حق تو یہ ہے کہ مملکتِ خداداد میں کم و بیش گزشتہ آٹھہ عشروں سے عوام الناس کے لیے قانونی نمائندگی لیے، عدل و انصاف تک مساوی رسائی تو خیر کیا یقینی بنتی، ہمارے مخصوص پسِ منظر اور پیش منظر کے انوسار اب خود اس شعبے سے متعلقہ افراد کے لیے بھی یہ امر ایک کارے دارد بن چکا ہے۔انت تو یہ ہے کہ قانونی طریقے سے عوامی حقوق کی پر امن طریقے سے ضابطے کی بنیاد پر علمی و مذاکراتی جنگ لڑنے والوں کے لیے خود اس پیشے کی سالمیت اور معیارات کو برقرار رکھنا تو کیا، خود اپنی ذات کی خیر و سلامتی کو برقرار رکھہ سکنا بھی اب ایک خوابِ پریشاں سا لگتا ہے۔ اندریں حالات Legal ethical values کو برقرار رکھنا تو دور کی بات، بنیادی اخلاقیات جیسے رازداری، conflict of interest،پیشہ ورانہ بد سلوکی جیسے مسائل اب ایک ہولناک دیو کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔ایسے میں نِت نئے پیدا ہوئے معاملات کی بابت بجا طور پنجاب بار کونسل کے منتخب لیڈران اپنا احتجاج، پُر امن عدالتی بائیکاٹ ریکارڈ کروار ہے ہیں۔ یہ الگ بات کہ ان احتجاجی مظاہروں اور ہڑتالوں نے بالآخر اپنے منطقی نتیجے پر پہنچنا تو ہے ہی، اور معاملات آخرش مذاکرات کی اور، گفتگو کی آمادگی پر ہی ممکنہ حل کی طرف جانے ہیں۔ ایسے میں ہر دو فریقین (بار اور بینچ) کو صائب نظری کے تحت جلد سے جلد ایشوز کے حل کی اور جانا چاہیے تاکہ عدلیہ اپنے اصل کام کی طرف مراجعت کر کے اس پر توجہ دے سکے۔ اس بات کا پھر سے ذکرِ الم خیز شاید شبِ دیجور کی تاریکی کو مزید بڑھائے کہ دنیائے عالم میں ہمارے نظامِ عدل و انصاف کی رینکنگ کس سطح کی گراوٹ کا شکار ہے؟ یہ امر تو مزید تکلیف در تکلیف کا باعث ہے ریجن کی حد تک تو ہم اپنے تمام اردگرد ممالک کی نسبت زیادہ گراوٹ کا شکار ہیں۔اس سب کی بیشتر وجوہات اظہر من الشمس ہیں کہ جہاں عوام الناس کے نسبتاً کمزور آبادی کی مدد کے لیے قانونی امداد کی خدمات کے لیے ہمارے سماج میں پبلک اور پرائیوٹ سیکٹر سے مناسب پروفیشنل اور فائنانشل فنڈنگ تو کیا ہوتی، اچھے بھلے خوشحال افراد بھی اس حوالے سے تلخ ترین تجربات کی چشم کشا کتاب نظر آتے ہیں۔اودھر مقدمات کے بروقت نمٹانے کو یقینی بنانے کے لیے عدالتی نظام میں تاخیر اور انٹلیکچوایل پسماندگی اپنی جگہ ایک حقیقت ہے جس سے کوئی باشعور شخص انکار نہیں کرسکتا۔ نِت نئے پیدا شدہ مسائل کے کارن اور اس پر مجبوراً وکلاء کے پروفیشنل نمائندگان کے صحیح اور بجا طور پر عمل اور ردعمل میں حد سے ذیادہ مصروفیات کے کارن بارز میں موجود وکلاء کے نمائندگان اپنے بنیادی اصل کام گویا وکلاء جنہیں اکثر اپنے پروفیشن کی مخصوص بُنت کے کارن باقی پیشہ ورانہ افراد کی نسبت زیادہ دباؤ اور مُنتشر خیالی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، ان کی ویلفیئر، مزید ذہنی صحت، بہبود اور پروفیشنل کیپیسٹی بلڈنگ کے لیے اقدامات تو کیا اٹھا پاتے، انہیں تو وقت کے بزرجمہران کی انانیت بھری قضاوت سے ہی فرصت نہیں مل پاتی ۔ یہ بات اپنی جگہ حقیقت ہے کہ موجودہ تناظر میں قانونی پیشے کے اندر تنوع اور شمولیت کو فروغ دینا لوحِ وقت کی زندگی سے بھرپور ڈیمانڈ ہے تاکہ کلائنٹس کی متنوع ضروریات کو بہتر سے بہتر طریقے سے پورا کیا جا سکے۔ وکلاء کی پروفیشنل کیپیسٹی کو بڑھانا وقت کی آواز ہے۔قانونی خدمات کو بہتر بنانے کے لیے دساور سے آنے والی نئی ٹیکنالوجی خصوصیت سے جناب عزت مآب جسٹس منصور علی شاہ کے بقول مصنوعی ذہانت سے قانونی تحقیقی معاونت حاصل کرنا، اور ساتھہ ہی مختلف فیہ آن لائن تنازعات میں مدد لینا وغیرہ وغیرہ ۔بدلتی ہوئی معاشرتی ضروریات اور قانونی مناظر کی زندگی سے بھرپور بعینہٖ باقاعدہ عکاسی کرنے کے لیے قوانین اور ضوابط کو اپ ڈیٹ کرنا یہ سب بارز، لاء سے منسلک تعلیمی اداروں اور حکومت وقت کی پرخلوص مدبرانہ سرپرستی کے بغیر ایک دیوانے کا خواب ہی رہے گا۔یہ بات تو اپنی جگہ برحق ہے کہ ہر زندہ انسانی مسئلہ کہیں نہ کہیں اقتصادیات کے مسائل سے جا ملتا ہے وکلاء بھی ظاہر ہے اس رفتارِ زمانہ سے مستثنیٰ نہیں۔ اس حوالے سے اور کچھہ نہیں تو کم از کم پنجاب کی تمام ڈسٹرکٹ بارز ، اپنی اپنی متعلقہ ہائیکورٹ بارز اور پنجاب بار کونسل، پاکستان بار کونسل کے ساتھہ مل کر ، سپریم کورٹ بار کی چِھتر چھایا میں کم از کم ایک ادنیٰ سا کام تو کر ہی سکتی ہیں، کہ جس کام میں مشقت کا پہلو بھی نہیں اور فوائد بھی حدِ امکان تلک، گویا ہینگ لگے نہ پھٹکری اور رنگ بھی چوکھا آوے؛ اور وہ یہ کہ پہلے سے موجود رجسٹرڈ کمپنیز کی لیگل کنسلٹینسیز کے حوالے سے زیادہ سے زیادہ ”چار کمپنیز“ کی شرط پر SECP اور اعلی عدلیہ اور بار کے اشتراک سے اس پر بعینہٖ عمل کروا لیں ۔( یہ صرف ایک مثال ہے۔ ایسے کئی کام ہوسکتے ہیں) ۔ اس سے نہ صرف سینئر اور لرنرڈ وکلاء کو اپنی جگہ پر بڑی کمپنیز کی mandatory ایڈوائزریز کی صورت میں فائیدہ ہوگا بلکہ نئے آنے والے وکلاء کے ابتدائی برسوں میں در آنے والی مشکلات میں کافی حد تلک کمی آجائے گی اور اصل فائیدہ یہ کہ کمپنیز کو اپنے مختلف معاملات میں پروفیشنل ایڈوائیسِز ملنے سے انہیں بعد میں بسا اوقات پیش آنے والے مختلف فیہ نقصانات نہیں پہنچیں گے۔ اپرینٹس شپ کے معاملات اس سے سِوا ہیں جن میں مختلف بارز، اور لاء سے منسلک تعلیمی ادارے چاہیں تو بہت کچھہ کرسکتے ہیں۔ اس پر بساط بھر ہی سہی نیتاً عمل ہو جائے تو بعید نہیں کہ موجودہ چاروں اور پھیلی تخریب سے ہی تعمیر کے رستے کھلتے چلے جائیں، خزاں رتوں میں بہار کی نوید ملنے لگے۔ روٹی تو کما کھائے کسی طور مچھندر، کے مِصداق روزی روٹی کا بنیادی مسئلہ کسی طور حلہوگا تو خدا معلوم، تاریخی جبر کے تحت منافقت کا نصاب پڑھنے والے، محبتوں کی کتاب تالیف کرنے لگیں۔

روٹی تو کما کھائے کسی طور مچھندر
-