صلاح الدین ایوبی اور شاریہ کا الزام

دین اسلام کی تبلیغ و اشاعت میں اللہ کریم کے مقرب بندوں نے عشق حقیقی کی انتہا میں ڈوبتے ہوئے اپنا تن ،من، دھن سب قربان کر دیا یعنی حقوق اللہ کی ادائیگی میں اللہ تعالیٰ کے نافذ کردہ قوانین اور محبوب کبر یا ، شافی رحمت ، تاجدار مدینہ ﷺکی سنت کے عین مطابق ایام حیات بسر کیں اور اپنے اردگرد بسنے والے افراد کو انہی تعلیما ت کی روشنی میں نیکی و فلاح کا درس دیا ۔یہ ان کی زندگی کا خاصہ تھا کہ دن کا اُجالا خلق خدا کی خدمت میں بسر کرتے اور ہر قدم پھونک پھونک کر رکھتے کہ انصاف کے تمام تقاضے من وعن پورے ہوتے اور کسی بھی مظلوم کے ساتھ ناانصافی نہ ہو تی۔رات کی تاریکی میں مالک کائنات کی خوشنودی و رضا کو مقدم رکھتے اور وقت تہجد زار وقطار آنسو بہاتے ۔بھیگتے رُخسار کے ساتھ لب حاجت یہی رہتی کہ کوئی فرد مالک کریم کی بارگاہ میں شکایت نہ کر دے ۔خوف کا یہ عالم تھا کہ آنسوئوں کے ساتھ جسم پر لرزہ طاری رہتا تھا ۔قارئین کرام! اسلامی تاریخ کا نمایاں پہلو یہ بھی رہا ہے کہ اللہ کے ولی رحمن سے محبت کی انتہا کو پہنچ گئے اور مخلوق کی خدمت و دعا کو اپنا نصب العین بنا لیا ۔اسلامی مجاہد و عظیم سپہ سالارسلطان صلاح الدین ایوبی جن کا اصل نام یوسف تھا۔آپ موصل کے امیر عماد دین زنگی کے قریبی ملازم نجم الدین ایوب کے گھر 1138ء؁ میں عرا ق کے شہر تکریت میںپیدا ہوئے ۔آپ نسلاً کرد تھے ۔علم سے بے پناہ محبت کرتے تھے اور علم کی اشاعت و ترویج میں بھر پور خدمات سر انجام دیں۔شجاعت ،صداقت و امانت آغاز سے ہی ان کی حیات کا خاصہ تھا ۔نڈر، بیباک ، دلیری جیسے اوصاف سے ان کی زندگی پُر تھی ۔انہی اوصاف ہی کی وجہ سے عیسائی آپکا بے حد احترام کرتے تھے اور آپکو احترام و تکریم میں بلند مقام حاصل تھا ۔سلطان صلاح الدین یوسف بن ایوب سلطنت ایوبی کے بانی گردانے جاتے ہیں۔تاریخ عالم میں آپ کو اُس وقت کے فاتحین و حکمرانوں میں بلند مقام حاصل تھا ۔آپ نے مصر، شام ، عراق اور حجاز پر حکومت کی ۔آپکی شخصیت سچائی، ایمانداری، عاجزی و انکساری ، فیاضی ، حُسن خُلق کا پیکر تھی ۔ آپ نے 1187ء؁ میں یورپ کی متحدہ افواج کو عبرتناک شکست سے دوچار کیا اور بیت المقدس کوان کے قبضہ سے آزاد کرایا۔چونکہ ان کی طبیعت میں بہادری کا عنصر کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا اور اسی جذبہ کے بل بوتے پر آپ کو تاریخ اسلام میں فاتح بیت المقدس کا مرتبہ حاصل ہوا اور آپکی دلی خواہش کو اللہ تعالیٰ نے فتح یا ب فرمایا ۔1186ء؁ میں رینالڈ دیگر عیسائی امراء کو اپنے ساتھ ملا کر مدینہ منورہ پر حملہ کی غرض سے حجاز مقدس پر حملہ آور ہوا ۔سلطان صلاح الدین ایوبی نے ان کی منفی سرگرمیوں کا تعاقب کیا اور ان کے ارادے خاک میں ملانے کیلئے ہر لمحہ اپنی فوج کے ساتھ چاک و چوبند رہتے ۔آپ کو جب علم ہوا کہ رینالڈ حملے کی تیاری کر رہا ہے تو آپ نے اسے حطین میں ہی پکڑ لیا ۔آپ نے اپنے ساتھیوں کی مدد سے آتش گیر مادہ زمین پر ڈلوا دیا ۔جب اس کا لشکر اس جگہ پہنچا تو زمین آتش گیر مادہ سے لرز اُٹھی ۔اس جنگ میں تقریباً تیس ہزار عیسائی ہلاک ہوئے اور کافی تعداد میں قیدی بنا لئے گئے ۔رینالڈ کو آپکے سپاہیوں نے گرفتار کر کے آپ کے روبرو پیش کیا ۔آپ نے اپنے ہاتھوں سے اسے قتل کیا ۔ ایک مرتبہ آپ کو نچلے دھڑ پر پھوڑا نکل آیا، اس تکلیف کی وجہ سے بیٹھ کر کھانا نہیں کھا سکتے تھےچنانچہ صبح سے ظہر اور ظہر سے عصر اور مغرب تک گھوڑے پر سوار رہتے ۔آپ فرماتے تھے کہ میں جب تک گھوڑے پر بیٹھا رہتا ہوں ٹھیک رہتا ہو ں اور جب نیچے بیٹھتا ہوں تو تکلیف شروع ہو جاتی ہے ۔آپ اپنی رعایا کے ساتھ انصاف میں پیش پیش رہتے تھے ۔ خواتین کی عزت و احترام کو اوّلین ترجیح دیتے تھے ۔آپ چونکہ سچائی و ایمانداری کا مجسم تھے ۔اس وجہ سے دن بدن آپ کے دُشمنوں کی تعدا د میں اضافہ ہو رہا تھاکیونکہ حسد اور کینہ کا شکار افراد ہر آن اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل میں سرگرداں رہتے تھے ۔ایک مرتبہ شاریہ نامی خوبصورت دوشیزہ نے قاضی ارسون اور نور الدین زنگی کی عدالت میں سلطان صلاح الدین ایوبی پر الزام عائد کیا کہ انہوں نے رات کی تاریکی میں میرے ساتھ بد کاری کی ہے ۔جب آپ کے علم میں آیا کہ اس لڑکی نے اُن پر الزام عائد کیا ہے تو آپ زاروقطار رونے لگے کیونکہ یہ الزام سراسر غلط و بے بنیاد تھا ۔چنانچہ آپکو عدالت میں طلب کیا گیا ۔جب آپ عدالت پیش ہوئے تو آپ کا چہرہ پیلا ہو چکا تھا اور شدید بخار تھا آپ اپنے رب کریم سے حق و انصاف کی التجا کر رہے تھے ۔آپ نور دین زنگی کے بھتیجے تھے اور نور الدین زنگی سخت گیر انصاف پسند حکمران تھے اور انصاف کے معاملے میں کسی بھی رشتہ کو اہمیت نہ دیتے تھے ۔دربار میں موجود افراد آپس میں گفتگو کر رہے تھے کہ سلطان مجرم ہے اسی وجہ سے اس کو بخار ہے لیکن کچھ اچھے لوگوں کا یہ موقف تھا کہ سلطا ن ہر گز ایسا نہیں کر سکتا ۔نور الدین زنگی نے آپ سے دریافت کیا کہ کیا آ پ نے ایسا کیا ہے ۔ آپ نے فرمایا کہ یہ مجھ پر جھوٹا الزام ہے ۔ قاضی نے جب شاریہ سے پوچھا تو اس نے کہا نہیں سلطان نے میرے ساتھ رات کی تاریکی میں بدکاری کی ہے۔ سلطان صلاح الدین ایوبی نے آسمان کی طرف سر اُٹھا کر دیکھا اور کہا کہ اے مالک تو سچ جانتا ہے تو میری مدد فرما لیکن لڑکی نے پھر اپنا بیان دہرایا ۔بلآخر آپ نے لڑکی سے کہا کہ اللہ کی قسم اُٹھا کر سچ بتا کہ کیا میں نے تیرے ساتھ بُرا کیا ہے ۔اس پر لڑکی رونے لگی اور اس نے قاضی سے کہا کہ سلطان بے قصور ہے،میں نے ان پر جھوٹا الزام عائد کیا ہے ۔قاضی نے اس لڑکی سے سچ بتانے کو کہا تو اس نے بتایا کہ میرے والدین نے امیر ابن مرقوم سے کچھ رقم قرض کے طور پر لی تھی لیکن مدت پوری ہونے تک ہم رقم کا انتظام نہ کر پائے تھے ۔لہذا اس نے کہا کہ تم سلطان پر زنا کا الزام لگا دو تو میں تمہارا قرض معاف کر دونگا ۔چنانچہ مجھ سے یہ غلطی سرزد ہوئی ۔ غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے اس لڑکی نے قاضی وقت اور سلطان صلاح الدین ایوبی سے معافی مانگی ۔امیر ابن مرقوم کو گرفتار کر لیا گیا اس کو 70کوڑے مارنے کی سزا دی اور اس کی جائیداد بھی ضبط کر کے سلطان کو دینے کا حکم صادر فرمایا آپ نے اس کی جائیداد لینے سے صاف انکار کر دیا اور کہا کہ میں کسی کا مال مفت میں ہڑپ نہیں کر سکتا ۔جی قارئین ! یہ صداقت پر مبنی ہے کہ جو افراد نا محرم عورتوں سے دور رہتے ہیں اور زنا کے مرتکب نہیں ہوتے اللہ کریم اُن کی غائبی مدد فرماتا ہے اور ان کی عزت و توقیر سدا سلامت رہتی ہے ۔