فیصل آباد جسے کبھی ن لیگ کا گڑھ سمجھا جاتا تھا وہاں سے حالیہ الیکشن میں ن لیگ کا صفایا ہو گیا دو تین امیدواران کے علاواہ کوئی امیدوار بھی فیصل آباد سے نہ جیت سکا اور ایسے میں فیصل آباد سے ن لیگ کی کارکردگی کا پول بھی کھل گیا ن لیگ کی جماعت فیصل آباد سے اتنے برے طریقے سے کیوں ہاری؟ ویسے تو بے شمار وجوہات ہیں مگر جو سب سے مین وجہ ہے وہ ہے لیگی راہنماوں کا عوام کے ساتھ سلوک ان کا رویہ کوئی بھی جماعت اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتی جب تک وہ اپنے کارکنان کو عزت نہیں دیتی ان کی بات نہیں سنتی اپنے درینہ ساتھیوں کو فراموش کرتی ہے لیگی راہنماوں نے ان تمام چیزوں کو پس پشت ڈال کر سیاست کی ورکرز کو ناراض کیا درینہ ساتھیوں کو کسی خاطر میں نہ لاتے ہوئے فیصلے کئے اور اس کا نتیجہ وہی نکلا جیسا کہ الیکشن سے قبل سوچا جا رہا تھا اس میں کوئی دورائے نہیں ہے کہ پی ٹی آئی کا بیانیہ چلا مگر میں سمجھتا ہوں اس میں سب سے زیادہ قصور لیگی راہنماوں کی آمرانہ سیاست اور تکبرانہ رویہ ہے لیگی راہنماوں نے ریکارڈ ووٹ حاصل کئے ان حالات بھی بھی جب پی ٹی آئی کا بیانیہ پوری طرح عوام کے ذہنوں پر سوار تھا اور وہ کچھ اور سوچنے پر بھی تیار نہیں تھے ایسے میں ریکارڈ ووٹ حاصل کرنا اس بات کی دلیل تھی لوگ آج بھی ن لیگ کے ساتھ ہیں لیگی راہنما وں کو پی ڈی ایم کی حکومت کے سولہ ماہ بھی لے ڈوبے لوگ سارا قصور ن لیگ کا سمجھتے رہے دیگر جماعتوں کے برعکس زیادہ تر نقصان بھی ن لیگ کا ہی ہوا اصل وجہ ن لیگ کے امیدوارن کا رویہ تھا ن لیگ فیصل آباد میں عرصہ دارز سے دو دھڑے چلے آ رہے تھے اس دھڑا بندی کا نقصان بھی ن لیگ کو ہی ہوا حالیہ الیکشن میں ایک تیسرا اور مضبوط دھڑا بھی سامنے آیا جو کہ کچھ ناراض راہنماوں کا تھا جس میں درجنوں یوسی چیئرمین بھی شامل ہو گئے اور پھر ناراض ووٹر اور ورکرز ساتھ ملتے گئے اور کارواں بنتا گیا الیکشن سے قبل ن لیگ کے ایک سینئر راہنما کے ہمراہ سابق وفاقی وزیرکے پاس بیٹھے تھے باتوں کا سلسلہ جاری تھاجس پر سینئر راہنما نے سابق وزیر کو کہا کہ اگر الیکشن جیتنا ہے تو سب سے پہلے اپنی موجودہ ٹیم بدلو اس ٹیم کو بدلے بغیر آپ کامیاب نہیں ہو سکتے کہنے کا مطلب تھا کہ مودہ ٹیم آپ کو اصل حقیت سے لاعلم رکھتی ہے جو سہی لوگوں کو آپ سے ملنے نہیں دیتی ہمارے ہاں ایک المیہ یہ بھی ہے کہ ہر بڑے آدمی ہر سیاستدان ہر آفیسر کے گرد خوشامدیوں کی ایک ٹیم ہوتی ہے مفاد پرستوں کا یہ ٹولہ کسی کو ملنے دیتے ہیں نہ حقیقت سے آگاہ کرتے ہیں یہاں مجھے اپنے بزرگوں کی ایک بات یاد آرہی ہے وہ فرماتے ہیں بیٹے بڑے لوگ کانوں کے کچے ہوتے ہیں انہیں نظر کم آتا ہے اور سنائی زیادہ دیتا ہے یہ اپنی تعریف سننے والوں کو پسند کرتے ہیں اور حقیقت سے نظریں چراتے ہیں اور اپنے ارد گرد نظر ڈالیں تو آپ کو ایسے سینکڑوں بزنس مین آفیسر،سیاستدان نظر آئیں گے جو بہت زیادہ نقصان اس لئے اٹھا رہے ہیں کہ ان کے قریبی لوگ مخلص نہیں ہیں ان کے ارد گرد کے منافق اور مفاد پرست لوگ اپنے زاتی خواہشات ذاتی مفادات کے لئے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں جو کمیشن ایجنٹ بھی ہیں اور صاحب کے کارخاص بھی جو دونوں ہاتھوں سے لوٹ مار کر کے بھی پارسا ہیں جو سب اچھا کی رپوٹ دیتے ہیں یہ ہمارے لیڈروں کی کمزوری ہیں جو انہیں ناکام بنانے میں پیش پیش ہیں ہمارے سیاستدان لوگوں سے ملنا پسند نہیں کرتے انہیں سے ملتے ہیں جو منافقت کرے جھوٹی تعریف کرے،حالنکہ عوامی نمائندے کا فرض ہے وہ حلقہ کی عوام کے شانہ بشانہ نظر آئے دکھ سکھ میں ساتھ کھڑا ہو ان کے مسائل کے حل کے لئے آ واز بلند کرے ن لیگ کے بیشتر راہنماوں میں یہ بات مشترک ہے کہ یہ عوام سے ملتے نہیں نہ ہی فون سنتے ہیں آفس موجود ہوتے ہوئے بھی آنے والے سائلین کو یہ کہ کر واپس بھجوا دیتے ہیں کہ صاحب موجود نہیں صاحب میٹنگ میں ہیں یا صاحب ابھی سو رہے ہیں ساڑھے چار سال ایسے کرتے گزر جاتے ہیں آخری چھ ماہ میں یہ لوگ عوامی خدمت کا جذبہ لئے عوام میں نکل پڑتے ہیں ن لیگ کے دنوں بڑے گرپوں کی قیادت نے اپنے کارکنان کو نظر انداز کیا ہے درینہ ساتھیوں کو نظر انداز کیا ہے ان کے دکھ سکھ میں شامل نہیں ہوئے جس سے نا صرف کارکنان ناراض ہوئے ان کے پیچھے ہزاروں ووٹ بھی دیگر جماعتوں کے باکس میں چلے گئے سیاست میں یہ چیزیں نہیں چلتی کام ہونا یا نہ ہونا یہ الگ بات ہے مگر عوام کی بات سننا اس کے جائز کام کے لئے کوشش کرنا آواز بلند کرنا نمائندے کا فرض اولین ہے مگر اس بات کو ہمارے نمائندے نہیں سمجھتے یہاں آنے والے سائلین سیاسی ڈیروں و دفاتر کے باہر گھنٹوں تک بے یارو مدگار مایوسی کی تصویر بنے انتظار کرتے ہیں اس کے بعد اگر خوش قسمتی سے صاحب سے ملاقات ہو جائے تو ناجانے صاحب کا موڈ کیسا ہو وہ سائل کی بات کس انداز میں سنے اب ووٹر یہ سب چیزیں نوٹ کرتا ہے اور اس کا ردعمل آنے والے الیکشن میں ووٹ کی پرچی پردیتا ہے ن لیگی سیاستدان آج بھی نوے کی دہائی والی سیاست کرنے میں مصروف ہیں جبکہ دنیا بدل چکی ہے زمانہ تبدیل ہو چکا ہے شوشل میڈیا نے سب کچھ بدل کر رکھ دیا ہے اب سب اچھا کی رپوٹ نہیں چلے گی عوامی نمائندوں کو عوامی بننا پڑے گا ان کی بات سننا پڑے گی ان کے جائز کام کرنا ہونگے ووٹر کو عزت دینا ہو گی اس بات کو تسلیم کرنا ہو گا کہ ووٹر بھی انسان ہیں چند دن قبل کی بات ہے ن لیگ فیصل آباد کے سابق سٹی نائب صدر عصمت اکرام کی تیمارداری کے لئے کسانہ صاحب کے ہمراہ کاڈیالوجی جانے کا اتفاق ہوا جہاں پتا چلا کہ ن لیگ کے درینہ ساتھی کی تیمار داری کو کوئی نہیں پہنچا اس کو گھر آئے بھی کئی دن گزر چکے ہیں اس کے باوجود اس کو پوچھا تک نہیں گیا اس کے حلقہ کے امیدواران نے اس کا حال پوچھنا گوارا نہیں کیا جبکہ دوسری جماعت کے کامیاب ایم پی اے اس کی تیمارداری کو آن پہنچے جن کی اس نے الیکشن میں مخالفت کی تھی وہ پہنچ گئے مگر ن لیگ کی قیادت سے کوئی نہ پہنچا کچھ عرصہ قبل فیصل آباد میں ایک بہت بڑا سانحہ ہوا جس سے ایک نوجوان گلے میں ڈور پھرنے سے جان کی بازی ہا گیا تھا جس کے گھر میاں محمد نواز شریف اور وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف پہنچی مگر افسوس کہ حلقہ کے امیدواران آج تک اس خاندان کے دکھ میں شامل نہ ہوئے تو ایسے میں ن لیگ کا ذوال ہی بنتا ہے ن لیگ اپنی دشمن آپ ہے لیگی راہنماوں کو اتنا نقصان مخالفین نے نہیں پہنچایا جتنا ان کی اس طرز سیاست نے پہنچایا ہے اس میں اعلیٰ قیادت بھی شامل ہے جس نے اپنے خاندان کو نوازنے کے علاوہ کسی درینہ ساتھی یا وکرز کو کوئی لفٹ نہیں کروائی مخلص ساتھیوں کو نظر انداز کیا گیا ووٹ کو عزت دو کے بیانیہ کوپس پشت ڈال دیا گیا نہ ووٹ کو عزت دی گئی نہ ووٹر کو ایسے افراد کو ٹکٹ اور اہم عہدے تقسیم کئے گئے جو اپنے محلے اپنی یونین کونسل سے ہارے اور ایک بار نہیں مسلسل ہارے جن سے اہل محلہ و اہل علاقہ نالاں تھے مگراب ضرورت اس امر کی ہے کہ پارٹی کوچاہئے ملک بھر سے درینہ اور مخلص ساتھیوں جنہوں نے بغیر مطلب کے پارٹی کو تیس تیس سال دیئے ان کو شامل کرتے ہوئے تمام اضلاع میں تمام سیاسی عہدے تبدیل کرتے ہوئے سیاسی کمیٹیاں بنائی جائیں یونین کونسل سطح سے پارٹی کو دوبارہ متحرک کیا جائے ناراض کارکنان کو منایا جائے ان کے تحفظات دور کئے جائیں اور ان کو سیاسی ونگ میں شامل کیا جائے فیصل آباد سمیت تمام اضلاع کی گروپ بندی کو ختم کرنے کے لئے اعلیٰ قیادت مل بیٹھ کر فیصلہ کرے تمام عہدراروں کے تحفظات دور کئے جائیں اگر ان تحفظات کو دور کرتے ہوئے ان مسائل پر غور نہ کیا گیا تو ن لیگ آئندہ الیکشن میں اس سے زیادہ بری شکست کے لئے تیار رہے ن لیگ کو ق لیگ بننے سے بچانے کے لئے قیادت کو مل بیٹھ کر فیصلے کرنے ہونگے اور ان فیصلوں میں پرانے ساتھیوں جانثار کارکنوں مخلص ووٹر اور لیگی ورکرز کو شامل کرنا ہوگا اور یہ سب بہت جلد کرنا ہو گا اس سے قبل کہ بہت دیر ہو جائے۔