بلوچستان میں دہشتگردی ملکی استحکام کے لیے سنگین خطرہ

اخر کب تک پنجاب کی مائیں اپنے جوانوں کے جنازوں پر بین کرتی رہیں گی اور حکمران صرف بیان جاری کرتے رہیں گے خانیوال میں دو بھائیوں سمیت ایک ہی خاندان کے سات جنازے پہنچنے پر قیامت بپا ہو گئی یہ پہلی بار نہی ہوا اور آخری بار بھی نہی لگتا حکمرانوں کو ہوش کے ناخن لینے ہوں گے اور دہشتگردی کے عفریت پر قابو پانے کے لیے موثر اقدامات کرنے ہوں گے کینکہ اندرنی اور بیرونی خطرات کی تیز ہواوں میں ایک صوبے میں لگنے والی آگ کو پورے ملک میں پھیلتے دیر نہی لگتی عوامی نمایندوں اور سیاسی جماعتوں کے زبان پر بھی تالے پڑ گئے ہیں کوئ مظلوموں کے حق میں بولنے اور یہ پوچھنے اور بتانے کو تیار نہی کہ بلوچستان میں کیا ہو رہا ہے ہمارے چنے ہوئے وزیر داخلہ اور ریاستی ادارے بلوچستان میں دہشتگردی پر قابو پانے میں مسلسل بری طرح سے ناکام ہو رہے ہیں وزیر داخلہ محسن نقوی اس سے پہلے پنجاب فتح کر کے اپنی کامیابی کے جھنڈے گاڑ چکے ہیں اور ان کی اسی اعلیٰ کارکردگی کو دیکھتے ہوئے انہیں ملک کی داخلی سیکیورٹی کا اہم ٹاسک دیا گیا تھا لیکن ایسا لگتا ہے کہ کچھ عناصرانہیں وزیر داخلہ کے طور پر کامیاب نہی دیکھنا چاہتے اسی لیے ان کے چارج سنبھالنے کے بعد خصوصاً بلوچستان میں دہشتگردی میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے بلوچستان میں طاقت کے بے دریغ استعمال کے زریعے شورشوں پر قابو پانے کا عمل جنرل مشرف نے شروع کیا تھا اور اس کے بعد سے اس پالیسی کو تبدیل کرنے کی کبھی زحمت نہی کی گئی ہمارے پالیسی بنانے والے نو رتنوں کو دیکھنا ہوگا کہ اگر ایک حکمت عملی کامیاب نہی ہو رہی تو منتخب اہوانوں میں موجود عوامی نمائندوں کو اعتماد میں لیا جائے اور ان کی مشاورت سے نئی حکمت عملی وضع کی جائے اور پھر تمام ریاستی وسائل کو بروئے کار لا کر اس حکمت عملی پر عملدرامد کیا جائے لیکن اس امر پر بھی دھیان دیا جائے کہ عوام کے آئینی حقوق متاثر نہ ہوں بلوچستان سے مسلسل پنجاب کے بیٹوں کی لاشیں آنا انتہائ خطرناک امر ہے دہشتگرد عوام کے درمیان نفرت کے بیج بورہے ہیں جس سے ملکی سلامتی کو شدہد خطرات لاحق ہیں سیاسی جماعتوں اور عوامی رہنماوں کی جانب سے اس امر پر خاموشی افسوسناک ہے انہیں متعلقہ حکام سے وضاحت طلب کرنی چاہیے ہا کم از کم بین کرتی ماوں کو تسلی تو دینی چاہیے لیکن ایسا نہی ہو رہا خانیوال کے بے گناہ مظلوموں کو تسلی دینے کے لیے بھی پنجاب حکومت تو دور خانیوال کے کسی منتخب رکن نے بھی اواز بلند نہی کی اخر کب تک دہشتگردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے کھکھلے دعوں سے بین کرتی ماوں کو تسلی دی کا سکتی ہے یا بلوچ تننظیموں پر زمہ داری ڈال کر ریاست بری الزمہ ہو سکتی ہے ایسے عناصر کے خلاف ریاست کی طاقت کو بھرپور طریقے سے استعمال میں لانے کی ضرورت ہے وزیر داخلہ محسن نقوی ملک کی داخلی سیکیورٹی کے زمہ دار ہیں تو انہیں دہشتگردی کا سلسلہ روکنے میں ناکامی کی بھی زمہ داری لینا ہوگی اور ملکی سلامتی و استحکام کے لیے فقط بیان جاری کرنے کے بجائے موثر عملی اقدامات اٹھانے ہوں گے۔