”پاکستانی تاریخ کے بلیک ہولز“(3)

18اگست، 1911م کو برطانوی پارلیمان میں ہائی کورٹس ایکٹ،1861م میں ترامیم کی گئیں جس میں اس سمے موجود ہائی کورٹس میں ججوں کی تعداد میں اضافے، ججز کی تنخواہ و دیگر مراعات، عارضی ججز کی تعیناتی اور برطانوی نوآبادیاتی ہندوستان میں مزید ہائی کورٹس کے قیام کی بابت قانون سازی کی گئی تھی۔The Government of India (3rd revised and updated ed.) By Ilbert, Courtney Peregrine, Published by Clarendon Pressکے مطابق گورنمنٹ اوف انڈیا ایکٹ، 1915م برطانوی پارلیمنٹ سے منظور شدہ وہ ایکٹ تھا جس نے قانونی طور پر پہلی بار پورے برطانوی ہند کو “ایک ایکٹ” کی چھتری تلے یکجا کر کے مختلف راجواڑوں، ریاستوں اور چھوٹی چھوٹی راجدھانیوں میں متفرق اور بٹے ہوئے ہندوستان کو “ایک” برطانوی ہندوستان بنا دیا۔ اس ایکٹ نے 1770م سے نافذ شدہ (کمپنی اور کراؤن) کے کم و بیش 47, ایکٹس کو منسوخ کرتے ہوئے اس کی جگہ مذکورہ 135, سیکشنز اور 5, شیڈولز پر مشتمل ایکٹ کو نافذ کردیا، (بعد میں ایک ترمیمی بل 1916 بھی اس میں consolidate کیا گیا). بعد ازاں گورنمنٹ اوف انڈیا ایکٹ، 1919م، جو عرصہ 10, برس (1919م تا 1929م) کے لیے برطانوی ہندوستان میں نافذ ہوا تھا، اس میں کافی تبدیلیاں کی گئیں اور مختلف حکومتی معاملات میں لوکل ہندوستانیوں کی شمولیت کے نئے مواقع پیدا کیے جس کاConsequential effect(سائمن کمیشن کی رپورٹ کے نتیجے میں) گورنمنٹ اوف انڈیا ایکٹ، 1935 کی صورت میں ظاہر ہوا، جس کے تحت برعظیم پاک و ہند بشمول بنگلہ دیش و برما کے عوام کو دساور سے آنے والے قابض حکمرانوں سے محدود “آزادی” نصیب ہوئی۔ گورنمنٹ اوف انڈیا ایکٹ، 1935م اپنے وقت کا برطانوی پارلیمان میں پیش کیا جانے والا طویل ترین ایکٹ تھا۔(تقریباً 64 برس بعد منظور کیے جانے والا “گریٹر لندن اتھارٹی ایکٹ، 1999م” اب برطانوی پارلیمنٹ کا طویل ترین ایکٹ کہلاتا ہے)گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ، 1935م، کے 321 حصے اور 10 شیڈول ہیں۔ ایکٹ کی طوالت کے انوسار اسے دو حصوں میں تقسیم کیا گیا؛1) گورنمنٹ آف برما ایکٹ، 1935 جس میں 159 سیکشنز اور 6 شیڈول ہیں۔(برما کی برٹش انڈیا سے علاحدگی، یکم اپریل 1937م سے لاگو ہوئی)؛2)گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ، 1935 جس میں 321, سیکشنز اور 10, شیڈولز ہیں۔مذکورہ بالا گورنمنٹ اوف انڈیا ایکٹ 1935، “برطانوی ہندوستان” میں یہاں کے عوام کے لیے “تیسرا” فیصلہ کن موڑ ثابت ہوا۔ 1935م کے ایکٹ کے تحت برطانوی ہندوستان میں حکومت نے ہائی کورٹس کے ججوں کے پرانے متناسب انتظامات کو ختم کرتے ہوئے ان کی تقرری کے معیار کو بھی ری وزٹ کیا اور ججز کی تقرری کے اصول میں انڈین سول سروس کے ارکان کو بھی شامل کیا۔ مذکورہ ایکٹ، 1935 کے سیکشن 200 اور 203 نے فیڈرل کورٹ / (وفاقی عدالت) کے قیام کے لیے قانونی بنیاد فراہم کی، جو عام طور پر دہلی میں واقع ہوتی تھی اور اس میں ایک چیف جسٹس اور چھ سے زیادہ جج نہیں ہوتے تھے۔ 1935م کا ایکٹ ملکہِ برطانیہ کے حق میںThe Government of India Act, 1858کے تحت اقتدار “کمپنی” سے “تاج” کے حق میں منتقل ہونے سے شروع ہونے والے “نوے” سالہ راج اور، ملکہ کے (Empress of India) / مہارانیِ ہند” کے خطاب کا “کلائمکس” ثابت ہوا جو آخرش پہلے برما اور پھرIndian Independence Act,1947کے تحت انڈیا اور پاکستان کی بطور دو خود مختار آزاد ریاستوں اور اسی ایکٹ کے سیکشن 7 (1) (b) تحت تیسری خودمختار ریاست (حیدرآباد ، دکن/ عثمانستان) کی تشکیل پر منتج ہوا۔ حیدرآباد دکن /عثمانستان کی ریاست تیسری خودمختار ریاست تھی جو انڈیا ور پاکستان کے ساتھہ اسی ایکٹ کے تحت وجود میں آئی جس کے تحت اول الذکر دو ممالک انڈیا اور پاکستان کی تشکیل ہوئی تھی۔ ولیکKingship and Colonialism in India’s Deccan: 1850–1948. By B.Cohen(2007) published by Springer ISBN 978-0-230-60344-8کے مطابق اوپریشن پولو” کے کوڈ نیم سے ستمبر 1948م میں کی گئی بھارتی “فوجی جارحیت” میں ریاست حیدرآباد (پر حملہ کرتے ہوئے اس)، کی معاشی ناکہ بندی اور ریلوے، اور سرکاتی عمارتوں پر بمباری کے ذریعے ریاست کے نظام کو غیر مستحکم کر کے “نظام حیدرآباد” سے الحاق کی دستاویز پر دستخط کرا لیے گئے۔ بھارتی فوجی جارحیت کے ہنگام ریاست عثمانستان (حیدرآباد، دکن) کے محکمہ خارجہ کے سکریٹری جنرل نے 21, اگست 1948م کو اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل (2) 35کے تحت اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے صدر سے درخواست کی کہ وہ ” اس سنگین تنازعہ پر غور کریں، کیونکہ جب تک اس قضیے کو بین الاقوامی قانون اور انصاف کے مطابق حل نہیں کیا جاتا، بین الاقوامی امن اور سلامتی کے خطرے میں ڈلنے کا بھرپور امکان ہے۔ (24 September 2013)Hyderabad 1948: India’s hidden By Thomson, Mikeکے مطابق مذکورہ بھارتی فوجی جارحیت کے نتیجے میں وسیع پیمانے پر مذہبی بنیادوں پر غارت گری کی گئی۔جو بلاشبہ ایک فراموش کردہ انسانی المیہ ہے۔Appendix 15: Confidential notes attached to the Sunderlal Committee Report, by Noorani, 2014کے مطابق اس انسانی المیے کے حوالے سے بھارتی وزیر اعظم جواہر لال نہرو کی طرف سے مقرر کردہ سندرلال کمیٹی” نے ایک رپورٹ میں، جو کہ 2013م تک پبلک نہ کی جاسکی، میں یہ نتیجہ اخذ کیا کہ مذکورہ فوجی آپریشن میں ریاست میں مجموعی طور پر 30,000-40,000 کے درمیان لوگوں کو مارا گیا۔ مگر دیگر آزاد اور ذمہ دار مبصرین نے اموات کی تعداد 200,000 یا اس سے زیادہ ہونے کا تخمینہ لگایا۔ تاریخی طور پر 1858م میں ملکہ برطانیہ کے ہندوستان پر مکمل اقتدار سے پہلے ہندوستان مختلف صورتوں اور مختلف ادوار میں سات (یا آٹھہ) بار مختلف یورپیئن اقوام کی طرف سے colonisation کا شکار ہوچکا تھا جس میں اول، اول نکوبار جزائر (بحرِ ہند کے مشرقی ساحل پر سماٹرا اور ساحلی سرحد پر ایک طرف تھائی لینڈ اور ملائیشیا وغیرہ اور خلیجِ بنگال کی ساحلی پٹی پر موجود کم و بیش 22, سے 24, جزائر پر مشتمل اس علاقے کا (جو اب تامل ناڈو سٹیٹ کا حصہ ہونے کے باوصف، کلکتہ ہائی کورٹ کی jurisdiction میں آتے ہیں) 1754/56 میں آفیشلی ڈنمارک” کا کالونی بننا ہے۔ اس سمےDanish East India Company ڈنمارک کے بادشاہ فریڈرک کے نام اور اطاعت کے زیرِ سایہ ہندوستان کی اہم تجارتی بندرگاہ “ٹرینکیوبار” پر بھی عملی طور پر قابض تھی۔History of Andaman and Nicobar Islands; Andaman Mangroves Holidays کے مطابق دسمبر, 1756م میں ڈنمارک کے اس وقت کے بادشاہ کے نام پر ان جزائر کا نامFrederick’s Islands رکھا گیا۔ (بعد ازاں یہ جزائر 1778م تا 1785م تک آسٹریا کی کولونی کے طور پر بھی رہے) بار بار ملیریا اور دیگر tropical deaseas کی آماجگاہ بننے کے باوصف ان جزائر پر بیرونی حاکموں کو اپنا قبضہ برقرار رکھنے میں بے حد مشکل پیش آتی رہی۔اسی دوران اٹلی نے 1864م سے 1865م کے مابین ان جزائر کو ڈنمارک سے خریدنے کی بابت گفت و شنید بھی کی مگر بوجوہ بیل منڈھے نہ چڑھہ سکی۔ آخرش 16, اکتوبر 1868م کو ڈنمارک نے ان جزائر کے قابضانہ و تصرفانہ حقوق برطانیہ کو بیچ دیے گئے جس نے 1869 میں اسے اپنے زیرِ تسلط برٹش انڈیا کا باقاعدہ حصہ بنا کر ان جزائر کو اپنے دورِِ حکومت میں ایک نو آبادیاتی جیل / cellular prison میں تبدیل کردیا۔ یہاں بیشتر جلاوطنی کی سزا پانے والے سیاسی قیدیوں کو پھانسی یا قید با مشقت کی صورت میں بطور سزا رکھا جاتا تھا۔( بعض مشہور سیاسی قیدیوں میں ونایک ساواریکر، مولانا فضل حق خیر ابادی، مولانا محمد جعفر تھانیسری، یحییٰ علی،مولوی احمد اللہ، یوگیندرا شُکلا، سوہن سنگھہ وغیرہم شامل ہیں؛ علی پور کیس، 1908م کے بیشتر انقلابی اور 1921م میں ہونے والے مالابار دنگوں کے استعماری حکمرانوں سے سزا یافتہ مجرموں کو اسی نو آبادیاتی “سیلولر جیل” میں رکھا جاتا تھا۔یہیں پھانسی کی سزا پانے والےPunjab Mounted Policeکے سابق آفیسر شیر علی آفریدی، جس کی سزا اپیل میں عمر قید میں بدل دی گئی تھی، نے وائسرائے اوف انڈیا/گونر جنرلRichard Bourke, 6th Earl of Mayoالمعروف لارڈ میو کو 8، فروری 1872 میں قتل کردیا۔ ڈاکٹر ہیلن جیمز لکھتی ہیں کہ سزا یافتہ علی شیر خان آفریدی کوکی خیل پٹھان کے ہاتھوں وائسرائے ہندوستان /گورنر جنرل لارڈ میو کے قتل نے ہندوستان میں برطانوی سرکار کے پورے ڈھانچے کو ہلا کر رکھہ دیا جس کی گونج برطانوی سلطنت کے پیلسز تک سنی گئی۔ڈاکٹر ہیلن جمیز کے مطابق اس قتل کے حوالے سے آنے والی فرانزک تفتیشی ٹیم اس قتل کو بہر صورت ایک سازش ثابت کرنا چاہتی تھی جس کی ایک وجہ کچھہ ہی عرصہ قبل کلکتہ میں 20, ستمبر کو ایک مسلمان کے ہاتھوں قائم مقام چیف جسٹس جون نارمن کا قتل بھی تھا۔ تاہم ٹیم کے ممبران میں سے کوئی بھی اس قتل کے پیچھے کسی منظم سازش کا سراغ نہ لگاسکا۔ (لارڈ میو ہی کے نام پر لاہور کا میو ہاسپٹل اور میو کالج اوف آرٹس( اب NCA) قائم کیا گیا)؛ مئی 1933 میں قیدیوں کی اور سے کی گئی بھوک ہڑتال میں بھگت سنگھہ کے ساتھی مہاویر سنگھہ، Arms Act کے تحت سزا یافتہ موہن کشور اور موہیت موئیترا کی حکام کی طرف سے Force feeding کرتے ہوئے ناحق موت ہوگئی۔(جاری ہے)