شہید آیت اللہ سید ابراہیم رئیسی کی کامیابی کا راز

انسانی شخصیت کی تشکیل اور ترقی میں نظریات کا کردار انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ نظریات انسان کے فکری، اخلاقی اور عملی پہلوؤں کو جلا بخشتے ہیں اور ان کی رہنمائی کرتے ہیں۔ ایک اچھا نظریہ زندگی کے مختلف مراحل میں انسان کی ترقی کا باعث بنتا ہے اور انسان کو تکمیل انسانیت تک پہنچاتا ہے۔ایک اچھا نظریہ نہ صرف فرد کی شخصیت کو سنوارتا ہے بلکہ معاشرتی ترقی میں بھی اہم کردار ادا کرتا ہے۔ یہ نظریات ہی ہوتے ہیں جو انسان کو فکری، اخلاقی اور عملی طور پر مضبوط بناتے ہیں اور انہیں ایک بہتر انسان بننے میں مدد دیتے ہیں۔ اس لئے ایک اچھا نظریہ اچھی شخصیت کی تشکیل کا ضامن ہے اور ایک بہتر معاشرت کی تعمیر میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔الحمداللہ یہ آج نظریہ امامت و ولایت (ولایت فقیہ) کی برکت ہے کہ جو آج ایسی شخصیات پروان چڑھا رہا ہے جس کو آج دنیا کا ہر باضمیر و حریت پسند انسان سلام پیش کر رہا ہے۔اس نظریہ کے زیر سایہ تربیت یافتہ شخصیات آج دنیا و آخرت میں سرخرو ہو رہی ہیں۔آپ دنیا کی تاریخ دیکھیے جس قدر متاثر کن شخصیات نے نظریہ امامت و ولایت کے تحت کمال کو پایہ، دنیا کو متاثر کیا۔مظلومین جہاں کے حامی بنے،ظالمین جہاں کے دشمن بن گئے، اقدار الہی پہ خود کو فدا کیا۔ اس قدر کسی اور نظریے کے تحت شخصیات کو کمال پاتے ہوئے نہیں دیکھے گیا۔آج ابراہیم رئیسی کی شہادت کامیابی کی علامت ہے۔ان کی اس قدر ولی فقیہ کے ساتھ وفاداری اس کی کامیابی کی علامت ہے۔ابراہیم رئیسی کی اس کامیابی کے پیچھے اہم راز اس نظریہ پر یقین و ایمان تھا اور اپنی ساری زندگی ولی فقیہ کی اطاعت میں بسر کر دی۔ دشمن جس قدر ابراہیم رئیسی سے خوف زدہ تھے اس قدر آج تک کسی ایرانی صدر سے نہ تھے کیونکہ ابراہیم رئیسی ایک لمحہ بھی ،ایک قدم بھی ولی فقیہ سے دور نہ رہتے۔ان کا فیصلہ ان کی حکمت عملی ان کی جدو جہد سب کی سب اطاعت ولی فقیہ میں تھی۔نظریہ امامت و ولایت کی فہم،اس پہ ایمان اور اس نظریہ کی ترویج و محافظت میں جد و جہد اور اس نظریہ کے پھیلاؤ کی کاوشوں اور ولی فقیہ کی اطاعت نے ان کو اس قدر مقبول کیا اور اس کی بدولت شہادت جیسی کامیابی عطا ہوئی۔شہید ابراہیم رئیسی کی شہادت اور ان کی یہ مبارک و کامیاب زندگی آج ہر انسان کو ایک درس دے رہی ہے کہ ہماری بقا ہماری کامیابی اور امت کی نجات امامت و ولایت میں ہے۔اس زمین پہ عدل و انصاف امامت و ولایت پہ ہے۔انسان کی اصل آزادی محور امامت و ولایت میں ہے۔ اطاعت ولیِ فقیہ میں ہے۔شہید ابراہیم رائیسی نے ہر زحمت برداشت کی ،ہر مشکل برداشت کی دشمنوں کا سامنا کیا لیکن ایک پل بھی ولیِ فقیہ کی اطاعت نہ چھوڑی۔آج ہم سب کو ایک بات یاد رکھنی چاہیے کہ ولایتِ فقیہ دنیا کا طاقتور ترین نظامِ حکومت ہے۔ جو شہادتوں سے ہی آگے پھیلا ہے اور یہ نظریہ یہ نظام شہادتوں کے بعد پہلے سے زیادہ آب و تاب کے ساتھ اپنی انقلابی حرکت جاری رکھتا ہے۔ یہ نظام چند ڈکٹیٹروں یا دھڑوں پر مرتکز نہیں کہ بعض ایسی شخصیات کے دنیا سے جانے کے بعد ختم ہوجا ئے جیسے دنیا کے دوسرے انقلابات ختم ہوگئے۔ ولایتِ فقیہ ایک کامل نظام ہے جو اپنے کمال (مہدویت) کی جانب بڑھ رہا ہے۔اس نظریہ میں اس نظام میں اتنی تاثیر ہے اتنا کمال ہے کہ جو مزید دنیا کے سامنے کہی ایسی الہی اقدار کی حامل شخصیات متعارف کرائے گا۔آج مملکت پاکستان کے باشندے اس الہی نظام کو چھوڑ کر اپنی کامیابیوں و کامرانیوں کا راستہ ڈھونڈ رہی ہے جس کا نتیجہ پوری دنیا دیکھ رہی ہے۔لہذا ان شہداؤں سے ہمیں درس لینے کی ضرورت ہے اور ان شہیدوں کا درس یہی ہے کہ نجات فقط امامت و ولایت میں ہے۔یہی درس ہمیں ڈاکٹر علامہ محمد اقبال بھی دے کرگئےتھےلیکن ہم نے ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کے اس پیغام کو پسِ پشت ڈال دیا اور ایرانیوں نے اقبال کا یہ پیغام سمجھ لیا اور اس کو مضبوطی سے تھام لیا اور کامیاب و کامران ہو گئے۔