ایرانی صدر کی شہادت کے خطے پر اثرات

اگر آپ مشرق وسطیٰ سے متعلق پچھلے کچھ مہینوں کی خبروں پر نظر ڈالیں تو یہ بات آسانی سے سمجھ آ جائے گی کہ جنگ عظیم سوم کے لیے راہ ہموار کی جا رہی ہے اور اس کے پیچھے دنیا کی وہ ایلیٹ کلاس ہے جس کی دولت کا انحصار ہی جنگ و جدل پر ہے۔ اس وقت کم و بیش ایک درجن یا اس سے کم ہی بڑی امریکی و مغربی کمپنیاں ہیں جو اسلحے کی عالمی تجارت پر بالادستی قائم کیے ہوئے ہیں۔ روس اور یوکرین جنگ کے بعد اسرائیل کی مظلوم فلسطینیوں پر وحشیانہ بمباری اور نسل کشی کے بعد جب ان ساہو کاروں نے دیکھا کہ جنگ کا دائرہ وسیع نہیں ہو رہا تو ایران کو اس جنگ میںبراہ راست گھسیٹنے کے لیے شام کے دارالحکومت دمشق میں یکم اپریل 2024 کو عالمی قوانین کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے اسرائیل کی دفاعی افواج نے ایرانی قونصل خانے کی عمارت پر جدید ترین امریکی جنگی جہاز ایف۔ 35 سے میزائل حملے کیے، جس کے نتیجے میں پاسداران انقلاب کی قدس فورس کے سینئر کمانڈر بریگیڈیئر جنرل محمد رضا زاہدی اور ان کے نائب بریگیڈیئر جنرل محمد ہادی حاجی رحیمی شہید ہو گئے۔ جواب میں ایران نے وارننگ جاری کرتے ہوئے بدلہ لینے کا عزم ظاہر کیا اور آخر کار طویل سائیکالوجی وارفیئر کے بعد 13 اپریل کو اسرائیل پر کم شدت کے حملے کیے تاکہ جنگ نہ پھیلےلیکن اس میں بھی 200 سے زائد میزائل اور خودکش ڈرونز کا استعمال کیا گیا۔ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو چونکہ روس اور چین کے خطرے کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اس لیے فی الحال انہوں نے اسرائیل اور ایران کے درمیان کھلی جنگ نہیں ہونے دی۔ دوسری طرف چین کو بھی گھیرنے کی پوری کوشش کی جا رہی ہے اس کے لیے تائیوان کے مسئلے کو ایک بار پھر اچھالا جا رہا ہے۔ ساتھ ہی امریکہ کے علاقائی اتحادی ممالک جن میں فلپائن، جاپان، جنوبی کوریا، آسٹریلیا، انڈیا، ملائیشیا سر فہرست ہیں۔بحیرہ چین میں چین کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کر رہے ہیں تاکہ اشتعال میں آ کر چین کوئی سخت کارروائی کرے اور ان کو جنگ کا بہانہ مل جائے۔ ان تمام باتوں کے باوجود مغربی ممالک کی عوام جنگ کی تباہ کاریوں سے واقف ہیں۔ اس لیے اپنے حکمرانوں کو کوئی غلط قدم اٹھانے سے باز رہنے کی تنبیہ کر رہے ہیں لیکن یہ معاملہ رکنے والا نہیں ہے کیونکہ روس ، چین اور ایران نے نیا ورلڈ آرڈر تشکیل دینے کا عزم صمیم کر لیا ہے۔ یہ ممالک اب علاقائی تجارت اپنی لوکل کرنسیوں میں کر رہے ہیں۔ ان تین ممالک کے ساتھ شمالی کوریا، شام، عراق، یمن، وینزویلا، بیلاروس، لبنان، افغانستا ن کی طالبان حکومت بھی ان ڈائریکٹ شامل ہو گئے ہیں۔ اس بلاک کا روح رواں ایران ہے کیونکہ اس کے پاس لبنان، شام، عراق اور یمن سمیت پورے مشرق وسطیٰ میں مضبوط پراکسیز ہیں۔ روس اگر مغرب کو چیلنج کر رہا ہے تو وہ اپنی سرحدوں کی سلامتی کو ترجیح دے رہا ہے۔ چین محفوظ سمندری راہداریاں چاہتا ہے تاکہ اس کی گلوبل ٹریڈ میں کوئی خلل نہ آئےلیکن ایران کا کردار اس سے بڑھ کر ہے کہ بحیرہ احمر، خلیج فارس اور مشرق وسطیٰ میں وہ مغربی مفادات کو کھلم کھلا چیلنج کر رہا ہے۔ اس کی حزب اللہ اور حماس کی حمایت نے مغرب بالخصوص امریکہ کو مزید برانگیختہ کر دیا ہے۔ امریکہ ایرانی اقدامات کو اپنی سلامتی کے لیے سنگین خطرہ سمجھتا ہے۔ ایران ایک وسیع و عریض سلطنت کا حامل ملک ہے۔ یہ دنیا میں اپنے جغرافیائی محلِ وقوع کی بنیاد پر خاص اہمیت رکھتا ہے۔ قدرتی گیس، تیل اور قیمتی معدنیات اس کے دامن میں پوشیدہ ہیں۔تاہم اب اس تمام scenario میں ایرانی صدر کی اچانک حادثاتی اور المناک موت نے ایک ہلچل مچادی ہے۔ ایرانی صدر جناب سید ابراہیم رئیسی کی شہادت حادثاتی ہے یا ٹارگٹ کیا گیا ہے، یہ تو تحقیقات کے بعد وقت بتائے گا لیکن ان کی المناک شہادت نے پورے ایران کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ ایران کی مسلح افواج کے چیف آف سٹاف میجر جنرل محمد حسین باقری نے اس معاملے کی تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے۔ اگر ان تحقیقات میں اسرائیل یا کسی دوسرے ملک کا نام آیا تو یقیناً خطے کے لیے یہ ایک بہت بڑا بحران ثابت ہوگا جو ایک بڑی عالمی جنگ کی صورت اختیار کر جائے گا۔ ایران میں سپریم لیڈر آیت اللہ العظمی خامنہ ای اب کافی بوڑھے اور کمزور ہو چکے ہیں اس لیے صدر رئیسی کو ڈھکے چھپے الفاظ میں ان کا جانشین قرار دیا جا رہا تھا۔ وہ صدر ہونے کے ساتھ ساتھ مجلس خبرگان رہبری کے بھی رکن تھے جو سپریم لیڈر کا انتخاب کرتی ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق ڈاکٹر رئیسی آیت اللہ خامنہ ای کی جگہ لینے کے لیے ایک مضبوط امیدوار تھے۔ آیت اللہ العظمی سید خامنہ ای جب ایران کے سپریم لیڈر بنے تھے تو وہ بھی ڈاکٹر رئیسی کی طرح قدرے جوان، وفادار اور ایک ایسے نظریاتی تھے جو نظام کے تسلسل کے سخت حامی تھے۔ وہ بھی سپریم لیڈر بننے سے پہلے صدر بنے تھے۔ ایرانی صدر کی اچانک شہادت نے جہاں بہت سے سوال پیدا کیے ہیں وہیں خطے کی سیاست پر بھی اس کے دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔ صدر رئیسی اور ان کے وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان نے اپنی جارحانہ خارجہ پالیسی کی بدولت اپنے تمام پڑوسیوں بشمول افغان طالبان سے بھی تعلقات بہتر کر لیے تھے۔ ابھی کچھ دن پہلے ہی شہید ایرانی صدر ابراہیم رئیسی پاکستان آئےتو جہاں سرکاری لوگوں سے ملے وہاں انہوں نے عام لوگوں سے بھی ملنا پسند کیا، وہ عوامی اجتماع سے خطاب کرنا چاہتے تھے مگر یہ نہ ہو سکا لیکن وہ تعلیمی اداروں میں ضرور گئے، ان کی اہلیہ نمل اور سویٹ ہوم گئیں، خود ابراہیم رئیسی گورنمنٹ کالج لاہور گئے، یہ وہی ادارہ ہے جہاں سے علامہ اقبال نے علم حاصل کیا تھا، ایرانی، شاعر مشرق کو اقبال لاہوری کے نام سے جانتے ہیں۔ پاکستان میں انہوں نے مختلف تقریبات میں بھرپور شرکت کی۔ ان تقریبات سے خطاب کرتے ہوئے شہید ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے اسرائیل اور امریکا کو بہت رگیدا، وہ جگہ جگہ فلسطینیوں کو خراج عقیدت پیش کرتے نظر آئے اور استعماری طاقتوں کیخلاف کھل کر بولے۔ 2019ء میں امریکی محکمہ خارجہ نے شہید رئیسی پر پابندیاں بھی عائد کیں مگر جب وہ صدر بن کر اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی کے اجلاس میں گئے تو ہاتھ میں قرآن پاک لیے زبردست تقریر کی، وہ اپنی تقریروں کے ذریعے ایک طرف ایرانی قوم کا حوصلہ بڑھاتے رہے تو دوسری طرف امت مسلمہ کو جگاتے رہے۔ ان کا اسرائیل کے خلاف بیانیہ کافی حد تک کامیاب ہو چکا تھا۔ اب جبکہ ان کی جگہ محمد مخبر کو عبوری سربراہ بنایا گیا ہے اور صدارتی انتخابات کی تاریخ بھی طے کر دی گئی ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جس طرح صدر رئیسی ایک ایسی جارحانہ اور مؤثر خارجہ پالیسی کے تحت اپنے پڑوسیوں بالخصوص روس، چین کے ساتھ بہترین تعلقات قائم کرنے میں کامیاب ہوئے تھے ان کے جانشین بھی ان کی طرح کامیابی حاصل کر سکیں گے یا نہیں؟ ایران نے حال ہی میں انڈیا کے ساتھ چاہ بہار بندرگاہ کے حوالے سے ایک دس سالہ منصوبے پر دستخط کیے تھے۔ اس معاہدے کے تحت انڈیا ایرانی بندرگاہ کے ذریعے اپنا تجارتی مال وسط ایشیائی ریاستوں اور یورپ تک پہنچانے میں کامیاب ہوگا۔ یہ معاہدہ بھی صدر رئیسی کی کامیاب خارجہ پالیسی کا مظہر تھا کیونکہ انڈیا نے امریکی پابندیوں کی دھمکیاں بھی نظر انداز کر کے اس معاہدے پر دستخط کیے تھے۔ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ ایرانی صدر کی شہادت سے نہ صرف ایران بلکہ پورے خطے پر اثرات ہوں گے۔ آنے والے وقت میں اسرائیل اور امریکہ سے کشیدگی میں اضافہ ہوگا۔