ایم این اے حمید حسین طوری کے لوئر اور آپرکرم میں ملاقاتوں کے تصویری جھلکیاں

ایک طرف اگر ضلع کرم میں مقامی انتظامیہ اور سیکیورٹی فورسز ضلع کرم میں پائیدار آمن کی خاطر اپنی بھرپور توانائیاں استعمال کرتے ہوئے کام کر رہی ہیں تو دوسری طرف کرم کی تاریخ میں پہلی بار یہاں کے منتخب ایم آین اے حمید حسین طوری نے اپنے حلقہ نیابت کے آہلسنّت والجماعت کے ان علاقوں کا جو گزشتہ بیس سالوں سے ہر قسم کے بنیادی سہولیات، ضروریات، اور ترقیاتی کاموں سے یکسر محروم ہیں، کے انقلابی، طوفانی اور خصوصی دوروں سے علاقے میں پیار اور محبت نے ایک نیا موڑ اختیار کر دیا ہے، جن کی وجہ نہ صرف اُنہیں ہر جگہ پذیرائی مل رہی ہے، بلکہ پیار و محبت میں اضافہ کے ساتھ علاقائی پائیدار آمن کے لئے راہیں ہموار ہوتی نظر آرہی ہیں۔ آپس میں محبتیں بانٹی جا رہی ہیں، جہاں عرصہ دراز سے یہاں کے لوگوں کے مابین مسلکی اور مذہبی بنیادوں پر جنم لینے اور پائی جانے والی پرانی کدورتیں اور نفرتیں اب آہستہ آہستہ ختم ہوتی دکھائی دے رہی ہیں۔ وہ جہاں بھی جاتے ہیں لوگ اُنہیں اپنے مابین پاتے ہی انتہائی پیار و محبت دیتے ہیں۔ گلے ملاتے ہیں۔ روایتی دستار عزت کلہ لنگی اور ہار پہنائے جاتے ہیں، اور یہی کہا جاتا کہ کہیں ہم خواب تو نہیں دیکھ رہے ہیں۔ آپ سب کو یاد ہوگا کہ ضلع کرم قدرتی رنگینیوں سے مالامال پاکستان اور خاص کر خیبرپختونخوا کا وہ خوبصورت قبائلی ضلع ہے، جہاں آقوام آہلسنّت اور آقوام آہل تشیع جنہیں عام الفاط میں آقوامِ طوری بھی کہتے ہیں، زمانہ قدیم سے آباد ہیں۔ صدیوں پرآنے ان کے اپنے قبائلی رسم و رواج آباؤاجداد کے زمانے سے آرہے ہیں۔ کسی زمانے میں یہ لوگ آپس میں انتہائی پیار و محبت سے رہتے تھے۔ لیکن جوں جوں زمانہ گزرتا گیا نہیں معلوم کہ اُنہیں کس کی نظر لگ گئی اور ایک دوسرے سے دور بلکہ بہت دور چلے گئے۔ یہ خوبصورت وادی جہاں میٹھے پانی کے بے تحاشا اُبلتے چشمیں اور اونچائی سے گرنے والی آبشاریں موجود ہیں۔ خوبصورت پہاڑ، ندی اور نالیاں، بہتی دریائیں، سر سبز اور شاداب سبزیوں اور پھلوں کے باغات، جنگلوں، صحراؤں اور پہاڑوں پر چڑھتی خوبصورت پاک ڈنڈیاں، ڈھلوانوں کے نشیب و فراز سب کچھ موجود ہیں اور خاص کر دریائے کرم جو اپنے سینے کے اندر ایک خوبصورت تاریخ سموئے ہوئے رواں دواں ہے جو کروڑوں روپے کی زرعی زمینیں سیراب کرکے عرصہ دراز سے اپنی موجیں برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ آگر نہیں ہے، تو صرف آمن نہیں ہے۔ یہاں کے لوگ مسلکی اور مذہبی بنیادوں پر ایک دوسرے کے دشمن بنے بیٹھے ہیں۔ تاریخی حوالوں سے ضلع کرم ایک ایسا تاریخ رکھتا ہے کہ شاید ان کا کوئی ثانی بھی نہ ہو۔ قیمتی معدنیات جیسا کہ منرل، کوئلہ سمیت مختلف اقسام کی چیزیں وافر مقدار میں موجود ہیں۔ اگر نہیں ہے تو وہ تعلیم نہیں ہے، جو شعور دے۔ وہ جیالوجسٹ نہیں ہیں جو ان قیمتی خزانوں کو ڈھونڈ کر پہاڑوں کے سینوں اور دامن کو چھیر کر اور زمینوں کی تہہ سے نکال کر یہاں پائی جانے والی نفرتیں، غربت اور غریبی کو ختم کرسکیں۔ یہ بھی بتاتا چلیں کہ یہاں پر نہ صرف یہ بلکہ مشہور بین الاقوامی معیار کے سوپ سٹون کے ایسے ایسے ذخائر موجود ہیں، جن کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اگر اس کی کھدائی سائنسی خطوط پر کی گئی اور ضائع کرنے بچایا گیا تو ان کے کاروبار اور استعمال سے یہاں کوئی غریب نہیں رہیگا۔ غربت اور غریبی کا خود بخود خاتمہ ہوگا۔ بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ یہاں پر روزگار کے اتنے مواقع ملیں گے کہ یہاں ک لوگوں کو باہر جانے کی ضرورت بھی نہیں رہیگی۔۔۔۔۔۔۔ لیکن کہیں تو کس سے کہیں۔ فریاد کریں تو کس سے کریں۔ آپس کی نااتفاقی نے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا۔ یہاں سے جو منتخب ہوتے ہیں وہ پہلے اپنا ہی سوچھتے ہیں اور عوام کی فکر جب لاحق ہوتی ہے تو ان کا ٹینیور ختم ہو جاتا ہے یا سیاست کی بھینٹ چڑھ کر گھروں کو چلے جاتے ہیں اور زندہ باد مردہ باد کہنے والے ایک دوسرے کی منہ تکتے ہی رہ جاتے ہیں۔ تو ذکر ہو رہا تھا حکومت اور سیکیورٹی فورسز کا، جنہوں نے ہمیشہ اپنے تئیں آمن کی بہتیری کوششیں کی ہیں اور کر بھی رہی ہیں کہ یہاں آمن ہو۔ ظاہر ہے جہاں آمن ہو وہاں خوشحالی ہوگی۔ تعلیم کی فروانی ہوگی۔ صحت کے بڑے بڑے مراکز ہوں گے۔ مواصلات کا ایک نیٹ ورک ہوگا۔ کسی چیز کی کمی نہیں ہوگی۔ عوام جب بھی حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ہماری سڑکیں نہیں۔ صحت کے مراکز نہیں ہیں، تعلیم نہیں ہے، تو حکومت یہی جواب دیتی ہے کہ پہلے آپ آمن کو تو قائم کریں تب جاکے ترقی ہوگی۔ حالیہ حالات کے پیش نظر حال ہی میں پاک فوج کوہاٹ ڈویژن کے بڑے سربراہ نے پاڑہچنار کا دورہِ کیا جہاں اُنہوں نے قبائلی شیعہ سُنی پر مشتمل مشران و عمائدین علاقہ سے خطاب کیا جس میں دو ٹوک الفاظ میں اُنہوں نے مشران سے کہا کہ دونوں طرف آپ ذمہ دار ہیں۔ لہٰذا اپنے اس خوبصورت وادی اور ان کے عوام کی خاطر یہاں آمن آنے اور ہونے دیں۔ سوچھیں کہ اس کے لئے کیا کیا جائے۔ تو اس عظیم مقصد کے لئے مقامی سطح کی آمن کمیٹیاں بنائی گئیں اور ان کمیٹیوں کا گزشتہ روز جی آؤ سی نائن ڈیو کوہاٹ ڈویژن اور کمشنر کوہاٹ ڈویژن کے ساتھ کوہاٹ ہی میں ایک اعلیٰ سطحی جرگہ ہؤا جن میں سے 24 رکنی ایک نئی آمن کمیٹی بنائی گئی جنہیں ٹاسک دیا گیا ہے کہ ہر حال میں اور ہر صورت میں آمن بلکہ پائیدار آمن قائم کرنا ہے۔ جہاں آمن کمیٹیوں کا تعلق ہے وہ اپنی جگہ لیکن یہاں پر خوش قسمتی سے ایک نیا ٹرینڈ شروع ہوگیا ہے وہ یہ کہ ضلع کرم سے منتخب ایم این اے اور پارلیمانی لیڈر حمید حسین طوری نے آہلسنّت کے ان علاقوں کے دورے شروع کردئیے ہیں جو گزشتہ بیس سالوں سے ہرقسم کے پیار و محبت، ترقیاتی کاموں، زندگی کے جدید سہولتوں اور ضرورتوں سے یکسر محروم رہے ہیں۔ گزشتہ روز وہ لوئرکرم و سنٹرل کے ہیڈکوارٹر سدہ جرگہ ہال آئے جہاں اُنہوں نے لوئر و سنٹرل کرم کے عمائدین اور نوجوانوں سے ملاقاتیں کیں۔ اس سے پہلے اُنہوں نے ضلع کرم کے انٹری گیٹ باب کرم چھپری پر علی زئی تحصیل کے آحمدی شمع، چھپری اور قوم ذیمشت کے مختلف ذیلی شاخوں کے زعماء اور عمائدین سے ملاقاتیں کیں اور مختلف آمور پر تبادلہ خیال کیا۔ بعد میں وہ سدہ شہر کے مضافات پیرقیوم گئے جہاں ان کا پرتپاک استقبال کیا گیا۔ وہ چیئرمین ٹاؤن تھری کے حبیب خان کے حجرے میں گئے جہاں ان کے سر پر روایتی کلہ لنگی رکھ کر ہار پہنائے گئے۔ وہ یہاں کے لوگوں سے گھل مل گئے اور عوام نے اُنہیں اپنے مابین پاتے ہی نہ صرف خوش بلکہ حیران بھی تھے، کہ کہیں ہم خواب تو نہیں دیکھ رہے ہیں۔ سدہ جرگہ ہال میں اپنے خطاب میں اُنہوں نے کہا کہ میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ کہیں میں قومی اسمبلی کا ممبر بنوں گا۔ یہ آللہ تعالیٰ کی خصوصی مہربانی اور آپ لوگوں کا پیار و محبت تھی کہ آج میں اس مقام پر ہوں۔ اور مجھے لگتا ہے کہ اللّٰہ مجھ سے کوئی خاص کام لینا چاہتا ہے۔ میری پہلی ترجیح آپس میں نفرتوں اور کدورتوں کو ختم کرنا اور مابین پائیدار آمن قائم کرنا ہے۔ آپس میں خوف کی فضا کو ختم کرکے ایک دوسرے کو قریب لائیں گے تاکہ ضلع کرم کی وہ کھوئی ہوئی عظمت رفتہ دوبارہ واپس لاکر آمن و آشتی قائم کرسکیں۔ اُنہوں نے کہا کہ مجھے آپ لوگوں کے محرومیوں کا احساس ہے۔ مجھے معلوم ہے کہ یہاں کے لوگوں کو ترقیاتی کاموں سے گزشتہ بیس سالوں سے یکسر محروم رکھا گیا ہے۔ مسلکی اور مذہبی منافرت میں یہاں کے لوگوں کو پھنسا کر الجھا دیا گیا ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ ہم نے اپنے آباؤاجداد کے زمانے میں دیکھا تھا کہ ہم ایک دوسرے کے غم اور خوشیوں میں شریک تھے۔ ایک دوسرے سے ملنا جلنا اور ایک دوسرے کے ہاں آنا جانا تھا اور آپس میں محبتیں ہؤا کرتی تھیں۔ لیکن بدقسمتی سے مٹھی بھر عناصر نے منافرت کے آگ کی ایسی بیج بو ڈالی جو ہم سب ان کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ اُنہوں نے آقوام آہلسنّت پر زؤر دیتے ہوئے کہا کہ بس اِتنا ہی کافی تھا۔ آج کے بعد ہم سب نے مل کر ان نفرتوں اور کدورتوں کو ختم کرنا ہے۔ آمن و آشتی کے اس مشن میں آپ اور ہم مل کر حکومت اور سیکیورٹی فورسز کا دست و بازؤ بنیں گے۔ بعد آذاں وہ سینٹنیل ماڈل ہائی سکول سدہ بھی گئے، جہاں وہ پرنسپل، آساتذہ اور طلباء سے گھل مل گئے اور نیک خواہشات کا اظہار کیا۔ یہاں سے فارغ ہوتے ہی وہ سیدھے آپرکرم کے اس خوبصورت شورش زدہ علاقہ گئے جسے بوشہرہ کہتے ہیں جو کئی حوالوں سے ایک عرصے سے خبروں کا موضوع بنتا آرہا ہے۔ بوشہرہ کے عوام نے دل کھول کر ان کا استقبال کیا۔ ہار پہنائے اور اپنے مابین پاتے ہی اُنہیں مبارک باد دی اور خراج تحسین پیش کیا اور اپنی مشکلات ان سے شیئر کیں جس پر اُنہوں نے اُنہیں تسلی دی کہ انشاللہ آپ کے تمام جائز مطالبات اور ضروریات کا خاص خیال رکھا جائے گا۔ وہ یہاں کے عوام سے بھی گھل مل گئے، جنہیں بڑی پذیرائی ملی۔ آگر نظر عمیق سے دیکھا جائے تو یہی چند چیزیں تھیں جو پہلے نہیں تھیں۔ یہاں لوگوں کے مابین پیار و محبت اب بھی ہے۔ بس ضرورت اس بات کی ہے کہ آپس میں اُنہیں مل بیٹھنے دیں۔ خود بخود یہ نفرتیں اور کدورتیں ختم ہوں گی، اسلئے کہ اب دونوں طرفین کے لوگ تھک چکے ہیں۔ یاد رہے کہ انجینئر حمید حسین طوری مجلسِ وحدتِ المسلمین اور پی ٹی آئی کے مشترکہ امیدوار تھے، جنہوں نے دوسرے امیدواروں کے ساتھ پاکستان پیپلز پارٹی کے مضبوط امیدوار اور تین دفعہ مسلسل کامیاب ہونے اور گزشتہ پی ڈی ایم حکومت میں اوورسیز کے وفاقی وزیر ساجد حسین طوری کو شکست دے تھی۔ حمید حسین اب امید کے کرن بن چکے ہیں اور لوگ بڑی توقعات وابستہ کیے ہوئے ہیں۔ اُنہوں نے آمن کی فاختہ عید کے دن سے ہی اڑایا جب وہ نماز عید کے بعد سیدھے آہلسنّت کے علاقہ تری منگل گئے جہاں اُنہوں نے انہی دنوں جان بحق ہونے والوں کے لواحقین سے تعزیت کی اور ان کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا۔ اس دن سے ہی اُنہوں نے آہل سنّت کے دلوں میں جگہ بنا لی ہے اور آہل سنّت کے لوگ دل سے ان کا احترام بھی کرتے ہیں۔ آللہ کرے کہ یہی ابتداء پائیدار آمن کے لئے سنگ میل بن سکے۔