آئی پی پیز مالکان کیساتھ حکومتی ملی بھگت‘ سولرسسٹم کی حوصلہ شکنی کیلئے نیٹ میٹرنگ پر سخت ترین ظالمانہ شرائط عائدکرنے کا منصوبہ،نیٹ میٹرنگ کیلئے ذاتی ٹرانسفارمر کی شرط عائدکرنے کی تیاریاں کی جارہی ہیں۔ذرائع کےمطابق حکومت آئی پی پیز کی مہنگی بجلی عوام کو فی یونٹ85روپےتک دے رہی ہے‘اب فی یونٹ قیمت 100روپے فی یونٹ تک کی جارہی ہے جس کےتحت محض 500یونٹ استعمال کرنے والوں کو 50ہزا رروپے بل آئے گا اور1000یونٹ استعمال کرنے والوں کو ایک لاکھ روپے کا بل آئے گا‘یہ ملکی تاریخ میںبجلی کا بدترین ریٹ ہوگا‘ حکومت نےبجلی کی مسلسل بڑھتی قیمتوں سے تنگ آکر سولرسسٹم پر شفٹ ہونے والے شہریوں کو ستانے کا منصوبہ بنا لیا گیا ہے جس کے تحت نیٹ میٹرنگ کے لئے سخت ترین شرائط عائد کی جائیں گی‘اس میں ذاتی ٹرانسفارمر لگوانے کی ظالمانہ شرط بھی شامل ہےکہ 5کلو واٹ کا سولر سسٹم لگوانے والوں کو بھی 25کے وی کا ٹرانسفارمرلگوانا پڑے گا‘ صورتحال یہ ہورہی ہے کہ 5کلوواٹ تک سولرسسٹم لگوانے کے کل اخراجات تقریباً4سے 5لاکھ روپے ہیں تو کم از کم 25کے وی کا ٹرانسفارمرلگوانے کے لئے کم از کم 7لاکھ روپے تک اخراجات آئیں گے جو شدید ظلم کےمترادف ہے‘یہاںیہ امر قابل ذکر ہے کہ 100روپے فی یونٹ بجلی قیمت کا پروگرام بنانے والی حکومت سولر سسٹم کے نیٹ میٹرنگ والے صارفین سے صرف 19روپے فی یونٹ بجلی خرید رہی ہے‘ آئی پی پیز سے ”کمیشن“ کے چکر میں نیٹ میٹرنگ والے صارفین کی حوصلہ شکنی کی جارہی ہے تاکہ آئی پی پیز کی مہنگی ترین بجلی کی خریداری جاری رہے اور صارفین نیٹ میٹرنگ کے ذریعے سستی ترین بجلی یعنی 19روپے فی یونٹ بجلی واپڈا کو فروخت کرنے سے توبہ کرلیں‘یعنی کہ کسی بھی صورت میں عوام کو ریلیف نہیں دیناہے‘واضح رہے کہ پرائیویٹ پاور اینڈانفرا اسٹرکچر بورڈ (پی پی آئی بی) کے مطابق آئی پی پیز کہلائے جانےوالے یہ نجی پاور پلانٹس ملک کی کل بجلی کی پیدوار کا 50 فیصد سے بھی زائد حصہ پیدا کرتے ہیں۔ 1990 کی دہائی میں حکومت پاکستان نے آئی پی پیزکے ساتھ بجلی پیدا کرنے کے معاہدات کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس کے بعد سےاب تک آئی پی پیز کے ساتھ بیسیوں معاہدے کیے گئے۔ ان معاہدات میں پلانٹس کی پیداواری صلاحیت کی قیمت بھی شامل تھی۔ اس ادائیگی کو پلانٹ کا کرایہ بھی کہا جا سکتا ہے۔ یعنی اگر ایک پلانٹ 100 میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور حکومت نے اس سے ایک ماہ کے دوران صرف 20 میگا وا ٹ بجلی پیدا کروائی تو اسے ماہانہ ادائیگی 100 میگا واٹ کی صلاحیت کے حساب سے ہی کی جائیگی۔ البتہ ماہانہ ادا کی جانے والی اس ادائیگی میں 20 میگاواٹ بجلی کی قیمت بھی شامل ہوگی جو حکومت نے اس سے ایک ماہ کے دوران پیداکرائی۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ صلاحیت کی مد میں آئی پی پیز کو کی جانےوالی ماہانہ ادائیگیاں بجلی مہنگی کرتی ہیں۔حکومت آئی پی پیز کو کرایہ یاان کی پیداواری صلاحیت کی قیمت ادا کرنے کے علاوہ ان سے بنوائی جانےوالی بجلی کی قیمت بھی ادا کرتی ہے۔ یہ ساری ادائیگیاں ماہانہ بنیادوں پرکی جاتی ہیں۔ اب یہ پلانٹس بجلی پیدا کرنے کے مہنگے طریقے استعمال کرتےہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق یہ پلانٹس کل 27 ہزار 7سو 71 میگا واٹ بجلی پیداکرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ آئی پی پیز اپنی پیداواری صلاحیت کی قیمت اورمہنگی بجلی پیدا کرنے کی وجہ سے پاکستان میں بجلی مہنگی ہونے کا باعث بنتی ہے۔دوسری جانب ڈالر کی اونچی اڑان بجلی مہنگی ہونے کی دوسری بڑی وجہ ہے۔ آئی پی پیز کے ساتھ کیے جانے والے‘مہنگے’معاہدے بجلی مہنگی ہونے کی پہلی وجہ ہیں۔ آئی پی پیز چونکہ غیر ملکی سرمایہ کار ہیں اس لیے انہیںادائیگیاں بھی پاکستانی روپے کے بجائے ڈالر میں کی جاتی ہیں۔آئی پی پیزگورنمنٹ کی جانب سے کہی گئی بجلی پیدا کرکے سنٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی(سی پی پی اے) کو دیتی ہیں جو اسے 10 سرکاری اور ایک پرائیویٹ ڈسٹری بیوشن کمپنی کے ذریعے ہر قسم کے صارفین تک پہنچاتی ہے۔ یہی کمپنیاں ہر ماہ بجلی کے بل جاری کرتی ہیں۔ صارفین اپنے بل روپوں میں ادا کرتے ہیں جبکہ آئی پی پیز کو ادائیگیاں ڈالر میں کی جاتی ہیں تو جب ڈالر مہنگا ہوتا ہے تو اس کا اثر براہ راست بجلی کے صارفین پر پڑتا ہے اور ان کے بجلی کے بل زیادہ آنا شروع ہو جاتے ہیں۔ یوں بجلی بنانے والے کارخانوں کی لاگت، بجلی تقسیم کرنے والی کمپنیوں کی لاگت، فنانسنگ کی لاگت اور حکومتی ٹیکسز ملا کرصارفین کا بل بنتا ہے جس کے بوجھ تلے وہ دب کر رہ گئے ہیں۔بجلی صارفین نےحکمرانوں سے استدعا کی ہے کہ عوام پر رحم کھائے اور سولر سسٹم پر بے جاظالمانہ پابندیاں و شرائط عائد کرنے کےبجائے سہولیات دی جائیں اور آئی پی پیز سے جان چھڑائی جائے۔