سیانے کہتے ہیں کہ جب کسی کھیت کی باڑ ہی باڑ کو کھانا شروع کردے تو شکوہ کس سے کیا جائے۔؟ فی زمانہ یہی سلوک ایک عام آدمی کا دوسرے عام آدمی سے ہے۔گویا عام آدمی ہی عام آدمی کا دشمن ہے۔زندگی کے ہر شعبے میں اس عام آدمی نے دوسرے عام آدمی کیلئے مسائل کھڑے کئے ہوئے ہیں ۔عام آدمی اگر دوکاندار ہے تو کم تول کر اپنے جیسے دوسرے عام آدمی کو نقصان پہنچاتا ہے۔اگر پھل بیچتا ہے تو نظر بچا کر گندے اور گلے سڑے پھل بھی شاپر میں ڈال دیتا ہے۔دودھ فروش ہے تو اس دودھ میں پانی ملا کر بیچنا اپنا فرض عین سمجھتا ہے۔روٹی اور نان بیچتا ہے تو کسی بھی صورت اسکا وزن پورا نہیں دیتا۔ہوٹل والا ہے تو کھانے میں اس قسم کی سبزی پکاتا ہے جسے عام حالات میں جانور بھی نہیں کھاتے۔ گوشت والا ہے تو کبھی بھی کسی گاہک کو اچھا گوشت نہیں بیچتا بلکہ کوشش کرتا ہے کہ ساری کی ساری ہڈیاں اور چھیچھڑے اسے ہی دیدے۔کپڑے والا ہے تو ناقص اور غیر معیاری کپڑے کو معیاری اور قیمتی بنا کر فروخت کر دیتا ہے۔ٹیلر ماسٹر ہے تو سوٹ بناتے وقت ناقص اور غیر معیاری میٹیریل لگا کر سوٹ سلائی کر دیتا ہے لیکن اجرت اپنی مرضی کی وصول کرتا ہے اور بچا ہوا کپڑا مالک کو کبھی بھی واپس نہیں کرتا۔ دوکاندار ہے تو اپنی دوکان کا سارا سامان باہر سڑک پہ لگا کر بچوں بوڑھوں اور خواتین کا گزرنا محال کر دیتا ہے ۔ یہی نہیں بلکہ اپنی دوکان کے آگے والی جگہ جوکہ سڑک کا حصہ ہوتی ہے اسے بھی کرائے پہ چڑھا کر اپنی جیب بھرتا ہے لیکن ہوس ہے کہ پھر بھی پوری نہیں ہوتی۔یہی عام آدمی اپنے گھر کا کوڑا اسے صاف رکھنے کیلئے باہر گلی میں پھینکتا ہے لیکن گلی کو صاف نہیں رکھتا۔ یہ اپنے لئے بیش قیمت مکان تو بنوا لیتا ہے لیکن گھر کے باہر ٹوٹی ہوئی سڑک کو مرمت نہیں کرواتا۔گھر کا گندہ پانی گھر میں برداشت نہیں کرتا لیکن وہی گندہ پانی اپنے گھر کے باہر گلی میں ضرور برداشت کر لیتا ہے۔
یہی عام آدمی اگر سڑک پر ہے تو وہاں بھی یہ اپنے جیسے دوسرے آدمی کیلئے مسائل کھڑے کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ یہ اگر موٹر سائیکل چلاتا ھے تو پیدل چلنے والوں کیلئے عذاب بن جاتا ہے۔رکشہ چلاتا ہے تو ادھر ادھر دیکھے بغیر چلاتا ہے اور اچانک موڑ کاٹ کر پیچھے آنے والے کیلئے ایکسیڈنٹ کا باعث بن جاتا ہے۔ ریڑھی والا ہے تو پیچھے سے آنے والے کو راستہ نہیں دیتا۔ٹریکٹر کے اوپر بیٹھا ہے تو اتنی اونچی آواز میں میوزک چلاتا ہے کہ کانوں کو پھاڑ کے رکھ دیتا ہے۔بڑی گاڑیاں جیسے بس ٹرک اور ٹرالر چلاتا ہے تو ریس لگانے اور دوسروں سے آگے نکلنے کے شوق میں دوسروں کی جانیں لے لیتا ہے۔
یہی عام آدمی اپنی بیٹی کی شادی کرتا ہے تو لڑکے والوں سے سو طرح کی شرائط منواتا ہے اور بیٹے کی شادی کرے تو لڑکے والوں سے اپنے من چاہے جہیز کا تقاضہ کرتا ہے۔مسجد میں نماز پڑھے تو امام مسجد کو اپنے تابع بنا کر رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ کوئی سیاست دان یا وڈیرا اسے منہ لگائے یا نہ لگائے اس عام آدمی نے اپنے جیسے دوسرے آدمی سے اپنے تعلقات ان لوگوں کی خاطر ضرور خراب کر لینے ہیں۔ اس عام آدمی کے گھر میں کھانے کو روٹی پہننے کو کپڑا اور سر چھپانے کو چھت بھلے ہو نہ ہو اس نے اپنا تعلق کسی نہ کسی پارٹی سے ضرور جوڑنا ہے۔کہیں پہ یوتھیا بن کر۔کہیں پہ پٹواری۔ کہیں پہ جیالا اور کہیں پہ متوالا بن کر۔ان سیاستدانوں نے عام آدمی کو اس جگہ پہ لا کھڑا کیا ہے جہاں اس نے صرف ان لوگوں کی غلامی میں ہی اپنی زندگی بسر کرنی ہے بلکہ ان کی آئندہ آنے والی نسلوں کی غلامی میں بھی اپنی زندگی بسر کرنی ہے۔ان نسلوں کی بھی جو شائد ابھی پنگھوڑے میں جھولے جھول رہی ہوں۔ کیونکہ یہ عام آدمی ہی ان سیاستدانوں کے جلسوں کی رونق کو بڑھاتا ہے۔ان کیلئے اپنے گلے ہھاڑ پھاڑ کر نعرے لگاتا ہے۔ “کبھی آوے گا بھئی آوے گا اور کبھی جاوے گا بھئی جاوے گا“ جیسی فلک شگاف آوازیں لگاتا ہے۔کبھی ان کے آنے پہ خوشیاں مناتا ہے اور کبھی ان کے جانے پہ آتش بازی کرتا ہے اور مٹھائیاں تقسیم کرتا ہے۔ بعض اوقات تو یہ بھی منظر دیکھا گیا ہے کہ آتے وقت بھی اور جاتے وقت بھی وہ ایک ہی شخص ہوتا ہے۔گویا جدھر اسے لگا دیا جاتا ہے ادھر وہ لگ جاتا ہے بلکل ایک اونٹ کی طرح کہ جس کی نکیل کو جدھر موڑا جاتا ہے ادھر وہ چل دیتا ہے اپنے مالک کے کہنے پر۔یہی عام آدمی ان سیاستدانوں کی حمایت میں اتنا آگے چلا جاتا ہے کہ ان کی خاطر وہ اپنے سب دوست احباب اور رشتے ناطے بھول جاتا ہے۔میرے اس دعوے کا ثبوت دیکھنے کیلئے کچھ زیادہ دور جانے کی بھی ضرورت نہیں۔آج ہر گھر میں یہی مسلہ اور یہی منظر موجود ہے۔ باپ ایک پارٹی کا طرفدار اور بیٹا دوسری پارٹی کا حمایتی اور جب شام کو گھر میں دونوں اکٹھے ہوتے ہیں تو باپ اور بیٹے میں نظریات کا تضاد اور بعد انکی آپس میں ہونے والی گفتگو سے واضح نظر آتا ہے۔ یہی عام آدمی بطور گارڈ یا چپڑاسی کسی سرکاری دفتر کے گیٹ پر موجود ہے تو کسی کی مجال نہیں کہ وہ اسکی اجازت کے بغیر دفتر میں داخل ہو جائے۔یہی بندہ اگر کس دفتر میں کلرک ہے تو اپنے جیسے کسی دوسرے آدمی کی فائل کو ہاتھ لگانا اس وقت تک گناہ سمجھتا ہے جب تک اسے رشوت نہیں مل جاتی۔رشوت نہ ملنے کی صورت میں یہ سانپ اور بچھو کی طرح کاٹ کھانے کو دوڑتا ہے۔یہ دفتر سے مسجد میں نماز پڑھنے کیلئے جاتا ہے تو جان بوجھ کر دیر سے واپس آتا ہے تاکہ سائلین اسکا انتظار کر کر کے تھک جائیں اور آخر کار گھروں کو چلے جائیں۔اسکے لئے کام کرنا تو گویا گناہ ہے اس وقت تک جب تک اسکی مٹھی گرم نہیں کر دی جاتی۔یہی بندہ بجلی کے محکمے میں ہے تو گھر بیٹھ کر میٹر ریڈنگ کرتا ہے اور جان بوجھ کر ریڈنگ میں تاخیر کرتا ہے تاکہ میٹر ہولڈر پروٹیکٹڈ والی کیٹیگری سے نکل جائے اور نان پروٹیکٹڈ میں آ جائے۔
گویا سب سے بڑا جھوٹا۔سب سے بڑا بد دیانت اور سب سے بڑا چور اس ملک میں اگر کوئی ہے تو وہ عام آدمی ہی ہے۔کوئی مانے نہ مانے یہی سچ ہے اور یہی حقیقت ہے۔اگر یہی عام آدمی سنور جائے تو سارا نظام درست ہو سکتا ہے۔لیکن ہوگا کیسے۔! مسئلہ یہی ہے۔