بھارت میں جمہوریت۔ ہندو توا نظریہ؟

افلاطون جمہوریت کو ایک اچھی طرز حکومت نہیں سمجھتا تھا۔ اس کا یقین تھا کہ حکمرانی اور اقتدار اعلی صرف ایک صاحب علم اور عقلمند شخص کے پاس ہونی چاہیے نہ کہ اکثریت کے پاس جو حکومتی معاملات سے نابلد ہوں حالانکہ اس وقت رائے دہی والی جمہوریت موجود نہیں تھی۔ محض براہ راست جمہوریت تھی اس نے اپنی مثالی ریاست کے خدو خال واضح کیے اور اس میں فلاسفر بادشاہ کا تصور پیش کیا اور ریاست کے معاملات کو مثالی دیکھنے کا خواہاں تھا۔ اس کا یہ نظریہ تھا کہ ریاست تب مثالی ہوتی ہے جب اس میں انصاف کا نظام مضبوط بنیادوں پر استوار ہو، تمام افراد ایک دوسرے کے کام میں مداخلت کیے بغیر اپنے امور سر انجام دیں اور جو جس کام میں بہترین ہو اس کو وہی ذمہ داری سونپی جائے۔ جس شخص کو حکمرانی کا حق دیا جائے گا وہ ایک پورے پروسیس سے گزر کر میرٹ پر سامنے آئے گا۔ تو بالخصوص اس کا مقصد ایک اچھی حکمرانی اور مثالی ریاست تھا نہ کہ اکثریت کی بنیاد پر فیصلے جو کہ جبر کی صورتحال اختیار کر لیں اور اچھی حکمرانی کے تصور کو پامال کریں۔ اب موجودہ جمہوریت کی بات کرتے ہیں جس میں بھارت اپنی 1.4 بلین آبادی کی وجہ سے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہلاتا ہے۔ مگر حقیقت میں صرف ایک نام نہاد جمہوریت ہے اور اسی طرح اس کا سیکولرزم ہونا بھی مذاق سے کم نہیں ہے۔ کیا سیکولرازم میں مساجد اور چرچ پر حملے کیے جاتے ہیں اور گاؤ ماتا کے گوشت کا الزام دھر کر انسانوں کی جان لے لی جاتی ہے۔ مودی کے برسر اقتدار آنے کے بعد بھارتی جمہوریت جبر اور استبدادیت کے زیر سایہ ہے۔
الیکٹورل ڈیموکریسی انڈیکس میں انڈیا کی درجہ بندی 108 نمبر پر ہے اس درجہ بندی کے مطابق بھارتی جمہوریت تنزانیہ، بولیویا میکسیکو، سنگاپور اور نائجیریا سے بھی کم تر ہے۔ گوکہ پاکستان کی درجہ بندی بھی 106 نمبر پر کوئی اچھی نہیں ہے مگر پاکستان میں اقلیتوں کو کسی طرح کے ریاستی جبر کا سامنا نہیں ہےاور نہ ہی ریاست کی پالیسی میں یہ شامل ہے۔ مگر بھارت میں ریاستی جبر, نا انصافی اور حقوق کی پامالی باقاعدہ ایک پالیسی کے تحت ہے۔ بی ڈی ایم انسٹیٹیوٹ نے بھارت کو روسی طرز کی انتخابی مطلق العنانی کے درجے میں رکھا ہے۔ مشہور جریدہ کالمسٹ کے انٹیلیجنس یونٹ کے شائع کردہ ڈیموکریسی انڈیکس کے مطابق بھارت ایک ناقص جمہوریت ہے۔ جہاں پر مطلق العنانی طرز حکومت ہے ان ممالک میں بھارت 10 نمبر پر ہے جو کہ گزشتہ 10 سال سے جب سے مودی برسر اقتدار میں ہے۔ انٹرنیشنل انسٹیٹیوٹ فار ڈیموکریسی اینڈ الیکٹرول اسسٹنٹ کے مطابق جمہوری تنزلی کا سامنا کرنے والے ممالک کی تعداد میں اضافہ ہو گیا ہے جس میں بھارت شامل ہے۔
مودی کا برسر اقتدار آنا ہی بھارت میں جمہوریت کے اوپر ایک بڑا سوال اٹھاتا ہے کہ کس طرح ایک ہندو قوم پرست اور دہشت گرد جس نے 2002 میں گجرات میں مسلمانوں کے ساتھ خون کی ہولی کھیلی اور پھر اس کو بھارت کی قیادت کے لیے منتخب کر لیا گیا۔ یہ ایک طرف بھارت میں پاور سٹرکچر کے غیر جمہوری ہونے کو ظاہر کرتا ہے دوسری طرف اکثریت کا ہندو توا نظریے کا حامی ہونا ظاہر کرتا ہے۔ جن کو اقلیتوں کے حقوق کی پامالی سے کوئی سروکار نہیں ہے اور اب تیسری بار مودی کے اقتدار کے لیے راستے ہموار دکھائی دے رہے ہیں۔ مودی میں ایسی کون سی شخصی خوبیاں یا قیادت کی اعلی صلاحیتیں ہیں جو اس کو تیسری بار انتخابات میں کامیابی کی طرف مہر ثبت کریں گی؟ البتہ ایک صلاحیت تو بڑی واضح ہے وہ ہے اس کا سخت گیر ہندو انتہا پسند ہونا اور ہندو توا کے نظریے کا پرچار، اقلیتوں پر جبر، ان کے حقوق اور ازادی کو سلب کرنا اور متنازع قوانین کے ذریعے ان کی شہریت ختم کرنا۔ گو کہ مودی کے پاپولزم کی جڑیں اور آکسیجن ہندوتوا نظریہ میں ہے ۔ بھارتی ناول نگار ارونتی رائے جو کہ اکثر اوقات بھارت میں ایک توانا آواز بلند کرتی ہیں ان کا کہنا ہے کہ اکثر سابقہ نو آبادیات نے دیر پا جمہوری نظام کے نفاذ کے لیے طویل جدوجہد کی ہے بھارت نے ایسا کرنے میں سب سے زیادہ کامیابی حاصل کی ہے اور اب 75 سال بعد اسے منظم اور افسوسناک طریقوں سے ختم کیے جانے کا مشاہدہ کرنا تکلیف دہ ہے۔ اپوزیشن رہنما راہول گاندھی نے پچھلے سال لندن میں برطانیہ کی پارلیمنٹ اور دیگر مقامات پر انڈیا کی صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا انڈیا میں جمہوریت کے ہر تصور پر حملہ کیا جا رہا ہے ملک کے سبھی جمہوری اداروں پر بی جے پی اور آر ایس ایس نے قبضہ کر لیا ہے ملک کی جمہوریت کو شدید خطرہ لاحق ہے اگر یہ ٹوٹ گئی تو اس کا عالمی سطح پر اثر ہوگا۔ راہول گاندھی نے کہا کہ ہماری حکومت اپوزیشن کو اپنے خیالات کے اظہار کا موقع نہیں دیتی۔ علامہ اقبال اور قائد اعظم نے بروقت ہندو ذہنیت کو بھانپ لیا تھا کہ تقسیم اور علیحدہ مملکت کےبغیر کوئی چارہ نہیں دوسری طرف ابوالکلام جیسی علمی شخصیت مستقبل کے حالات کا اندازہ کرنے سے قاصر اور مثالیت پسندی کی سوچ کا شکار ہو گئی کہ اکٹھے رہتے ہوئے انڈیا کے مسلمانوں کی تعداد تقسیم نہیں ہوگی اور وہ جمہوری نظام میں ایک بڑی قوت تصور ہونگے سوال تو یہ تھا کہ کیسی جمہوریت جس میں مسلمانوں کے حقوق نچلے درجے کےہندوؤں شودر سے بھی کم تر ہو کر رہ گئے ہیں۔ اس باربھی اگر مودی ہی الیکٹ ہوتا ہے تو وہ ہندو توا نظریے کے تکمیلی مراحل کی طرف آگے بڑھے گا اور اقلیتوں کے لیے زمین تنگ کر دی جائے گی اور پاکستان کی طرف مہم جوئی کا خطرہ بڑھ جائے گا کیونکہ ہندو توا کے لیے سرحد سے باہر سب سے بڑا خطرہ پاکستان ہے۔ ہم ہیں کہ اکثر ایسے خطروں سے بے نیاز رہنا زیادہ پسند کرتے ہیں۔بھارت میں جمہوریت۔ ہندو توا نظریہ؟ افلاطون جمہوریت کو ایک اچھی طرز حکومت نہیں سمجھتا تھا۔ اس کا یقین تھا کہ حکمرانی اور اقتدار اعلی صرف ایک صاحب علم اور عقلمند شخص کے پاس ہونی چاہیے نہ کہ اکثریت کے پاس جو حکومتی معاملات سے نابلد ہوں حالانکہ اس وقت رائے دہی والی جمہوریت موجود نہیں تھی۔ محض براہ راست جمہوریت تھی اس نے اپنی مثالی ریاست کے خدو خال واضح کیے اور اس میں فلاسفر بادشاہ کا تصور پیش کیا اور ریاست کے معاملات کو مثالی دیکھنے کا خواہاں تھا۔ اس کا یہ نظریہ تھا کہ ریاست تب مثالی ہوتی ہے جب اس میں انصاف کا نظام مضبوط بنیادوں پر استوار ہو، تمام افراد ایک دوسرے کے کام میں مداخلت کیے بغیر اپنے امور سر انجام دیں اور جو جس کام میں بہترین ہو اس کو وہی ذمہ داری سونپی جائے۔ جس شخص کو حکمرانی کا حق دیا جائے گا وہ ایک پورے پروسیس سے گزر کر میرٹ پر سامنے آئے گا تو بالخصوص اس کا مقصد ایک اچھی حکمرانی اور مثالی ریاست تھا نہ کہ اکثریت کی بنیاد پر فیصلے جو کہ جبر کی صورتحال اختیار کر لیں اور اچھی حکمرانی کے تصور کو پامال کریں۔ اب موجودہ جمہوریت کی بات کرتے ہیں جس میں بھارت اپنی 1.4 بلین آبادی کی وجہ سے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہلاتا ہے مگر حقیقت میں صرف ایک نام نہاد جمہوریت ہے اور اسی طرح اس کا سیکولرزم ہونا بھی ایک مذاق سے کم نہیں ہے۔ کیا سیکولرازم میں مساجد اور چرچ پر حملے کیے جاتے ہیں۔ اور گاؤ ماتا کے گوشت کا الزام دھر کر انسانوں کی جان لے لی جاتی ہے۔ مودی کے برسر اقتدار آنے کے بعد بھارتی جمہوریت جبر اور استبدادیت کا زیر سایہ ہے۔ الیکٹورل ڈیموکریسی انڈیکس میں انڈیا کی درجہ بندی 108 نمبر پر ہے اس درجہ بندی کے مطابق بھارتی جمہوریت تنزانیہ، بولیویا میکسیکو، سنگاپور اور نائجیریا سے بھی کم تر ہے۔ گوکہ پاکستان کی درجہ بندی بھی 106 نمبر پر کوئی اچھی نہیں ہے مگر پاکستان میں اقلیتوں کو کسی طرح کے ریاستی جبر کا سامنا نہیں ہے۔ اور نہ ہی ریاست کی پالیسی میں یہ شامل ہے۔ مگر بھارت میں ریاستی جبر, نا انصافی اور حقوق کی پامالی باقاعدہ ایک پالیسی کے تحت ہے۔ بی ڈی ایم انسٹیٹیوٹ نے بھارت کو روسی طرز کی انتخابی مطلق العنانی کے درجے میں رکھا ہے۔ مشہور جریدہ کالمسٹ کے انٹیلیجنس یونٹ کہ شائع کردہ ڈیموکریسی انڈیکس کے مطابق بھارت ایک ناقص جمہوریت ہے۔ جہاں پر مطلق العنانی طرز حکومت ہے ان ممالک میں بھارت 10 نمبر پر ہے۔ جو کہ پچھلے 10 سال سے جب سے مودی برسر اقتدار میں ہے۔ انٹرنیشنل انسٹیٹیوٹ فار ڈیموکریسی اینڈ الیکٹرول اسسٹنٹ کے مطابق جمہوری تنزلی کا سامنا کرنے والے ممالک کی تعداد میں اضافہ ہو گیا ہے جس میں بھارت شامل ہے۔ مودی کا برسر اقتدار آنا ہی بھارت میں جمہوریت کے اوپر ایک بڑا سوال اٹھاتا ہے کہ کس طرح ایک ہندو قوم پرست اور دہشت گرد جس نے 2002 میں گجرات میں مسلمانوں کے ساتھ خون کی ہولی کھیلی اور پھر وہ اس کو بھارت کی قیادت کے لیے منتخب کر لیا گیا۔ یہ ایک طرف بھارت میں پاور سٹرکچر کے غیر جمہوری ہونے کو ظاہر کرتا ہے اور دوسری طرف اکثریت کا ہندو توا نظریے کا حامی ہونا ظاہر کرتا ہے۔ جن کو اقلیتوں کے حقوق کی پامالی سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ اور اب تیسری بار مودی کے اقتدار کے لیے راستے ہموار دکھائی دے رہے ہیں۔ مودی میں ایسی کون سی شخصی خوبیاں یا قیادت کی اعلی صلاحیتیں ہیں جو اس کو تیسری بار انتخابات میں کامیابی کی طرف مہر ثبت کریں گی؟ البتہ ایک صلاحیت تو بڑی واضح ہے وہ ہے اس کا سخت گیر ہندو انتہا پسند ہونا اور ہندو توا کے نظریے کا پرچار، اقلیتوں پر جبر، ان کے حقوق اور ازادی کو سلب کرنا اور متنازع قوانین کے ذریعے ان کی شہریت ختم کرنا۔ گو کے مودی کے پاپولزم کی جڑیں اور اکسیجن ہندوتوا نظریہ میں ہے ۔ بھارتی ناول نگار ارونتی رائے جو کہ اکثر اوقات بھارت میں ایک توانا آواز بلند کرتی ہیں ان کا کہنا ہے کہ اکثر سابقہ نو آبادیات نے دیر پا جمہوری نظام کے نفاذ کے لیے طویل جدوجہد کی ہے بھارت نے ایسا کرنے میں سب سے زیادہ کامیابی حاصل کی ہے اور اب 75 سال بعد اسے منظم طریقے سے اور افسوسناک طریقوں سے ختم کیے جانے کا مشاہدہ کرنا تکلیف دہ ہے۔ اپوزیشن رہنما راہل گاندھی نے پچھلے سال لندن میں برطانیہ کی پارلیمنٹ اور دیگر مقامات پر انڈیا کی صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا انڈیا میں جمہوریت کے ہر تصور پر حملہ کیا جا رہا ہے ملک کے سبھی جمہوری اداروں پر بی جے پی اور آر ایس ایس نے قبضہ کر لیا ہے ملک کی جمہوریت کو شدید خطرہ لاحق ہے اگر یہ ٹوٹ گئی تو اس کا عالمی سطح پر اثر ہوگا۔ راہل گاندھی نے کہا کہ ہماری حکومت اپوزیشن کو اپنے خیالات کے اظہار کا موقع نہیں دیتی۔
علامہ اقبال اور قائد اعظم نے بروقت ہندو ذہنیت کو بھانپ لیا تھا کہ تقسیم اور علیحدہ مملکت کے کے بغیر کوئی چارہ نہیں دوسری طرف ابوالکلام جیسی علمی شخصیت مستقبل کے حالات کا اندازہ کرنے سے قاصر اور مثالیت پسندی کی سوچ کا شکار ہو گئی کہ اکٹھے رہتے ہوئے انڈیا کے مسلمانوں کی تعداد تقسیم نہیں ہوگی اور وہ جمہوری نظام میں ایک بڑی قوت تصور ہونگے سوال تو یہ تھا کہ کیسی جمہوریت جس میں مسلمانوں کے حقوق نچلے درجے کےہندوؤں شودر سے بھی کم تر ہو کر رہ گئے ہیں۔ اس دفعہ بھی اگر مودی ہی الیکٹ ہوتا ہے تو وہ ہندو توا نظریے کے تکمیلی مراحل کی طرف آگے بڑھے گا اور اقلیتوں کے لیے زمین تنگ کر دی جائے گی۔ اور پاکستان کی طرف مہم جوئی کا خطرہ بڑھ جائے گا۔ کیونکہ ہندو توا کے لیے سرحد سے باہر سب سے بڑا خطرہ پاکستان ہے۔ ہم ہیں کہ اکثر ایسے خطروں سے بے نیاز رہنا زیادہ پسند کرتے ہیں۔ ان کے غرور کے تیور پڑے بغیر تجارت کے خواہاں ہیں۔