بھارت چونکہ ہمارا بڑا پڑوسی اور ایک ایسا ملک ہے جس کے ساتھ ہماری کئی جنگیں بھی ہو چکی ہیں اور ہر میدان میں چاہے وہ کھیل کا ہو یا جنگ کا اور چاہے سفارت کاری سے لے کر تجارتی دوڑ تک کا میدان ہو ہمارا مقابلہ ہے، اس لیے مجھے انڈین معاملات میں خصوصی دلچسپی ہے اور انڈین سیاست ہو یا اس کی بڑھتی طاقت میں کوشش کرتا ہوں میرے زیر مطالعہ رہے۔ آج بھارت چین کو پیچھے چھوڑتے ہوئے ایک ارب چالیس کروڑ آبادی کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا ملک بن چکا ہے ۔ اگر معیشت کی بات کی جائے تو یہ اس وقت دنیا کی پانچویں بڑی معیشت کا حامل ملک بن چکا ہے۔ 1947 کے بعد دونوں ممالک روایتی طور پر اپنی دشمنی میں مشہور ہیں اور مشہور تھنک ٹینکس ان کے درمیان کشمیر ڈسپیوٹ کو نیو کلیئر فلیش پوائنٹ بھی مانتے ہیں۔ پاکستان میں ایک بڑا طبقہ اس بات کا حامی ہے کہ بھارت سمیت ہمارے تمام پڑوسیوں کے ساتھ اچھے اور برادرانہ تعلقات ہونے چاہئیں۔ ملکی ترقی اور سلامتی کے لیے ایسا ہونا بھی چاہیئے لیکن یہاں کے عوام کو ابھی تک موجودہ بھارتی قیادت کے مکروہ چہرے سے مکمل طور پر واقفیت نہیں ہوئی ہے۔ 2014 تک بھارت کے ساتھ پاکستان کی کئی جنگیں ہو چکی ہیں اور ہر میدان میں یہ دونوں ایک دوسرے کے رقیب رہے ہیں۔ بھارت میں جب بھی کانگریس پارٹی کی حکومت رہی ہے دونوں پڑوسیوں کے با معنی امن مذاکرات بھی ہوتے رہے ہیں۔اس تحریر کا مقصد یہاں یہ بتانا ہے کہ 2014 کے بعد بھارت کی سیاست کا رخ ہمیشہ کے لیے تبدیل ہو چکا ہے۔ اپنی تمام تر دہشت گردانہ سرگرمیوں، پالیسیوں کے باوجود یہ ملک اپنے آپ کو سیکولر کہلاتا رہا ہے اور عالمی پیمانے پر اس کا پرچار بھی کرتا رہا ہے۔ نریندر مودی 2014 میں وزیر اعظم بننے سے قبل ریاست گجرات کا وزیر اعلیٰ تھا۔ مودی ایک کمٹڈ شخص ہے جس کی زندگی کا مقصد بھارت کو سیکولر سے ہندو راشٹر میں بدلنا ہے۔ گجرات میں اس نے ہزاروں بے گناہ مسلمانوں کا خون بہا یااور اپنے مسلم دشمن ایجنڈے کی وجہ سے بی جے پی کی قیادت حاصل کرنے میں نہ صرف کامیاب ہوا بلکہ اب تو بی جے پی یعنی بھارتیہ جنتا پارٹی کے پاس یہی ون مین شو ہے جس کا نام ہے نریندر مودی، مودی نے بھارت کی شبیہ یکسر تبدیل کر دی ہے۔ جہاں جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں وہاں اس نے کٹر اور متعصب وزرائے اعلیٰ لگائے ہیں جو کبھی گئو کشی تو کبھی لو جہاد کے نام پر مسلمانوں کے گھروں کو مسمار کرتے ہیں۔ کبھی صدیوں پرانی مساجد کو نام نہاد تاریخی شواہد کی بنیاد پر کہ یہ مندر کی جگہ بنی ہوئی ہیںشہید کر دیتے ہیں۔ بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر آپ کے سامنے ہوئی ہے۔ اقوام متحدہ سمیت تمام عالمی ادارے اس بات کو اچھی طرح جانتے ہیں کہ بھارت میں حکومتی سرپرستی میں اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے ساتھ ناروا سلوک کیا جا رہا ہے لیکن چونکہ بھارت اب دنیا کی سب سے بڑی منڈی بن چکاہے اس لیے مجرمانہ خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ جب سے نریندر مودی اقتدار میں آیا ہے بھارت کے طول و عرض میں مسلم مخالف کئی واقعات درج ہو چکے ہیں بالخصوص کشمیر میں بے رحمی سے مظلوم کشمیریوں کی نسل کشی کی گئی ہے۔ کشمیر میں مودی ڈیمو گرافی چینج کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہا ہے اور کافی تعداد میں راشٹریہ سیوک سنگھ اور بی جے پی کے کارکنوں کو کشمیر میں آباد کر چکا ہے۔ اس مقصد کے لیے اس نے کشمیر کی خصوصی حیثیت بھی ختم کی۔ یاد رہے کہ پانچ اگست 2019 کو انڈیا میں برسراقتدار بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت نے انڈین آئین کی شق 370 کے خاتمے کا اعلان کیا تھا جس کے تحت ریاست جموں و کشمیر کو نیم خودمختار حیثیت اور خصوصی اختیارات حاصل تھے۔ اس دفعہ کے تحت جموں کشمیر کا اپنا علیحدہ آئین، ٹیکس نظام تھا اور یہاں کی نوکریاں صرف یہاں کے مستقل باشندوں کے لیے مخصوص کر دی گئیں۔ انڈیا کے کسی بھی علاقے کا کوئی بھی باشندہ نہ یہاں ملازمت حاصل کر سکتا تھا، نہ زمین خرید سکتا تھا اور نہ ہی ووٹ ڈال سکتا تھالیکن مودی نے کشمیری عوام کے اس بنیادی حق پر ڈاکہ مارا اور اس دفعہ کو ختم کر کے بڑی تعداد میں کشمیر میں غیر کشمیریوں کو آباد کر دیا ہے۔ حکومت پاکستان نے اس پر بھرپور احتجاج کیا اور اس کشیدگی کی وجہ سے لائن آف کنٹرول پر کئی بار دونوں افواج نے ایک دوسرے پر حملے کیے ہیں۔ مودی کی سیاست کا دارومدار پاکستان دشمنی ہے اور اس نے بھارت کے عام ہندوؤں کو پاکستان اور مسلمانوں کا خوف دلا کر ووٹ لیے ہیں۔ بھارت کے وزیر داخلہ، وزیر دفاع اور اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ جوگی آدتیہ ناتھ اس کھیل میں مودی کے ساتھ برابر کے شریک ہیں۔ اب جبکہ بھارت میں 2024 کے عام انتخابات مرحلہ وار جاری ہیں۔ نریندر مودی کا ٹاسک انڈیا کی پارلیمان کے 543 رکنی ایوانِ زیریں یعنی لوک سبھا کی 400 سے زیادہ نشستیں حاصل کرنا ہے تاکہ انڈیا کو سیکیولر اسٹیٹ سے ہندو راشٹر میں تبدیل کیا جا سکے۔ اس لیے مودی ان الیکشن میں مسلم بالخصوص پاکستان کارڈ کھیل رہا ہے۔ مودی نے اپوزیشن کے خلاف ایک جارحانہ مہم کے دوران ووٹروں کو راغب کرنے کے لیے ہندوتوا ، قوم پرستی اور اقتصادی ترقی کو اپنی انتخابی مہم کا محور بنا رکھا ہے۔ دوسری جانب کانگریس نے دوسری اپوزیشن اور علاقائی جماعتوں کے ساتھ ایک متحدہ محاذ بنایا ہے اور وہ مہنگائی، بےروزگاری اور کرپشن کے ایشو پر الیکشن لڑ رہی ہے۔ مودی ایک خاص ایجنڈے کے تحت انڈیا کی بڑی ریاستوں میں مسلم اور پاکستان کارڈ کھیل رہا ہے جن میں اتر پردیش، بہار، گجرات، راجستھان، مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ، مہاراشٹر،کرناٹک اور ہریانہ شامل ہیں۔ پچھلے الیکشن میں مودی کو اتر پردیش اور بہار سے 100 نشستیں ملی تھیں۔ ان ریاستوں میں مسلم دشمنی پر مبنی فسادات کا ہونا عام ہے اور یہ زیادہ تر صوبائی حکومتوں کی سرپرستی میں ہوتے ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک ہندو اکثریتی ملک میں ہندو بالادستی قائم کرنا کس طرح سودمند ہے؟ جہاں تک مذہب کی بات ہے مودی کا مذہب سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ یہ ایک مافیا ہے جن کا ماضی مسلمانوں کے خون سے رنگا ہوا ہے۔ یہ ایک ایسا ٹولہ ہے جو اپنی دہشت گردانہ سرگرمیوں کی بدولت بھارت کے ٹکڑے کروانے کے درپے ہے اور یہی عام سی بات بھارتی ووٹرز کو سمجھ نہیں آ رہی ہے۔ کانگریس یا کسی اور پارٹی کے رہنما اگر مودی اینڈ کمپنی کی حقیقت بیان کرتے ہیں تو ان پر پاکستان نواز ہونے کا لیبل لگا دیا جاتا ہے۔ یوں سوشل میڈیا پر بی جے پی کا لشکر اس رہنما کا جینا دوبھر کر دیتا ہے اور مودی مخالف آواز دب کر یا ختم ہو کر رہ جاتی ہے۔ مودی کو یہ ارمان بھی ہے کہ مسلمان زیادہ بچے پیدا کرتے ہیں حالانکہ گزشتہ بیس سالوں میں مسلمانوں کی شرح پیدائش میں باقی طبقوں کی نسبت کم ہوئی ہے۔ اب پریشان کر دینے والی بات یہ نہیں ہے کہ مودی اور ٹولہ الیکشن مہم میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کی آگ کو بڑھاوا دے رہے ہیں بلکہ پاکستان سمیت انسانی حقوق کی تنظیموں کے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ بھارتی خفیہ ایجنسی را نے پاکستان سمیت دنیا بھر میں ٹارگٹ کلنگ کے لیے قاتلوں کو تعینات کیا ہے جس کی امریکی حکومت نے بھی مذمت کی ہے۔ اس موضوع پر گزشتہ کچھ عرصے سے کینیڈا کے ساتھ بھی مودی سرکار کی کشیدگی چل رہی ہے۔ اب نریندر مودی اور اس کا وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ کھلم کھلا جلسوں میں بھی یہ تسلیم کر رہے ہیں کہ ہم پاکستان میں کارروائیاں کرتے ہیں اور آگے بھی کریں گے۔ گزشتہ الیکشن کی طرح 2024 کے موجودہ الیکشن میں بھی بھارت میں مسلمانوں کے خلاف ایک ایسا ماحول تیار کر لیا گیا جس میں وہ خود کو قیدی محسوس کرتے ہیں۔