پانی زندگی کے لیے کس قدر اہمیت کا حامل ہے یہ ان لوگوں سے پوچھیے جو کئی کئی دن بغیر پانی یا تھوڑے پانی کے ساتھ گزارہ کرتے ہیںکیونکہ انہیں اس مقدار میں صاف تو کیا آلودہ پانی بھی نصیب نہیں ہوتا جس سے وہ اپنی ضروریات پوری کر سکیں ۔انسان بغیر نہائے تو رہ سکتا ہے لیکن پانی پیئےبغیر زندہ رہنا ممکن نہیں ہے۔یوں تو پوری دنیا ہی پانی کی قلت کا شکار ہے مگر پاکستان کے صحرا تو اس سے خصوصی طور پر متاثر ہو رہے ہیں ،جہاں لوگ گندے سے گندا پانی بھی پینے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ امیر ہو یا غریب ،جانور ہوں یا چرند پرند ہر ایک پانی کی لائن میں کھڑا نظر آتا ہے ۔چولستان یا روہی کا علاقہ ان شدید گرمیوں میں شدید آبی مسائل کا شکار ہو جاتا ہے اور ایسی ہی خشک سالی سے اس سے قبل بھی بھوک اور پیاس کئی انسانی المیے جنم لے چکے ہیں ۔ موسمی حالات اور پانی کی شدید قلت یہاں کے لوگوں کو نقل مکانی پر بھی مجبور کر دیتی ہے ۔ موجودہ ماحولیاتی تبدیلیوں سے متوقع شدید موسمی حالات کی صورت میں ان لوگوں کے لیے مشکلات میں کئی گنا اضافہ ہو سکتا ہے ۔ہیٹ ویواور ماحولیاتی تبدیلیوںسے بڑھتا ہوا درجہ حرارت آنے والے خطرات سے آگاہ کر رہا ہے کہ پانی کی قلت سے دوچار ہو نا پڑے گا ۔
میرا تعلق ڈیرہ نواب صاحب سے ہے جو چولستان یا روہی کا گیٹ وے کہلاتا ہے ۔گزشتہ پچاس سال سے جب بھی گرمی آتی ہے اسکے اثرات اور حدت سب سے پہلے یہاں محسوس کی جاتی ہے۔ لوگوں کی نقل مکانی اس بات کی علامت ہوتی ہے کہ چولستان میں پانی کے ذخا ئر اب ختم ہو چلے ہیں ۔ لوگ اپنے اونٹوں ،بھیڑ بکریوں اور گائےکے ریوڑ لیکر یہاں اور اس کے گردو نواح میں ڈیرے ڈال لیتے ہیں ۔ چولستان میں بارش نہ ہونے اور گرمی کی شدت میں اضافےسے ہرسال سینکڑوں انسان، مال مویشی موت کے منہ میںچلے جاتے ہیں۔ مگر اس سال ابھی تو گرمی کا آغاز ہے اور یہاں کا درجہ حرارت 50سینٹی گریڈ تک جا پہنچا ہے ۔طویل عرصہ سے بارش نہ ہونے سے چولستان اور روہی کے ٹوبے خشک ہو چکے ہیں ،جنگلی حیات بھی شدید خطرے سے دوچار ہے ۔گھاس پھوس کا نام ونشان مٹتا جا رہا ہے ۔چند روز قبل سوشل میڈیا پر گرمی اور پیاس سے مرنے والی بھیڑ بکریوں کی سوشل میڈیا پر تصاویر نے دلوں پر لرزہ طاری کر دیا ہے جو پانی اور چارہ نہ ملنے سے ہلاک ہو چکی ہیں ۔قیامت خیز گرمی اور پانی کی عدم دستیابی سے قدرتی چرا گاہیں ویران ہو رہی ہیں،دور دور تک ہریالی نظر نہیں آتی جنگلی جھاڑ یاں تک سوکھ چکی ہیں جانور پیاس اور بھوک سے مر رہے ہیں انسان گرمی اور پیاس سے مختلف بیماریوں میں مبتلا ہوتے چلے جا رہے ہیں ۔چولستان سے جان اور مال بچانے کے لیے نقل مکانی بڑی تیزی سے جاری ہے ۔چولستان سے پانی ،پانی کی صدائیں آرہی ہیں ،روہی کی پیاس بڑھ رہی ہے ۔انسانوں کے ساتھ ساتھ جانور وں کی زندگی بھی دائوپر لگ چکی ہے ۔صحرائی ٹوبوں میں بچا کچھا پانی نہایت آلودہ اور مضر صحت ہوچکا ہے مگر لوگ استعمال پر مجبور ہیں ۔اس صحرا میں بسنے والے دو لاکھ انسان اور سولہ لاکھ جانور پانی کے حصول کے لیے آسمان کی طرف دیکھ رہے ہیں ۔ابر رحمت کے منتظر ان لوگوں کی مشکلات میں دن بدن اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے ۔بے بہا وسائل سے مالا مال صحرا چولستان آج مدد کا منتظر ہے ۔چولستان میں پانی کا ذخیرہ کرنے والے ٹوبے جن کی تعداد گیارہ سو کے قریب ہے مگر ان کی صفائی کا خاطر خواہ بندوبست نہ ہونے سے مناسب اور معقول ذخیرہ کرنے سے قاصر ہیں اب تو سوکھ چکے ہیں ۔ چولستان کے بہت سے علاقوں میں صاف پانی کی پائپ لائنیں بچھا دی گئی تھیں جو کسی حد تک کام کرتی ہیں مگر زیادہ تر خراب رہتی ہیں اور پانی نہیں پہنچ پاتا ۔جانوروں کے لیے سایہ دار شیڈ بنائے گئے ہیں لیکن وہ بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں ۔دریائوں میں پانی خشک ہونے کی وجہ سے جو چند ناکافی نہریں یہاں تک آتی ہیں وہ بھی ٹیل تک نہیں پہنچ پاتیں ۔سوال یہ ہے کہ ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے دن بدن گرمی بڑھنے کے خطرے کے پیش نظر اس صورتحال کا مقابلہ کیسے ممکن ہے ۔سب سے پہلے تو حالات کی سنگینی کااحساس بے حد ضروری ہے تاکہ کسی تلخ صورتحال سے بچا جا سکے اور اس شدید خشک سالی سے کوئی انسانی المیہ جنم نہ لے سکے ۔دور رس اقدامات کا وقت اب نہیں ہے، فوری ریلیف اور امدادی اقدامات کا وقت ہے، جلد از جلد حکومت انسانی حیات اور جانداروں کو پانی فراہم کرے اور ان پیاس سےبلکتے بچوں ،عورتوں ،مردوں اور بزرگوں کو بچایا جاسکے اور تڑپتے ہوئے جانور ں اور پرندوں کی پیاس بجھ سکے ۔ان چولستانی بھائیوں کی مدد کرنے کے لیے فوری اور ہنگامی بنیادوں پر حکومتی اقدامات کی اشد ضرورت ہے ۔
گو اس مرتبہ ریسکیوو 1122بھی خاصی متحرک نظر آتی ہے لیکن اتنے بڑے صحرا کی پیاس بجھانا دشوار مرحلہ ہوتا ہے ۔مقامی این جی اوز کو بھی ان کے شانہ بشانہ کام کرنے کی ضرورت ہے ۔
سب سے پہلے اللہ کے حضور سجدہ ریز ہوکرباران رحمت کی دعا کریں ۔بے شک وہی ذات اس مشکل گھڑی میں ہماری مدد گار ہوسکتی ہے ۔اللہ کی خصوصی رحمت اور بارش کے لیے دعائوں اور نماز کا اہتمام کیا جائے ۔ارباب اختیار فوری طور پر کراچی کی طرز پرپانی کے ٹینکرز مطلوبہ مقامات تک پہنچانے کا انتظام کریں ۔حکومت کے ساتھ ساتھ سماجی تنظیموں اور مخیر حضرات کو بھی اس کار خیر میں حصہ لینا چاہیے ۔ سیاسی ،سماجی اور مذہبی جاعتوں کو اس سلسلہ میں فوری توجہ دینی چاہیے ۔جو پانی کی پائپ لائن قابل مرمت ہیں انہیں فوری مرمت کیا جائے اور پانی کی ترسیل میں اضافہ کیا جائے ۔نہروں کو ہنگامی بنیاد پر پانی کی مکمل فراہمی کا بندوبست کیا جائے ،بندش ختم کی جائے تاکہ پانی ٹیل تک پہنچ سکے ۔محکمہ صحت کے خصوصی کیمپ قائم کیے جائیں ۔ لائیو سٹاک اور وائلڈ لا ئف کی خصوصی ٹیمیں تشکیل دی جائیں تاکہ پالتو اور جنگلی جانوروں کی زندگی بچائی جاسکے ۔میڈیا اپنا بہترین کردار ادا کرتے ہوئے ایسی مقامات کی نشاندہی کرے جہاں فوری مدد درکار ہے ۔ جن لوگوں کے جانور اس خشک سالی کی نظر ہو چکے ہیں انہیں حکومت فوری مالی امداد دے تا کہ ان کے ہلاک شدہ جانوروں کے نقصان کاکسی حد تک ازالہ ممکن ہو سکے ۔