Physicit/فیزیسِسٹ بیان کرتے ہیں کہ / space time آکاش سمے، میں موجود مختلف کہکشائیں تقریباً 100 ارب ستاروں پر مشتمل ہیں۔ اندازاً ہر ہزار میں سے تقریباً ایک ستارہ اپنی خاص کمیّتی ترکیب میں اتنا بڑا ہے کہ وہ بلیک ہول/ روزنِ سیاہ بن جاتا ہے۔ لہٰذا، کائنات میں موجود مختلف کہکشاؤں میں اندازاً تقریباً 100 ملین بلیک ہولز پائے جاتے ہیں، ان میں سے زیادہ تر ابھی تک ہمارے لیے پوشیدہ ہی ہیں، ابھی تلک صرف ایک درجن کے قریب بلیک ہولز ہی شناخت کیے جا سکے ہیں۔ ہماری قومی سیاسی، سماجی، فوجی اور معیشی تاریخ میں عدلیہ کے حوالے سے مختلف ہائے ادوار میں متمکن ہونے والے عزت مآب چیف جسٹس صاحبان کی تاریخ ہی اصل میں ہماری قومی سیاسی، سماجی، فوجی اور معیشی تاریخ کے بلیک ہولز ہیں۔ ان بزرجمہران کی jurisprudential sense کی mass gravity اپنی بنت میں پاکستانی سماج کے ہر پہلو پر اتنی طاقتور، مضبوط اور اثر پذیر رہی ہے کہ اس نے کبھو انسانی حقوق کی پائمالی، کبھو نظریہ ضرورت کی آبیاری تو کبھو مخصوص آئینی و قانونی فہم کے انوسار مختلف طاقتور حلقوں (اکثر بندوق زدہ اور کبھو اس کے علاوہ بھی) کی کاسہ لیسی کے کارن جمہور کی آواز پر مبنی روشن و تابناک آوازوں یا سیاست و معیشت سے منسلک عملی مقناطیسیت سمیت کسی بھی تہہ در تہہ تاریخی واقعہ میں ”نیچرل سماجی وجودی ارتقائی توانائی“کو باقی نہیں رہنے دیا۔تاریخی حوالے سے قانونی آئینے میں لمحوں میں ڈالی گئی چھوٹی، بڑی دراڑ قوموں کی تاریخ میں اپنی خاص ترکیب کے انوسار اتنی پر اثر اور دوررس نتائج کی حامل ہوتی ہے کہ پھر قومیں ان کا بھگتنان صدیوں تک بھگتتی ہی رہتی ہیں۔ ایسا بھی نہیں کہ دیوارِ پاکستان کی تاریخ میں موجود عدل و انصاف کے یہ تمام علامتی تابدان ہمیشہ سازشی عناصر کے ساتھہ بجائے خود سازشی اشتراک کے تحت روزنِ سیاہ ہی ثابت ہوئے ہوں، کبھو کبھار یہ تازہ ہوا کے جھونکوں کی آمد و رفت کے لیے روشندان بھی ثابت ہوتے رہے ہیں۔ ولیک یہ تاریخی سچائی اپنی جگہ پر بدیہی حقیقت ہے کہ ان بزرجمہران کی اور سے بیشتر قانونی سقم پر مبنی فیصلے مملکتِ خداداد کے نسبتاً کسی بھی روشن تر پہلو یا وقوعہ کے ان بلیک ہولز کے event horizonکے ”دائرہِ اختیار سماعت“ میں آتے ہی اپنی escape velocity/ رفتارِ فرار کھو کر ہمہ قسم روشن مزاجی کے مختلف پہلو “فنا فی الروزنِ سیاہ” کی طرف جاتے رہے ہیں۔ یوں بھی “عمومی اضافیت” کا نظریہ پیش گوئی کرتا ہے کہ کافی مقدار میں compact mass تک کو من پسند سطح تک بگاڑ کر بلیک ہول بنا سکتا ہے۔ کچھہ ایسا ہی حال ماضی قریب اور حال کے راج سنگھاسن پر براجمان بیشتر بزرجمہران (کم از کم تین تو باقاعدہ) کے ”جوڈیشل ایکٹوازم“ کے مخصوص فہم نے ہمارا برا بھلا، جیسے بھی تھا مروجہ سیاسی نظام، کے ساتھہ کیا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ سلسلہ پاکستان کے پہلے چیف جسٹس عزت مآب جناب (اس وقت فیڈرل چیف) جسٹس سر عبدالرشید کی 27 جون، 1949 کو تعیناتی سے پہلے ہی شروع ہوچکا تھا۔پاکستان کی Federal Court/ وفاقی عدالت (اب سپریم کورٹ) فروری 1948 میں ہی بانیِ پاکستان گورنر جنرل جناح کے ایک اوفیشل آرڈر سے قائم ہوچکی تھی۔ 1956 تک پاکستان میں قانونی طور پر چیف جسٹسز اور سینئر ججوں کو فیڈرل جج / وفاقی جج کی ترکیب سے ہی پکارا جاتا تھا (بعد میں فیڈرل کورٹ کی یہ ترکیب “فیڈرل شریعت کورٹ” کےقیام کے ہنگام جنرل ضیاء کے دور میں 1980 کے دور میں دوبارہ استعمال کی گئی جو تاحال جاری و ساری ہے). فیڈرل کورٹ ابتدائی طور پر، وفاقی دارالحکومت کے کراچی میں ہونے کے باوجود لاہور، ہائی کورٹ کے ایک ونگ کے طور پر کام کرتی رہی۔ مارچ 1956 میں پاکستان کے پہلے آئین کے نفاذ کے بعد اسے سپریم کورٹ اوف پاکستان کے طور پر دوبارہ ڈیزائین کیا گیا۔آئینی طور پر چیف جسٹس اوف پاکستان ملک کے عدالتی نظام کا چیف ایڈمنسٹریٹو آفیسر اور اعلی ترین عدالتی آفیسر ہوتا ہے جو عہدے کے اختیار کے لحاظ سے فیڈرل شریعت کورٹ سے برتر ہوتے ہوئے وفاقی عدالتی پالیسییوں کی نگرانی کا ذمہ دار بھی ہوتا ہے۔مملکتِ خداداد کی تاریخ میں اس عہدہِ قضاء پر دسویں چیف جسٹس اوف پاکستان جناب جسٹس محمد حلیم صاحب سب سے طویل ترین مدت کے لیے اس منصبِ جلیلہ پر فائز رہے، جن کی کل مدتِ قضاوت 8 برس اور 283 دن (3,205 دن) بنتی ہے، ان کا بنیادی تعلق سندھہ ہائی کورٹ بار سے تھا، جن کی اپوائنٹمینٹ اس وقت کے صدر (جنرل) ضیاء الحق نے کی جبکہ سب سے کم مدت کے کے لیے اس عہدے فائز رہنے والے پاکستان کے تیسرے چیف جسٹس جناب جسٹس محمد شہاب الدین تھے، جن کی مدت فقط 9 دن ہی رہی۔ (جسٹس شہاب الدین حلف اٹھانے کے نو دن بعد ہی اس دنیا سے چل بسے تھے) جسٹس شہاب الدین کی بنیادی بار ممبر شپ متحدہ برطانوی ہندوستان کی”مدراس ہائی کورٹ بار“کی تھی۔ تشکیلِ پاکستان کے بعد جسٹس شہاب الدین ڈھاکہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے طور پر اپنی خدمات انجام دیتے رہے۔ اسی کارن انہیں عوامی تأثر کے تحت بنگالی پس منظر کا حامل جج سمجھا جاتا تھا۔ افتخار محمد چوہدری واحد پاکستانی چیف جسٹس رہے جو کل ملا کر 2480 دن کے ساتھہ تین میعادوں کے لیے چیف جسٹس اوف پاکستان رہے۔ پاکستان کے آئین کے آرٹیکلز 176 تا 190 (16 آرٹیکلز) میں سپریم کورٹ کے اختیارات، ساخت، قواعد اور ذمہ داریوں کا تعین کیا گیا یے۔ آئین کے مطابق سپریم کورٹ میں ججز کی ریٹائرمینٹ کی عمر کی حد (باقی اداروں کے برخلاف) 65 برس مقرر کی گئی ہے جسے صرف ریفرنس دائر ہونے کی صورت میں ثابت شدہ بد انتظامی یا نا اہلی کی بنیاد پر صدرِ پاکستان کے حکم سے ہی برطرف کیا جاسکتا ہے۔ آئینی طور پر جوڈیشل کمیشن سپریم کورٹ کے ججوں کی تنخواہ، دیگر الاؤنسز، چھٹیوں اور پینشن وغیرہ کا تعین کرتا ہے۔ ہمارے ہاں اسوقت تک سپریم کورٹ کے ایک جج کی ماہانہ تنخواہمبلغ -/558,907 روپے ، بمعہ اضافی الاونسز مبلغ -/259,009 روپے ہیں جس میں مفت رہائش اور طبی علاج کیساتھہ ٹیکس فری بجلی کے بلز علاحدہ سے شامل ہیں۔ پاکستان کے آئین کے چیپٹر VII کے مطابق سپریم کورٹ کو تمام عدالتوں بشمول ہائی کورٹس، ضلعی اور خصوصی عدالتوں پر حتمی، وسیع، دستوری اور مشاورتی دائرہ اختیارِ سماعت حاصل ہے جس میں دستور کی ہر حوالے سے وضاحت شامل ہے۔ آئین میں دستور نویسی بہرطور پارلیمنٹ کا حق بتایا گیا ہے۔ ”امتیاز عمر“ نے اپنی کتاب ”Continuing Judicial Activism“ (Emergency Powers and the Courts in India and Pakistan)میں بہت valid طور پر ہمارے آئین میں موجود آرٹیکل 16 اور 17 کے تحت سپریم کورٹ کو حاصل لامحدود اختیارات کے نتائج پر گفتگو کی ہے۔جس کا منطقی نتیجہ بقول سینئر صحافی اور دانشور سئیں حیدر جاوید سید، کی وضع کردہ ترکیب “سپریم کورٹ کو دستور سازی و دستور نویسی” کے منطقی نتیجہ کی طرف لے جاتا ہے جس کا ماضی کے حوالے سے ہمیں ایک عملی ثبوت عزت مآب چیف جسٹس جناب جسٹس افتخار چوہدری کے دور میں ملتا ہے، جس میں بعض بنیادی کیسز کے حوالے سے اس وقت کی سپریم کورٹ نے بعض حوالوں سے اپنے بنیادی دائرہِ اختیار سے باہر نکل کر ریاستی معاملات میں مداخلت ہی نہیں کہ بلکہ ان میں سے چند فیصلوں کے نتائج کی منفی اثر پذیری سے بہ حیثیتِ قوم ہم ابھی تلک باہر نہیں نکل پائے۔
(باقی، باقی)