانے والی 78.11ملین ٹن گندم کی کل قیمت تقریبا 284 ارب روپے بنتی ہے جنوبی پنجاب میں کل پیداوار کی کل قیمت کا تخمینہ بحساب 3900 روپے فی من مجموعی طور پر 68.1230 ارب روپے لگایا جا سکتا ہے جبکہ 3 ہزار روپے کے حساب سے تقریبا 68.946 روپے مجموعی قیمت بنتی ہے اس طرح پنجاب کے کسانوں کوخون پسینے کی کمائی کا 284 ارب روپے سے محروم ہونا پڑے گا اور یہ 284 ارب روپے مڈل مین آڑھتی اور فلور ملز مافیا کی جیبوں میں جائے گا جس سے کسان اپنے جائز حق سے محروم ہو جائیں گے جس طرح ہم تحریر کے آغاز میں عرض کرچکے ہیں کہ یہاں حکومتوں کا وجود تو بنتا ہے مگر انکے پاس پالیساں بنانے کا اختیار نہیں ہوتا عمران حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کی کامیابی کے بعد شہباز حکومت آئی پھر نگراں حکومت قائم ہوئی تو وہ شعبہ زراعت میں کئے گئے شہباز حکومت کے اقدامات کہاں گئے نگران حکومت نے آ کر اپنی حکمت عملی اور تدبر کے تحت چلانا شروع کر دیا وہ پالیساں بھی دم توڑ گئیں جس کا نتیجہ آجکل ملک بھر میں گندم کی بمپر کراپ ہونے کے باوجود کسانوں کو بھگتنا پڑ رہا ہے یہاں یہ امر بھی خصوصی اہمیت کا حامل ہے کہ 1996 میں گندم کا تاریخی بحران آیا تھا کہ جب زمینداروں، کسانوں اور کاشتکاروں نے اپنی گندم کو سڑکوں پر رکھ کر شدید ترین احتجاج کیا تھا یہاں تک کہ اس وقت بیشتر واقعات میں کسانوں نے گندم کی کھڑی فصلوں تک کو جلا کر خاکستر کر دیا تھا یہ حکمران طبقات اور سرمایہ داروں کے خلاف اس وقت ایک بڑا انقلاب تھا لیکن جہاندہ لوگوں نے اس ساری صورتحال کو سنبھالنے کے لئے کسانوں کی شرائط مان کر ٹھوس حکمت عملی ترتیب دینے کی یقین دہانی کرائی تھی اور یوں وہ سارا احتجاج ختم ہو گیا تھا اس وقت پیپلز پارٹی کی حکومت تھی اور پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت تھی اس وقت وزیر اعظم محترمہ بینظیر بھٹو تھیں جبکہ وزیر اعلی پنجاب میاں شہباز شریف تھے آج میاں شہباز شریف وزیر اعظم ہیں تو صوبے میں انکی بھتجی محترمہ مریم نواز شریف وزیر اعلی ہیں 8 فروری 2024 کے انتخابات کے نتیجے میں قائم ہونے والی حکومتوں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس تسلسل کا جائزہ لیتیں کہ جن وجو کے باعث کسانوں کاشتکاروں کو مشکلات کا سامنا ہوتا ہے میاں شہباز شریف نے 2022 کے بعد قائم اپنی حکومت میں جس مستقل منصوبہ بندی کا ارادہ کیا تھا اب اس پر غور کیوں نہیں کیا گیا ؟ اسی طرح وزیر اعلی پنجاب محترمہ مریم نواز شریف صاحبہ نے بھی ماضی کے بحرانوں اور ماضی میں بنائی گئی کسان ریلیف ترجیحات کا مطالعہ کرنے کی بجائے بس مغلیہ بادشاہوں کی طرح احکامات صادر کر دیئے کہ گندم کا ریٹ 3900 روپے من ہوگا جبکہ اس بار گندم کی خریداری پرائیویٹ سیکٹر کرے گا سرکاری سطح پر گندم کی بروقت خریداری نہ ہونے اور باردانہ کی تقسیم نہ ہونے پر کسان مایوس ہو کر اپنی گندم کی پیداوار اونے پونے بیچنے پر مجبور ہیں مڈل مین، آڑھتی اور فلور ملز مافیا دونوں ہاتھوں سے کسانوں کی خون پسینے کی کمائی کو لوٹ رہے ہیں۔ واضح رہے کہ گزشتہ سال گندم کی پیداواری لاگت میں کئی گنا اضافہ ہوا لیکن گندم مافیا نے گندم درآمد کرکے قومی وسائل کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا اور اب گندم کو کسانوں سے انتہائی کم نرخوں پر خرید کر انکا معاشی استحصال کر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھنے والا کسان، کاشتکار آج تباہی کے دہانوں پر ہے جو کسان و کاشتکار ملک کو اناج کی فراہمی ممکن بناتا ہے وہ تباہ کن معاشی اقدامات اور حکومتی حکمت عملی نا ہونے کے باعث شدید اضطراب میں مبتلا ہے یہ صورتحال قومی خودکفالت اور ملکی معشیت کو بڑے نقصانات کے اندیشیوں سے دوچار کرنے کے ساتھ ساتھ ملک دشمنی کے خدشات کو بھی عیاں کر رہی ہے۔ اس ضمن میں گندم کی خریداری کا معقول و مناسب بندوست ریٹ نا ہونا اور کسانوں کے جاری استحصال پر کسان و کاشتکار تنظیمیوں کی جانب سے احتجاج کا سلسلہ جاری ہے اور خدشہ ہے کہ 1996 جیسی صورتحال پیدا نہ پیدا ہو جائے حالانکہ ریکارڈ گندم کی فصل ہونے کے باوجود زمیندار کو اس کا معاوضہ نہیں مل رہا تو پھر تنگ آئے کسان کیا کریں گے۔۔؟مزید بحث میں جانے کی بجائے یہاں یہ غرض کرتا چلوں کہ جب حکومت خریداری نہیں کرے گی اور ریٹ بھی کسان کی امنگوں کے خلاف ہوگا تو بحران کی شدت کیا ہوگی؟ اب جب بحران شدت اختیار کر چکا ہے اور کسان و کاشتکاروں کی تباہی ہوچکی ہے تو بھی حکومت ٹس سے مس نہیں ہو رہی حکومت کو اپنے فیصلوں اور پالیسوں پر غور کرنا ہوگا۔۔!