مقام ابراہیم ؑکی فضیلت

اللہ رب العزت قرآن مجید میں ارشاد فرماتے ہیں جس کا مفہوم ہے کہ ”اور جب ہم نے کعبہ کو لوگوں کے لئے ثواب اور امن کی جگہ بنایا اور مقام ابراہیم کو نماز پڑھنے کی جگہ بنا لو اور ابراہیم اور اسمٰعیل (علیھما اسلام) کو فرمایا میرے گھر کو طواف اور اعتکاف کرنے اور رکوع و سجود کرنے والوں کے لئے پاک صاف رکھا کرو۔اور جب ابراہیم (علیہ اسلام) نے دعاکی اے میرے پروردگار اس جگہ کو امن کا شہر بنائیے اور اس کے رہنے والوں میں سے جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو کو پھل عطا فرمائیے۔ فرمایا اور جو کفر کرے گا سو اس کو بھی تھوڑا عرصہ (یعنی دنیا میں) بہت آرام دوں گا پھر اس کو کشاں کشاں آگ کے عذاب میں پہنچاؤں گا اور وہ پہنچنے کی بہت بری جگہ ہے۔“عمرہ ہو یا حج یا ویسے کوئی اللہ کا بندہ خانہ کعبہ کا طواف کرے تو ہر طواف کے بعد مقام ابراہیم علیہ السلام پہ دو نفل ادا کرتا ہے‘ یہ اس کا حصہ ہے۔ بیت اللہ شریف میں مقام ابراہیم پرایک سفید رنگ کا پتھر آج بھی موجود ہے کہ جیسے جیسے بیت اللہ کی تعمیر ہوتی تھی اس پتھر پہ سیدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام کھڑے ہوکر تعمیر کرتے جاتے تھے‘ دیوار اونچی ہوتی جاتی تھی اور پتھرازخود اونچا ہوتا جاتا تھا اور دیوار کے ساتھ ساتھ چلتا رہتا تھا۔ آپ(حضرت ابراہیم علیہ السلام) نے بیت اللہ شریف کی تعمیر کی اور اس پتھر میں دو ڈھائی انچ گہرائی تک آپ علیہ السلام کے نقوش کف پا مبارک اتر گئے۔ آج بھی زائرین کی زیارت کے لئے بیت اللہ شریف کے سامنے وہ ایک شیشے میں بندرکھا ہوا ہے۔ سفید رنگ کا پتھرہے جیسے سنگ مرمر ہوتاہے اور اس میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دونوں پاؤں مبارک دو ڈھائی انچ تک گہرائی میں لگے ہوئے ہیں‘ تو اللہ کریم نے ارشاد فرمایا: اس جگہ‘ جہاں یہ پتھر رکھا ہے‘ یہاں نوافل ادا کرو۔ اورہم نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اور حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کو یہ حکم دیا کہ ہمارے گھر کو صاف رکھیں‘ پاکیزہ رکھیں‘ اعتکاف کرنے والوں کے لئے‘رکوع اور سجود کرنے والوں کے لئے اور طواف کرنے والوں کے لئے‘ زیارت کرنے والوں کے لئے‘حج کرنے والوں کے لئے‘عمرہ کرنے والوں کے لئے یعنی اللہ کی عبادت کرنے والوں کے لئے اس گھر کو ہمیشہ پاکیزہ اور صاف ستھر ا رکھیں۔ اس میں کوئی دینی قباحت ہو نہ کوئی دنیو ی قباحت ہو‘ اس میں کوئی غلاظت یا گندگی بھی نہ ہو اور دینی اعتبار سے کوئی بت‘ کوئی اس طرح کی خباثت اس میں نہ ہو۔جب اللہ نے حکم دیا تو آپ علیہ السلام نے بیت اللہ شریف تعمیر فرمایا پھر اس کو صاف ستھرا کیا‘ سجایا‘ اس میں عبادت شروع کی اور دعا کی‘ اے اللہ! اس شہر کو شہرامن بنا دے اور اس میں رہنے والوں کو پھل اور رزق عطا فرما جو بھی تیر ی ذات پراور آخرت پر ایمان لائے۔اللہ کریم نے فرمایا کہ آپ علیہ السلام نے دعا کی ہے اور آپ علیہ السلام نے صرف مسلمانوں اور مومنین کے لئے دعا کی ہے لیکن میں دنیا میں کافر کو بھی ان نعمتوں سے محروم نہیں کروں گاجواس شہر میں آیا اگر وہ مومن نہ بھی ہوا تو اسے رزق ملے گا اور پھل بھی ملیں گے۔آج تویہ تکنیک عام ہو گئی ہے کہ ہر موسم میں پھل ملتاہے اور کچھ نقلی طریقے سے کچھ ایسی ادویات بن گئی ہیں‘ ایسی کھادیں بن گئی ہیں کہ بغیر موسم کے سبزیاں اور پھل پیدا کیے جاتے ہیں لیکن ایک زمانہ تھا جب یہ چیزیں نہیں تھیں۔آج سے پچیس تیس سال پہلے ایسا کوئی تصور بھی نہیں تھا لیکن مکہ مکرمہ میں روزِ اول سے لے کر آج تک کبھی موسم یا زمانے کی قید نہیں رہی۔ہر زمانے کا پھل موجود ہوتاہے اور ایک شہر میں پینتیس پینتیس لاکھ لوگ باہر سے جمع ہوجاتے ہیں اور کبھی کوئی بھوکا نہیں سوتا۔ سب کے رزق کا اہتمام بھی ہوتاہے اور دنیا کا ہر پھل بھی وہاں ملتا ہے لیکن فرمایا: مومن کے لئے تو درست‘دنیا میں کافر کو بھی دوں گا لیکن اس کا فائدہ حاصل کرنے کا وقت کم ہوگا۔تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی یہ دعا بھی اس طرح منظور ہوئی کہ وہ شہر، شہر امن بھی بنااور اس میں آج تک رزق کی بھی کوئی کمی کسی نے محسوس نہیں کی۔اللہ کریم اپنی نعمتوں سے اور اپنے رزق سے فائدہ اٹھانے کی توفیق بھی دے لیکن اپنی ذات کے ساتھ ایمان پر پختہ رہنے کی توفیق عطافرمائے۔ دنیاوی دولت یا دنیاوی شہرت یادنیاوی وقار کوئی چیز نہیں اگر اس کے بدلے آخرت ضائع ہوجائے اور اللہ کریم آخرت کو محفوظ رکھیں‘ ایمان کو محفوظ رکھیں‘ توفیق عمل دیں اور اس کے ساتھ دنیا کی عزت بھی دیں تو یہ اس کا انتہائی کرم ہے۔