سب کہانیاں چھپی ہوئی تھی پردے کے پیچھے سارے جھوم رہے تھے اپنی مستی میں عیاں تھے جسکا جو من تھا وہ کر رہا تھا بس یہ تھا کہ وہ جگہ کچھ خاص لوگوں کے لیے مختص کی گئی تھی۔۔۔ ان خاص لوگوں میں رائٹر اور ڈائریکٹر سب شامل تھے سوائے ایکٹرز کے ۔۔سٹیج سجا ہوا تھا تماشائی خوب تالیاں بجا رہے تھے ہر ایکٹر اپنی پوری مہارت کے ساتھ اپنی ایکٹنگ میں مصروف تھا۔۔لیکن فرق صرف یہ تھا کہ نا تو تماشائیوں کو پتہ تھہ کہ سامنے سٹیج سجا ہوا ہے اور ایکٹر ایکٹنگ کر رہے ہیں اور نا ہی ایکٹرز کو خبر تھی کہ جو در حقیقت ہماری زندگی میں چل رہا ہے وہ کسی کے لیے سٹیج بنا ہوا ہے ،، ہمارا درد مصنف کو لکھا گیا سکرپٹ محسوس ہوتا تھا اور ہماری بے چارگی پہ خوب واہ واہ کرتے ہوئے کہتے کہ یہ ہوتا ہے ڈائریکٹر کا اصل کمال کہ کس طرح سے اس نے کہانی کا رخ ہی موڑ دیا۔۔۔یہ وہ فلم تھی یا یہ وہ ڈرامہ تھا جو مسلسل کچھ دہائیوں سے چل رہا تھا ۔ پچھلے پچہتر برس سے شطرنج کے وہ تمام مہرے اپنی جگہ پر اپنی چال چلنے کے لیے بے تاب تھے مزے کی بات یہ تھی اس شطرنج کا کبھی کوئی نتیجہ سوچا ہی نہیں گیا تھا بلکہ نتیجے تک پہنچنے سے پہلے ہی کوئی اور کہانی کھڑی کر دی جاتی اور پھر سب اس میں الجھ کر رہ جاتے ۔۔ حقیقت سے کوسوں دور سب اپنی اپنی الجھنوں میں پھسلتے چلے جا رہے ہوتے حلے ۔۔۔بہت برا ہوتا ہے پھر جب کسی کہانی کا انٹروال شروع ہوتا ہے اور انٹروال میں پتہ چلتا ہے کہ جو ہیرو دکھائے گئے تھے اصل میں وہی ولن کا کردار ادا کر رہے تھے اور جنہیں ہم حقارت بھری نظروں سے ولن سمجھ رہے تھے وہ در حقیقت مسیحا تھے وہی تو ہیرے تھے ،،، اور تب تو تجسس اور بھی بڑھ جاتا ہے جب پتا چلتا ہے کہ نا ہیرو اپنی مرضی سے ہیرو تھا اور نا ہی ولن اپنی مرضی سے ولن بلکہ انکے سکرپٹ تو کوئی اور ہی لکھ رہا تھا۔۔۔اس سب میں تماشائی بڑے خوش ہوتے ۔۔ کچھ تماشائی ہیرو کے لیے تالیاں بجاتے تو کچھ ولن کے لیے ۔۔اور اس بات پر وہ سب راضی تھے کہ ہم دونوں کو اپنے حصے کی داد وصول ہو رہی ہے لحاظہ اس کہانی کو چلنے ہی دیا جائےاور جو بھی کوئی پردہ ہٹانے کی کوشش کرے کہانی کا سارا رخ اسی کی طرف کر دیا جائے اسی کو ولن بنا دیا جائے اور اسی کو مسخرہ،، تاکہ تماشائیوں سے مزید تالیاں وصول کی جا سکیں ۔