تحصیل کوٹ چھٹہ، لغاری سرداروں کی توجہ کا منتظر

ڈیرہ غازی خان کی تحصیل کوٹ چھٹہ قدرتی وسائل سے مالا مال اور ایک زرعی لحاظ سے بڑی تحصیل ہے۔ مشرق سے دریائے سندھ سے ہوتی ہوئی مغرب میں کوہ سلیمان کی رینج تک چلی جاتی ہے۔ پندرہ سال کا عرصے میں بھی کوٹ چھٹہ تحصیل کے بنیادی انفراسٹرکچر۔ کوٹ چھٹہ میں تحصیل لیول کی کوئی سہولت نہیں بس نام کی تحصیل بنا دیا گیا۔ تحصیل کوٹ چھٹہ سے قد آور سیاسی شخصیات منتخب ہوتی چلی آئیں موجودہ وزیر اعظم پاکستان میاں محمد شہباز شریف بھی یہاں سے الیکشن لڑ چکے ہیں۔ تمام تر سیاسی و سماجی حیثیت کے باوجود تحصیل کوٹ میں سہولیات یونین کونسل والی ہیں بلکہ اس سے کم ۔ ترقی کی دوڑ میں کوٹ چھٹہ بہت پیچھے رہ گیا ۔ سابق صدر پاکستان سردار فاروق خان لغاری محروم کا آبائی گھر بھی اسی تحصیل میں ہے اور وزیر توانائی سردار اویس احمد خان لغاری کا تعلق بھی اسی تحصیل اور ان کا حلقہ انتخاب بھی اسی تحصیل میں ہے ۔ اسی تحصیل نے سردار جعفر خان لغاری کی صورت میں غریب پرور سردار بھی دیا ۔ مردم خیز سرزمین تحصیل کوٹ چھٹہ سے ڈاکٹر نیاز اختر جیسے گوہر دیئے جو پنجاب یونیورسٹی سمیت ملک کی ٹاپ کی یونیورسٹیوں کے وائس چانسلر رہ چکے ہیں۔ پی ٹی آئی کی ٹاپ لیڈرشپ میں شامل اور معروف قانون دان بیرسٹر شعیب شاہین احمدانی کا تعلق بھی اسی تحصیل سے ہے ۔ ملک اور ملک سے باہر ملک کا نام روشن کرنے والی شخصیات ہوں یا کاروباری ، سیاسی و سماجی شعبہ ہر شعبہ میں نام کمانے والے کوٹ چھٹہ کی ترقی کے لیے کچھ خاص نہ کرسکے ۔ دھرتی ماں کے سپودوں نے دھرتی کا قرض اپنے سروں پر لیے پھرتے ہیں جانے کب دھرتی کا قرض اتارا جائے اور تحصیل کوٹ چھٹہ کی کھوئی ہوئی حیثیت مل جائے اور یہ تحصیل بھی ترقی کی دوڑ میں شامل ہو جائے ۔قیمتی دھات یورینیم سے بھرے پہاڑ رکھنے والی تحصیل کوٹ چھٹہ کے علاقوں میں لہلہاتے کھیت بھی ہیں دریائے سندھ جیسا دریا بھی ایگریکلچر لینڈ ہے اور محنت کشوں کا علاقہ ہے مگر حکومتی توجہ سے محروم ہے ۔ نظر انداز کیا جارہا ہے۔ اکوٹ چھٹہ کے طویل حصّے پر پھیلے صحرائی اور وسیع میدانی علاقے، پہاڑ، دریا اور جھیلیں اس خطے کی نہ صرف ثقافتی و سیّاحتی شناخت اجاگر کرتے ہیں۔ بین الصوبائی رابطے کی طویل ترین شاہراہ انڈس ہائی این 55 بھی یہی سے گزر جاتی ہے قومی شاہراہ پر واقع ہونے کے باوجود تحصیل کوٹ چھٹہ اپنا اصل مقام حاصل نہ کرسکی۔اندس ہائی کی خستہ حالی ایک الگ سے بہت بڑا ایشو ہے قاتل روڈ بن چکا روڈ کی کشادگی بھی دیرینہ عوامی مطالبہ ہے مگر یہ بھی ادھورا ہے۔ تحصیل کادرجہ پائے ہوئے15سال گزرنے کے باوجود بھی بنیادی انفراسٹرکچر جوکہ ایک تحصیل کے لیے ہوتے ہیں سے محروم ہے۔ ابھی تک تحصیل کمپلیکس بھی نہیں تیار ہوا ایڈیشنل سیشن تو دور کی بات سول ججزکی عدالتیں بھی قائم نہیں ہوسکیں لڑکیوں کیلئے سٹی میں گرلز کالج بھی نہیں ہے جو علاقے کی اہم کی ضرورت ہے۔ یہ بات قابل غور ہے کہ پوری تحصیل کوٹ چھٹہ سوئی گیس سے محروم ہے گیس پائپ لائن بچھانے کا منصوبہ ہر دور میں آیا ہے مگر کام شروع نہیں ہوتا سوئی گیس کی فراہمی علاقے کا بہت بڑا مطالبہ ہے جوکہ آج تک پورا نہ ہوا۔ صحت کی ناکافی سہولیات ہیں آر ایچ سی پر ٹی ایچ کیو کا بورڈ لگا دیا گیا ۔ اصولی طور تحصیل کا اپنا الگ سے اور جدید تحصیل ہیڈکوارٹر ہسپتال بنانے کی ضرورت ہے ۔اسٹٹ حتی کہ کمشنر کا اپنا آفس تک نہیں کسی دوسرے محکمہ کی بلڈنگ میں میں بیٹھ کر کام چلایا جا ریا ہے۔ وفاقی وزیر توانائی سردار اویس احمد خان لغاری جوکہ مسلم لیگ ن کے صوبائی صدر بھی ہیں اسوقت ان کی سیاست کا ستارہ عروج پر ہے ۔ وفاق میں اور صوبے ان کی حکومت ہے اب کے بار اگر کوٹچھٹہ تحصیل کو اس کا بنیادی تحصیل لیول کا انفراسٹرکچر نہ ملا تو علاقائی سطح پر ان کی گرفت کمزور ہو جائے گی۔ دوسری طرف سے بھی چاہئے پی ٹی آئی ہو یا کوئی اور پارٹی یا اہم سیاسی وسماجی قدر آور شخصیت اور خاص طور پر کوٹ چھٹہ کے میڈیا پرسن سب کو کوٹ چھٹہ کو حق دلانے میں پہلے سے زیادہ متحرک کردار ادا کرنا ہوگا ۔