معاشرے میں صحافت کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اسے معاشرے کا چوتھا ستون قرار دیا گیا ہے۔باقی تین ستون بھی اسی وقت اپنی کارکردگی کو بہتر انداز میں پیش کر سکتے ہیں جب چوتھے ستون کی کارکردگی بہتر ہوگی۔ لوگ صحافت کو بڑا آسان سمجھتے ہیں اسی لئے آج ہر شخص صحافی ہونے کا دعوی! کرتا ہوا نظر آتا ہے لیکن یہ اتنا آسان کام نہیں ہے۔اچھی اور مثبت صحافت کرنا جوۓ شیر لانے کے مترادف ہے بالخصوص اس عہد حاضر میں جب ہر شے پر براۓ فروخت کا اشتہار لگا ہوا ہو ۔ مال بٹورنا ہر کسی کا شعار بن گیا ہو اور بدقسمتی سے اسے برا بھی نہ سمجھا جاتا ہو تو ایسے دور میں مثبت صحافت کرنا بہت کٹھن اور جان جوکھوں کا کام ہے۔ بدقسمتی سے صحافت کے حوالے سے اس وقت ہمارا معاشرہ جو تصویر پیش کرتا ہوا نظر آ رہا ہے وہ کچھ اس طرح کی ہے کہ:-
یہاں تہذیب بکتی ہے یہاں فرمان بکتے ہیں
ذرا تم دام تو بدلو یہاں ایمان بکتے ہیں
گویا دوسرے شعبوں کی طرح صحافت کا رنگ بھی اب پھیکا پڑ گیا ہے۔زرد صحافت کی اصطلاح اب زبان زد عام ہو گئی ہے۔ کئی صحافی ایسے بھی ہیں جو لفافہ صحافی کے نام سے مشہور ہوئے۔ انتہائی پستی کی اس سطح تک پہنچنے کے لئے ان صحافیوں نے بہت زور آزمائی کی جنہیں عزت سے زیادہ پیسہ عزیز تھا اور آج کل تو صحافت ہر ایرے غیرے نتھو خیرے کی لونڈی بن چکی ہے ۔ چند ٹکوں کے عوض سیاستدانوں اور سرکاری افسران کے حق میں کالم اور مضامین لکھنا۔ شریف لوگوں کی پگڑیاں اچھالنا۔ غریب اور بے کس گھرانوں کی لڑکیوں کی تصاویر بنا کر بلیک میل کرنا اور پیسے نہ دینے پر تصاویر کو سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کر کے ہنستے بستے گھرانوں کو جہنم زار بنا دینا ان لوگوں کا وطیرہ ہے ۔ صحافت کے نام پر ایسے کرپٹ افراد اپنے الو سیدھے کرنے کیلئے صحافت کو بدنام کرنے میں لگے ہیں۔کہاں تک سنو گے کہاں تک سناؤں والا معاملہ ہے۔ قصے ہزاروں ہیں لیک کیا کیا سنایا جائےِ صاحب جی؟ حقیقت میں آج وہی شخص صحافی کہلانے کا حقدار ہے جو وقت پر نہ صرف اپنے حصے کا سچ بولتا ہے بلکہ سچ کے اظہار پر پیش آنے والی مشکلات کا سامنا بھی کرتا ہے۔صحافی تو معاشرے کی آنکھ ہوتا ہے۔وہ جو کچھ دیکھتا ہے اسے نہائیت ہی ایمانداری سے ان لوگوں تک منتقل کر دیتا ہے جو اس کے حل کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔گویا ایک صحافی عوام اور اعلیٰ حکام کے درمیان ایک پل کا کردار ادا کرتا ہے اور کمیونٹی کے مسائل کے حل کیلیئے اپنی کوششیں بروئے کار لا کر معاشرے کی بہتری کا باعث بنتا ہے۔وہ دیانت دار صحافی جو بکنے کو تیار نہیں مگر اپنی تنگ میں بھی اپنی عزت پہ حرف نہیں آنے دیتا ۔ایسے صحافی واقعی خراج تحسین کے لائق ہیں اور صحافت کے ماتھے کا جھومر ہیں ۔ سقراط کہتا ہے کہ ایک صحافی کو تین باتوں پہ کاربند رہنا چاہیئے۔
”کیا۔! بیان کردہ بات سو فیصد درست ہے“کیا۔ ! بتائی جانے والی بات اچھی ہے“ کیا۔! بیان کردہ بات سننے والوں کے لئے مفید ہے“
اگر ان وضع کردہ اصولوں سے ہٹ کر کوئی بھی شخص صحافت کرتا ہے تو وہ شخص صحافی نہیں ہے بلکہ صحافی کے روپ میں ایک بلیک میلر ہے۔ فراڈیا ہے اور دھوکے باز ہے۔ یاد رکھیں جب ایک طوائف کوٹھے پہ بیٹھ کر اپنی عزت کا سودا کرتی ہے تو وہ صرف اپنا جسم بیچتی ہے لیکن جب صحافی اپنی صحافت کو بیچتا ہے تو وہ پوری قوم کو بیچ دیتا ہے گویا وہ ایک طوائف سے بھی گیا گزرا ہے ۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسے ناسوروں کو تلاش کرکے ان کا مستقل علاج کیا جائے اور ان ننگ انسانیت اورننگ صحافت لوگوں کو بے نقاب کر کے انہیں قرار واقعی سزا دی جائے تا کہ کھرے اور کھوٹے۔جھوٹے اور سچے صحافی میں تمیز کی جا سکے اور معاشرے کے تمام طبقات کا صحافی اور صحافت پر اعتماد بحال ہو سکے۔ اس سلسلے میں صحافی برادری کا بھی یہ فرض بنتا ہے کہ وہ اپنے درمیان موجود ایسی کالی بھیڑوں کو تلاش کریں اور انکے خلاف تادیبی کاروائی کریں۔ورنہ صحافیوں کی رہی سہی عزت کو بھی یہ دو نمبر صحافی دیمک کی طرح چاٹ جائیں گے اور صحافت جیسا مقدس پیشہ بدنام ہو کر رہ جائے گا۔