مورخہ 27 اپریل 2024 بروز ہفتہ کی بھاگ بھری رات کو پانچ ہزار سال قدیم شہر ملتان میں ملک محمود مہے کے محبت کدے پر سوجھل دھرتی واس (ملتان چیپٹر) کے زیر انتظام چوتھی سالانہ ادبی ثقافتی سوجھل کانفرنس کا انعقاد کیا گیا. سوجھل دھرتی واس ایک ادبی ثقافتی اور سماجی تنظیم ہے جو اکتوبر 2016 میں شہرِ وفا فاضل پور میں وجود میں آئی جس کے سرپرست اعلیٰ عظیم صوفی شاعر، دانشور اور تحریکی رہنما صوفی تاج گوپانگ تھے تنظیم ہذا کے چیئرمین مشہور دانشور، افسانہ نگار انجینیئر شاہنواز خان مشوری ہیں جن کی سرائیکی تحریک کے لیے خدمات کسی تعارف کی محتاج نہیں. تنظیم کے وائس چیئرمین اللہ وسایا گورچانی، راقم الحروف عثمان کریم بھٹہ ایڈوکیٹ تنظیم کے صدر جبکہ جنرل سیکرٹری عمران عاشر ہیں. سوجھل کے کریڈٹ پر یہ چوتھی کانفرنس ہے جبکہ اس سے قبل کئی کتابوں کی رونمائی کے علاوہ صوفی تاج تعزیتی ریفرنس اور صوفی تاج میلہ کی تقاریب بھی سوجھل کے پلیٹ فارم سے منعقد کرائی جاچکی ہیں. سوجھل نے اپنے منشور کے مطابق وسیب کے شعراء کا مالی اور اخلاقی ساتھ دیتے ہوئے درجنوں کتابیں چھپوائی ہیں جبکہ سماجی خدمات کے طور پر ان کی 2022 کے سیلاب کی تباہ کاریوں کے دوران پورے سلاب متاثرہ علاقہ میں کی گئی امدادی کاروائیاں مثالی اور ناقابل فراموش ہیں. صوفی تاج گوپانگ کی وفات کے بعد سرپرست اعلیٰ سوجھل دھرتی واس سردار منظور خان دریشک ہیں. گزشتہ برس ملتان شہر میں سوجھل دھرتی واس کے ملتان چیپٹر کا قیام عمل میں آیا جس کی نمایاں شخصیات ملک محمود مہے، عثمان خان شیروانی، پروفیسر مہار اقبال، عابد رضا عباسی، انجینئر حفیظ خان لغاری اور عبدالباری جعفری ہیں. ملتان چیپٹر کی طرف سے اس بار سوجھل کانفرنس کو ملتان میں منعقد کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور اس کے لیے 27 اپریل کی رات کو منتخب کیا گیا. سوجھل کانفرنس کے میزبان چئیرمین انجینئر شاہنواز خان مشوری، ملک محمود مہے، عثمان کریم بھٹہ، عثمان خان شیروانی، ملک غلام عباس ارائیں نے دن رات ایک کرکے کانفرنس کو خوبصورت بنانے میں بھرپور کردار ادا کیا. کانفرنس میں خواتین کی کثیر تعداد نے شرکت کی اور ٹرانس جینڈر سوسائٹی کی طرف سے شاہانہ شانی کی قیادت میں خواجہ سراؤں کی بھرپور شرکت رہی. پورے پاکستان سے اور بیرون ملک سے مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی نابغہ ء روزگار شخصیات خصوصی طور کانفرنس میں شریک ہوئیں جن میں پروفیسر اطہر لاشاری، اسلم جاوید، سردار رضاخان دریشک، مہار ارشاد سیال، مخدوم رضا بخاری، ملک جہانزیب وارن، ملک عامر بچہ، ملک یونس نانڈھلہ، ملک سلیم ایڈووکیٹ، امجد فاروق خان ڈاہا، ملتان راجن پور اور شجاع آباد کے وکلا کی کثیر تعداد، ملتانی منڈلی، ملتان دانشور فورم، بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی اور غاذی یونیورسٹی کی سرائیکی کونسلز کے طالب علموں کی بھی شرکت نمایاں رہی. فرزند سرائیکستان رانا فراز نون کے ہمراہ سرائیکستان ڈیموکریٹک پارٹی کے درجنوں کارکنوں نے ڈھول کی تھاپ پر جھومتے گاتے ہوئے کانفرنس میں شریک ہو کر روشنیاں بھر دیں جبکہ سوجھل اراکین ڈاکٹر منصور احمد مشوری، صفدر دریشک، ساجد سمیر، مرتضیٰ لشاری، فراز لشاری، عمران فضل کے ہمراہ فاضل پور سے لوگوں کی کثیر تعداد نے شرکت کی. نقابت کے فرائض راقم الحروف عثمان کریم بھٹہ، پروفیسر سبطین یاسر گوپانگ اور باکمال شاعرہ محترمہ نوشین فاطمہ نے سر انجام دیے. تلاوت کلام پاک کی سعادت قاری جعفر سلطانی کے حصے میں آئی. سید فہیم ساجد نے معروف شاعر دانشور شمیم عارف قریشی کی کافی سے کانفرنس کے ماحول کو پُرنور بنا دیا
اساں رب دے نال کلام کیتے
اساں خلق کوں روز سلام کیتے
کافی کے بعد سٹیج سیکرٹری عثمان کریم بھٹہ نے حاضرین سے مخاطب ہو کر ان کی توجہ دیوار پر لگی ان عظیم شخصیات کی تصاویر کی طرف دلائی جو سرائیکی قومی تحریک کے لیے پوری جان سے تگ و دو کرنے کے بعد اور بہترین ادب تخلیق کرنے کے بعد اس جہان سے رخصت ہو چکے ہیں ان میں استاد فدا حسین گاڈی، بیرسٹر تاج محمد لنگاہ، نذیر فیض مگی، ریاض الہاشمی، اکبر خان ملکانی، احمد خان طارق، صوفی تاج گوپانگ، سعید اختر سیال، نور صمند، اسلم رسول پوری، ملک منظور احمد مہے، فقیرا بھگت اور اقبال حسن بھپلا شامل ہیں. راقم نے کہا کہ اج کے پروگرام کی حقیقی میزبان یہ شخصیات ہیں جن کی خدمات اور کاوشوں کے نتیجے میں آج سرائیکی قوم اپنی منزل کے بہت قریب پہنچ چکی ہے. کافی کے بعد فخرِ پاکستان استاد ملنگ علی بہاولپوری (شہنائی نواز) نے سلطان، ممتاز اور قاسم علی کی ہم نواہی میں نوبت پیش کی جس پر پورا پنڈال جھوم اٹھا اور ٹولی در ٹولی پورے پنڈال میں جگہ جگہ جھمر کے پِڑ لگ گئے یہاں تک کہ سٹیج اور سٹیج کے آس پاس تل دھرنے کو جگہ باقی نہ رہی. نوبت کے بعد پروفیسر مہار اقبال نے دیس پردیس سے تشریف لانے والے شعراء، دانشور، رہنما، ورکرز اور حاضرین کو خوش آمدید کہتے ہوئے اپنا کلام پیش کیا جس کے بعد شہزاد خان دریشک نے سوجھل کانفرنس کا ایجنڈا خوبصورت الفاظ میں پیش کیا. ان کے بعد سرائیکی ادب کی نامور شخصیت اسلم رسول پوری کے فرزند پروفیسر وقار اسلام نے سٹیج پر سرائیکی ادب و ثقافت اور بھگتی تحریک کے تناظر میں اپنی پُرمغز گفتگو کو سمیٹا. اس دوران سٹیج سیکرٹری پروفیسر سبطین یاسر گوپانگ نے اپنے والد محترم صوفی تاج کی طرف سے حاضری کے طور پر ان کا کلام پیش کرتے ہوئے کانفرنس کے میزبان ملک محمود مہے کو خطاب کے لیے دعوت دی. ملک محمود نے جذباتی انداز میں شرکاء کو خوش آمدید کہتے ہوئے نوید سنائی کہ آج کی رات پانچ ہزار سال بوڑھا شہر ملتان بھی شرکاء کے ساتھ کانفرنس میں جھمر کھیل رہا ہے انہوں نے لفظوں کے خوبصورت استعمال کی اپنی مہارت کو نبھاتے ہوئے مزید فرمایا کہ قدیمی لوگ جب ملتان شہر کے دروازوں سے داخل ہوتے تھے تو دروازے کے باہر موجود کُنڈ سے اشنان کر کے اندر آتے تھے ملتان اس قدر مقدس شہر ہے اور آج کی رات ملتان ایک بار پھر نئی زندگی محسوس کر رہا ہے. ان کے بعد نوجوان شاعر علی حسن بھپلا نے اپنے دادا اقبال حسن بھپلا کا اور اپنا کلام پیش کر کے شرکاء کو محظوظ کیا جس کے بعد آفتاب اویڑہ اور محسن ڈونہ نے احمد خان طارق کے کلام کے ذریعے اپنے فن کا جادو پیش کیا. ان کے بعد جھنگ سے تشریف لائے ہوئے شعرا پروفیسر ڈاکٹر ساحر رنگ پوری اور یاسر رنگ پوری نے اپنا کلام پیش کیا. سابق اے آئی جی پولیس اختر حسن خان گورچانی نے اپنے خطاب کے دوران سوجھل کانفرس کے منتظمین کو کامیاب پروگرام کرانے کی مبارکباد پیش کرتے ہوئے سرائیکی صوبے کی اہمیت اور افادیت پر روشنی ڈالی اور سرائیکی قوم کے ہیروز کو خراج تحسین پیش کیا.سرائیکی تحریک کی نامور شخصیت ظہور دھریجہ نے اپنے خطاب کے دوران سرائیکی قوم کے غصب شدہ حقوق کی بات کرتے ہوئے کہا کہ جب تک ہم صوبہ کے حصول کے لیے یک جان نہ ہو جائیں تب تک ہمیں مقہور اور مطعون رکھا جائے گا اس دوران محترمہ نوشین فاطمہ جو کہ خود بھی ایک باکمال شاعرہ ہیں نے کمالِ خوبصورتی سے سٹیج سیکرٹری کے فرائض سنبھالتے ہوئے شاعرہ لاریب الہان کو کلام پیش کرنے کے لیے مدعو کیا جن کے کلام کے بعد بھکر سے تعلق رکھنے والے خوبصورت نوجوان شاعر نوشیروان اسفند نے اپنا کلام پیش کیا اس دوران انوکھے انداز کی شاعرہ رابعہ عمران، نذر فرید بودلہ اور خوبصورت کافی گو حسنین اقبال نے اپنی حاضری پیش کی. حسنین اقبال کے بعد صدارتی ایوارڈ یافتہ فنکارہ میڈم راحت ملتانیکر نے خواجہ غلام فرید سرکار کی قافیاں پیلھوں پکیاں نی” “اساں کنو دل چایو وے یار” پیش کی جس پر حاضرین ایک بار پھر جھوم اٹھے اور پورے پنڈال میں جھمر اور رقص نے سماں باندھ دیا. میڈم خود بھی بہت خوشی اور جوش میں جھوم جھوم کر گاتی رہیں جبکہ حاضرین نے فرمائشوں کے انبار لگا دیئے. بعد ازاں مشاعرے کا دوسرا راؤنڈ شروع ہوا تو جام پور سے تعلق رکھنے والے سوجھل شاعر ملک اسحاق علیم نے اپنی مشہور زمانہ نظم “محبت ثانوی شئے ھ” سنا کر حاضرین سے داد سمیٹی. سید رمیز الحسن کے کلام سنانے کے بعد جگ مشہور شاعر شاہد عالم شاہد نے اپنا کلام پیش کیا اور سوجھل کا شکریہ ادا کرتے ہوئے فرمایا کہ شرکاء نے پرہلاد کے شہر میں رقص اور جھمر سجا کر پرہلاد کو خوش کر دیا ہے. معروف کالم نگار اور دانشور حیدر جاوید سید نے اپنے خطاب میں سرائیکی تحریک کی تاریخ، ماضی اور مستقبل کے بارے میں سیر حاصل گفتگو کی. پروفیسر جاوید چانڈیو نے اپنے خطاب میں سرائیکی شناخت اور ادب و ثقافت پر بہترین علمی گفتگو فرمائی جن کے بعد سرائیکی شاعری کے عظیم نام اصغر گورمانی اور جہانگیر مخلص نے اپنا کلام پیش کیا. حاضرین کو حیرت آمیز خوشی اس وقت ہوئی جب نوجوان شاعرہ عفیفہ عبدالحق نے اپنا خوبصورت کلام پیش کیا. اتنی کم عمری میں کلام میں اس قدر پختگی شاذ ہی نظر آتی ہے. تقریب کے اختتامی مراحل میں مشہور و معروف شعراء افکار علوی، راشدہ فرحان بھٹہ اور خالد ندیم شانی سمیت سرائیکی شاعروں مہار بلاول، مخمور قلندری اور ظہیر مہاروی نے اپنا کلام پیش کرکے محفل کو چار چاند لگا دیئے جبکہ وسیب نیشنل تحریک کے چیئرمین آصف خان جو کہ کینیڈا سے خصوصی طور پر کانفرنس میں شرکت کے لیے تشریف لائے تھے نے اپنے خطاب میں نوجوانوں کو جدوجہد مزید تیز کرنے پر زور دیا. پروگرام کے درمیان سرائیکی تحریک میں شاندار کارنامے انجام دینے پر اجمل مسن کو سوجھل تاج لنگاہ ایوارڈ، سرائیکی نثر میں یادگار کام کرنے پر عبدالباسط بھٹی کو سوجھل ایوارڈ جبکہ سرائیکی شاعری اور انقلابی خدمات پر جہانگیر مخلص کو سوجھل ایوارڈ پیش کیا گیا. آخر میں فرزند سرائکستان رانا فراز نون چیئرمین سرائیکستان ڈیموکریٹک پارٹی نے سرائیکی قوم کی پہچان عاشق بزدار کو اختتامی خطاب کے لیے دعوت دی تو سوجھل دھرتی واس کے تمام ممبران انجینئر شاہنواز خان مشوری اور امجد فاروق خان ڈاہا کے ہمراہ ان کو احترام اور عقیدت کے ساتھ سٹیج پر لے کر آئے جبکہ شرکاء نے کھڑے ہو کر ان کا استقبال کیا. عاشق بزدار نے اپنی تقریر کے دوران تجویز پیش کی کہ شائقین کا جوش و خروش اور سوجھل کانفرنس کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے کانفرنس کو ایک کی بجائے دو راتوں پر محیط کر دینا چاہیے. اس خطاب کے بعد چولستان کے مشہور گلوکار آڈو بھگت نے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ اپنا فن پیش کیا جس پر افسانوی شہرت کے حامل خادم خان کھوسہ کے فرزند اعظم خان کھوسہ نے جھمر کھیل کر رنگ جما دیا. آخر میں چیئرمین سوجھل دھرتی واس انجینیئر شاہنواز خان مشوری نے سوجھل کانفرنس کا اعلامیہ پیش کیا جس کے نکات درج دیل ہیں1. سرائیکی شناخت کا حامل سرائیکی صوبہ قائم کیا جائے. 2. چولستانی زمینوں کی بندر بانٹ ختم کی جائے. 3. آم کے باغات کی کٹائی تشویشناک ہے اس کی روک تھام کے لئے اقدامات. 4. پلاک کی طرز پر سرائیکی ادارے کا فوری قیام. 5. سرائیکی کو بطور مضمون پہلی جماعت سے لازمی قرار دیا جائے. 6. گندم کی خریداری میں اپر پنجاب کی لیٹ فصل کی وجہ سے تاخیر وسیب کے کاشتکاروں پر ظلم ہے. فوڈ سنٹرز فوری طور پر کھولے جائیں. 7. بہاولپور اور ملتان کو علیحدہ نہیں بلکہ ایک سرائیکی صوبہ بنایا جائے. شام نو بجے سے شروع ہوئی کانفرنس صبح چھ بجے اس عزم کے ساتھ اختتام پذیر ہوئی کہ آنے والا سویرا سرائیکی قوم کی محرومیوں کے خاتمے کی نوید لائے گا.