نوڈلز نما الجھی ٹریفک، سینکڑوں اموات لمحہ فکریہ، ایک شادی ہی کیوں؟

اہم دفتری امور کی انجام دہی کے پیش نظر ڈیرہ غازیخان یاترا کیلئے عَلیٰ الصُّبْح اپنے غریب خانہ سے نکلا تو سکول ٹائم ہونے کے باعث بوسن روڈ پر جہاں بے پناہ رش میں گھر گیا تو اسی دوران ہوٹر (سائرن) کی آواز سنائی دی۔ عام طور پر اسطرح کے سائرن ایمبولینس یا پھر قانون نافذ کرنیوالے اداروں کی گاڑیوں پر نصب ہوتے ہیں۔ سائرن کی آواز اچانک سن کر کسی بھی بہادر شخص کا گھبرا یا خوفزدہ ہوجانا کوئی اچنبے کی بات نہیں کیونکہ عام طور پر یہ سائرن صرف اسی صورت میں آن کیا جاتا ہے کہ جب معاملہ ایمرجنسی / حساس نوعیت کا ہو۔ اس دوران ٹریفک اسقدر بے ہنگم تھی کہ شاید نوڈلز سے بھرا ہوا باؤل بھی الجھی ہوئی ٹریفک کی درست عکاسی نہ کرسکے۔ ہر کوئی کہیں نہ کہیں سے جگہ حاصل کرکے نکل جانے کی کوششوں میں دکھائی دے رہا تھا مگر الجھے ہوئے نوڈلز کو تو شاید تھوڑی بہت تگ و دو کے بعد کوئی مائی کا لعل سلجھا ہی لے لیکن مجال ہے کہ کوئی افلاطون ہمارے ہاں ٹریفک کی بے ترتیبی کا کوئی حل پیش کر سکے۔ جس کا بخوبی اندازہ ریسکیو 1122 کی جانب سے ماہ اپریل کے دوران پنجاب بھر میں ہونیوالے حادثات کی رپورٹ سے بھی لگایا جا سکتا ہے۔ ریسکیو 1122 کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ ماہ صوبہ بھر میں مجموعی طور پر 41 ہزار 371 حادثات رپورٹ ہوئے۔ جس کے نتیجہ میں 327 افراد جہان فانی سے کوچ کر گئے جبکہ 45 ہزار 917 افراد زخمی ہوئے۔ جن میں36 ہزار 392 مرد اور 9 ہزار 525 خواتین شامل ہیں۔21 ہزار 62 شدید زخمیوں کو طبی امداد کیلئے مقامی ہسپتالوں میں منتقل کیا گیا جبکہ 24 ہزار 855 افراد کو موقع پر فرسٹ ایڈ فراہم کی گئی۔ ریسکیو حکام کے مطابق ٹریفک حادثات میں لاہور سرفہرست رہا۔جہاں ماہ اپریل میں 8383 جبکہ فیصل آباد 2955 اور ملتان میں 2612 ٹریفک حادثات رپورٹ ہوئے۔ چلیں موقع کی مناسبت سے آپ کو چند سال پرانا ایک واقعہ سناتا ہوں۔ ناچیز کے حقیقی چھوٹے بھائی سلیمان اسلم رندھاوا کے بہت عزیز دوست اویس چودھری کی شادی پر عمانی رائل فیملی کے ایک چشم چراغ ’’حمود الحبسی المعینی‘‘ بھی مدعو تھے جوکہ شادی سے چند روز قبل ہی ملتان پہنچ گئے۔ اُنہیں قدیمی شہر ملتان گھمانے سمیت دیکھ بھال کی اہم ذمہ داری زین حفیظ ٹھٹھیالہ کو سونپی گئی۔ مہمان خاص نے خواہش ظاہر کی کہ موٹرسائیکل پر ہی شہر گھمایا پھرایا جائے تاکہ محدود وقت میں تمام اہم مقامات دیکھ سکوں۔ النگ گھنٹہ گھر سے اندرون سمیت شہر کے تمام قدیمی دروازے وزٹ کرائے گئے۔ تنگ گلیوں میں واقع بلند و بالا قدیمی عمارتیں اور چند نئی بلڈنگز دیکھ کر جہاں حیران اور خوش ہوئے تو دوسری جانب بوسیدہ عمارتوں کی شکست وریخت دیکھ کر افسردہ بھی ہوئے کہ قدیمی شہر کا تاریخی ورثہ متعلقہ حکام اور ارباب اختیار کی عدم توجہی کے باعث مٹتا جا رہا ہے۔ عمانی مہمان باراتی بن کر ساہیوال شہر بھی گئے۔ اُنہیں پاکستانی چٹ پٹے کھانے بہت پسند آئے مگر چند باتوں پر بہت حیران اور پریشان بھی دکھائی دئیے۔ ناچیز کے والد گرامی چودھری اسلم رندھاوا سے انتہائی جذباتی انداز میں کبھی عربی یا فارسی تو کبھی انگلش میں مخاطب ہوتے۔ والد محترم کے چہرے کے تاثرات سے بھی اندازہ نہیں لگا پا رہے تھے کہ آخر بات کیا ہے کیونکہ عمانی مہمان کے چہرے سے پریشانی ٹپک رہی تھی اور اباجان بھی بڑی سنجیدگی سے انہیں ناصرف سن رہے تھے بلکہ سر ہلا کر ان سے اتفاق کرتے بھی دکھائی دے رہے تھے۔ اسی دوران انہوں نے دعوت ولیمہ میں شریک اپنے بیٹوں، دامادوں اور انکے دوست احباب سے مخاطب ہوکر کہا کہ آپ سب آکر مہمان خاص کو سنیں تاکہ انہیں الجھن اور پریشانی کا حل مل سکے۔ انہوں نے سوال کیا کہ کیا واقعی پاکستان کی آبادی میں خواتین کی شرح مردوں سے زیادہ ہے؟ اکثریت کی جانب سے حامی بھرنے پر انہوں نے کہا کہ پھر یہاں کا رسم و رواج عجیب اور پریشان کن نہیں کہ ہر مرد نے صرف ایک ہی شادی کر رکھی ہے۔ بے شمار لوگوں سے ملاقات کے بعد شاید 2، 4 لوگوں نے ہی 2 شادیوں کا بتایا ہو۔ انہوں نے پریشانی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہی ریت قائم رہی تو ایک وقت آئیگا جب شادی کی آس میں بیٹھی بیٹیوں کی غیر معمولی تعداد کے سروں میں والدین کے گھر ہی چاندی سی اُتر آئے گی جوکہ عورت کے مقام اور احترام میں کمی کا باعث بنے گا۔ معاشرے میں بے حیائی بڑھے گی۔ حالیہ دنوں سوشل میڈیا، پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا پر زینت بننے والی اقوام متحدہ کی ہوشرباء رپورٹ سے مہمان خاص کے خدشات درست ثابت ہوگئے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسوقت پاکستان میں 35 سال سے زائد عمر کی ایک کروڑ خواتین شادی کی منتظر ہیں۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ سے جہاں اَوسان خَطا ہوئے ہیں تو دوسری جانب عمانی مہمان کی دوراندیشی بھی قابل رشک لگی کہ انہوں نے برسوں قبل ہی آج پیدا ہونیوالی صورتحال کو بھانپ لیا تھا۔’’حمود الحبسی المعینی‘‘ نے اپنی بات کو بڑھاتے ہوئے ہوئے کہا کہ پاکستان میں ٹریفک کا نظام بہت عجیب بلکہ سمجھ سے ہی بالاتر ہے بلکہ نوڈلز سے بھی زیادہ الجھا ہوا کہا جائے تو درست ہوگا۔ ہر کوئی بہت جلدی میں دکھائی دیتا ہے۔ ٹریفک قوانین پر عملدرآمد کہیں نظر نہیں آتا۔ نظم و ضبط نام کی کوئی چیز نہیں۔ روڈ یوذر سائیکلسٹ ہوں، موٹرسائیکل یا کار سوار ہوں یا گدھا ریڑھی بان اچانک کسی بھی سمت سے سڑک پر آجاتے ہیں اور بغیر انڈیکیٹر (اشارہ) دئیے کسی بھی جانب مڑ جاتے ہیں۔ یہ بھی المیہ ہے کہ کوئی اپنی غلطی تسلیم کرنے کو تیار نہیں کیونکہ ہر کوئی حق بجانب ہے۔ خوش آئند اور حیران کن امر یہ ہے کہ ٹریفک کی بے ہنگم صورتحال کے باوجود حادثات کی شرح اتنی خوفناک نہیں کہ جس قدر ٹریفک رولز کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں مگر بے ہنگم ٹریفک کے نظام کو فوری طور پر درست کرکے منظم نہ کیا گیا تو وہ وقت دور نہیں جب ٹریفک حادثات کی شرح اور قیمتی جانوں کے ضیاع میں ہوشرباء اضافے کا اندیشہ ہے۔ ریسکیو 1122 کی جانب سے جاری کردہ ماہ اپریل میں ہونیوالے ٹریفک حادثات کے نتیجہ میں سینکڑوں قیمتی جانوں کے ضیاع کی رپورٹ نے عمانی مہمان کے اندیشہ کو درست ثابت بھی کر دیا ہے۔بدقسمتی سے ہر سال لاتعداد قیمتی جانیں یونہی جلدبازی اور عدم توجہی کے باعث ٹریفک کے سنگین حادثات کی بھینٹ چڑھ جاتی ہیں۔ جن کے لواحقین اپنی اپنی زندگیوں تک اپنے پیاروں کی جدائی کا روگ سینہ میں لئے دارفانی سے کوچ کر جاتے ہیں۔ سرکاری سطح پرایسا کوئی میکانزم ہے نہ عوام میں شعور اس نہج پر پہنچا ہے کہ جس سے مستقبل قریب میں ٹریفک سسٹم بہتر ہونے کی کوئی امید دکھائی دے۔ کہا جاتا ہے کہ مہذب معاشروں کا اندازہ وہاں کے لوگوں میں ٹریفک شعور سے بھی لگایا جا سکتا ہے۔ ٹریفک رولز کا احترام مہذب اقوام کا شعار ہے۔ مہذب معاشروں میں ٹریفک قوانین پر عملدرآمد کیلئے ناصرف سخت قوانین بنائے جاتے ہیں بلکہ عوامی شعور کی بیداری کیلئے وقتاً فوقتاً آگاہی سیمینارز بھی منعقد کئے جاتے ہیں۔ اسکے ساتھ پالیسیز پر مستقل عملدرآمد بھی اہمیت کا حامل ہوگا۔ نجانے کیوں ہر پالیسی پر عملدرآمد محض عارضی بنیادوں پر دکھائی دیتا ہے اور پھر رات گئی بات گئی جیسی صورتحال بن جاتی ہے۔ گزشتہ دنوں اچانک موٹرسائیکل سواروں کیلئے ہیلمٹ اور ڈرائیونگ لائسنس کو لازمی قرار دے کر بلارعایت چالان شروع کر دئیے گئے مگر چند روز بعد ہی قانون کو بالائے طاق رکھ کر پھر موٹرسائیکل سواروں کو بغیرہیلمٹ اور بغیر لائسنس کھلے عام موٹرسائیکلوں پر گھومنے کی آزادی دیدی گئی۔ ارباب اختیار کو چاہئے کہ ٹریفک نظام میں بہتری کیلئے ایسے قوانین بنائیں اور رولز میں ایسی اصلاحات لائیں جن کے ذریعے ٹریفک قوانین پر ہرصورت عملداری یقینی بنائی جائے۔ صرف اسی طرح ہی حادثات کی شرح میں غیرمعمولی کمی واقع ہو سکتی ہے۔ ٹریفک حادثات کے نتیجہ میں کسی گھر کے کفیل کی صرف فزیکل ڈیتھ نہیں ہوتی بلکہ بدقسمت خاندان کو چند لمحوں بعد ہی فنانشل ڈیتھ کا بھی سامنا کرنا ہوتا ہے جو انہیں خود کفیل ہونے تک ہر لمحہ بھگتنا پڑتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اُس لمحے ٹریفک جام اسلئے بھی زیادہ تکلیف دہ محسوس ہو رہا تھا کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سائرن کی آواز بتدریج اونچی ہوتی جا رہی تھی جس کے باعث پریشانی اور خوف بھی بڑھتا چلا جا رہا تھا کہ یااللہ خیرفرمانا! نجانے کس نوعیت کی میڈیکل ایمرجنسی ہوگی۔ کہیں وہ اپنے گھر کا واحد کفیل ہی نہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ سائرن کی آواز کو اعصاب شکن بھی کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ اچانک پروٹوکول سکواڈ پر مامور گاڑی نمودار ہوئی تو جان میں جان آئی۔ جسے دیکھتے ہی ڈیوٹی پر تعینات ٹریفک پولیس کے سپوت بڑی پھرتی سے سڑک کے بیچ کود پڑے جبکہ پروٹوکول پر مامور سرکاری گاڑی پر بیٹھے سکیورٹی اہلکاروں کا نام نہاد شہریوں کو سائیڈ پر ہٹانے کا ہتک آمیز انداز بھی دل پر گراں گزرا۔ یوں دیکھتے ہی دیکھتے روڈ پر سفر کرنیوالے غریب کیڑے مکوڑوں کو سائیڈ پر کرکے انہی کے ٹیکس پر پلنے والی صاحب بہادر نامی اعلیٰ مخلوق کو الجھی ہوئی ٹریفک کے ہجوم سے اسقدر صفائی اور غیرمحسوس انداز میں یوں نکال لیا گیا کہ جیسے مکھن میں سے بال جوکہ ہر شہری کیلئے لمحہ فکریہ سے کم نہیں۔ پنجابی کی بڑی مشہور ضرب المثل ہے کہ ’’اخے پھلیاں کھان نوں باندری، تے ٹمبے کھان نوں ریچھ‘‘۔ پاکستان میں ہرشخص بھلے وہ بھکاری ہی کیوں نہ ہو مگر ٹیکس تو ہر صورت ادا کرنا ہی پڑتا ہے۔ بھلے وہ ماچس کی ڈبی خریدے یا کوئی یوٹیلیٹی بل ادا کرے۔ دیکھا جائے تو بنیادی ضروریات برائے نام ہیں جبکہ سہولیات تو صرف مخصوص کلاس کیلئے ہی ہیں۔ پبلک سرونٹس کو بھاری تنخواہوں کے ساتھ بے شمار مراعات سے بھی نوازا جاتا ہے جبکہ پیٹ کاٹ کاٹ کر ٹیکس دینے والے غریب کو اپنے کنبہ کا پیٹ بھرنے کیلئے روٹی میسر ہوتی ہے نہ تن ڈھانپنے کو کپڑے۔ تعلیم اور صحت کی سہولیات بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ دوسری جانب عوام کے ٹیکس پر پلنے والے ہر ’’صاحب بہادر‘‘ سرکاری کرسی پر بیٹھتے ہی اتنے محسن کش اور احسان فراموش ہو جاتے ہیں کہ اپنا محسن تو درکنار انہیں انسان تک نہیں سمجھتے۔ یوں مخاطب ہوتے ہیں کہ جیسے وہ ان سے بھیک مانگنے کی غرض سے آئے ہوں۔ہونا تو ایسے چاہئے کہ ہر سرکاری دفاتر میں آنیوالے معزز شہریوں کے ساتھ بلاتمیز و بلاتفریق انتہائی ادب اور عزت و احترام سے پیش آیا جائے۔پبلک سرونٹس کو عوام کا خادم بن کر حقیقی کردار نبھانا ہوگا۔ استحصال کی روش ترک کرنا ہوگی۔یہ ہی حقیقی جمہوریت ہے۔