پنجاب بورڈ کوارڈینیشن کمیٹی (پی بی سی سی) نے پنجاب کے تعلیمی بورڈز کے تحت میٹرک و انٹرمیڈیٹ کے امتحانات میں نمبر بہتر بنانے کی غرض سے کسی بھی پارٹ کے پیپر دینے کی اجازت ومنظوری دے کر طلباء و طالبات وتعلیم کے شعبے سے منسلک متعلقین اور والدین کے دل جیت لئے ہیں۔ تعلیمی حلقوں نے مذکورہ فیصلے کو قابل ستائش اور حوصلہ افزا قرار دیا ہے۔ مذکورہ فیصلے/ منظوری سے امیدواران کے روشن مستقبل پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے، واضح رہے کہ اس سے پہلے مارکس امپروومنٹ کے خواہش مند امیدواروں کو میٹرک/انٹرمیڈیٹ پاس کرنے کے بعد مکمل مضمون یا مکمل پارٹ یا دونوں پارٹس کا امتحان دینا پڑتا تھا جبکہ مذکورہ فیصلے کے تحت امیدواران رائج الوقت تمام استحقاق کے علاوہ کسی بھی مضمون کے سنگل پیپر کا امتحان دے سکیں گے علاوہ ازیں کسی بھی امیدوار کا عملی امتحان رہ جانے یا غیر حاضر ہونے کی صورت میں دوبارہ صرف عملی امتحان میں شریک ہو گا جبکہ اس سے پہلے عملی امتحان میں غیر حاضری کی صورت میں ضمنی امتحان میں مکمل مضمون بمعہ تھیوری کے پیپرز کا امتحان دوبارہ دینا پڑتا تھا۔ پی بی سی سی کے مذکورہ فیصلہ جات سے امیدواران اور تعلیمی ادارہ جات کا دیرینہ مطالبہ پورا ہو گیاہے۔ اس سے پہلے مذکورہ سہولت صرف وفاقی تعلیمی بورڈ میں موجود تھی۔ ممتاز ماہر تعلیم شیخ امجد حسین نے تجویز دیتے ہوئے کہا کہ پنجاب کے تمام ایجوکیشن بورڈز میں امتحانات کے انعقاد اور مارکنگ کی ڈیوٹیز کو مینڈیٹری ڈیوٹی قرار دیا جائے اور جن اساتذہ کرام کی بورڈز کی طرف سے ڈیوٹی لگائی جائے، ان کو لازمی سروسز کے تحت بہترین معاوضہ جات کی ادائیگی کے ساتھ بورڈ ڈیوٹی دینے کا پابند کیا جائے تاکہ کوئی بھی (بغیر کسی عذر/ کسی ٹھوس وجہ/ نامسائد حالات کے) امتحانات کی ڈیوٹیز سے انکار نہ کر سکے۔ ضلعی صدر ڈسٹرکٹ ہیڈ ماسٹرز ایسوسی ایشن رانا فرزند علی نے تجویز دی کہ کوالٹی آف مارکنگ کو بہتر سے بہتر بنانے کے لئے اور جوابی کاپی کے انڈر مارک ہونے کی صورت میں جزا سزا کے قانون پر سختی سے عمل کروانے کی ضرورت ہے اور ذمہ واران کے خلاف نااہلی/ (ڈسکوالیفیکیشن) کے ساتھ ساتھ ان کے ڈیپارٹمنٹس کے ذریعے پیڈا ایکٹ کے تحت فوری کاروائی کو ممکن بنایا جائے۔ انہوں نے ایک قابل عمل اور جامع تجویز دیتے ہوئے کہا ہے کہ پنجاب کے تمام تعلیمی بورڈز ضروری چانچ پڑتال کے بعد اعلی تعلیم یافتہ فارغ التحصیل طلباء و طالبات پر مشتمل ایک پول بنائیں جنکو بورڈز کے امتحانات اور مارکنگ کی ذمہ واریاں تفویض کی جائیں / سونپی جائیں۔ مذکورہ اقدام سے سکول/ کالجز/ ادارہ جات میں سٹاف کی کمی یا بورڈ ڈیوٹی پر مامور اساتذہ کرام ادارہ جات میں موجود نہ ہونے کی وجہ سے روزمرہ کی تعلیمی سرگرمیاں میں بھی خلل نہیں پڑے گا کیوں کہ ادارہ جات میں سٹاف ہمہ وقت حاضر رہے گا اور فارغ التحصیل تعلیم یافتہ نوجوانوں کی خدمات ہائیر کرنے سے کافی حد تک تعلیم یافتہ نوجوانوں کا بے روزگاری کا مسئلہ بھی حل ہو گا علاوہ ازیں امتحانات کے انعقاد لئے چاق وچوبند/ مستند عملہ بھی ہر وقت دستیاب ہو گا اور بروقت مارکنگ کی تکمیل کے ساتھ کوالٹی آف مارکنگ میں بھی مزید بہتری آئے گی۔ اور بورڈز پر امیدواران/ والدین کا اعتماد بڑھے گا۔ ماہرین کی طرف سےپنجاب یونیورسٹیز اینڈ بورڈز آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن میل پریکٹس آرڈیننس 1950 میں بھی ترامیم کی تجویز دی گئی ہے تاکہ بوٹی مافیا کے خلاف سائبر کرائم اور جدید تقاضوں کے مطابق موثر کاروائی/ قلع قمع کیا جائے اور میل پریکٹس آرڈیننس/ ایکٹ کا دائرہ سماعت/اختیار بورڈ ملازمین و امتحانات کے انعقاد/ مارکنگ پر مامور عملہ تک بھی بڑھایا جائے تاکہ کسی بھی بے ضابگی/ بے قاعدگی کی صورت میں وہ بھی جواب دہ/قابل تعزیر ہوں۔ اس وقت پنجاب کے تمام ڈویژنل ہیڈکوارٹرزمیں اپنے بورڈز ہیں اور ان بورڈز کی اپنی اپنی حدود متعلقہ سول ڈویژن کی حدود ہی ہے، مگر تمام بورڈز کی حدود میں قائم دانش سکولز کے امتحانات کے انعقاد کے انتظامات و رزلٹ کا اعلان لاہور بورڈ کے سپرد ہے، جس کی وجہ سے چیک اینڈ بیلنس اور امتحانات کے انعقاد سے متعلقہ انتظامی امور میں مشکلات ہوتی ہیں۔ لہذا پنجاب میں قائم دانش سکولز کے امتحانات کے امور و نگرانی متعلقہ بورڈز کے سپرد کئے جائیں۔ پنجاب بورڈز بشمول ڈیرہ بورڈ کو یونیورسٹیز کی طرح وفاقی/ صوبائی حکومت کی طرف سے گرانٹ نہیں دی جاتی اور نہ ہی صوبائی ہائیر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ یا وفاقی سطح پر ہائیر ایجوکیشن کمیشن سے کوئی مالی معاونت کی جاتی ہے ۔بلکہ پنجاب کے تمام بورڈز خود مختار ادارے ہیں۔ اپنی آمدنی کے ذرائع خود پیدا کرتے ہیں۔ جبکہ اس وقت گورنمنٹ کے ادارہ جات کے میٹرک کے ریگولر امیدواران کی امتحانی داخلہ فیس معاف ہیں۔ جس کے عوض تلافی کرتے ہوئے حکومت کو چاہیے کہ وہ بورڈز کو خصوصی گرانٹ دے۔ تاکہ بورڈز مالی لحاظ سے مضبوط ہوں۔ نیز خدمات سرانجام دینے والے اساتذہ کرام کو بہتر معاوضہ جات کی ادائیگی کے ساتھ اپنے روزمرہ کے معاملات احسن طریقے سے چلا سکیں۔ تعلیمی بورڈز کے اخراجات میں نمایاں، واضح کمی لانے کی بھی ضرورت ھے۔ کیونکہ ھر تعلیمی بورڈ کی آمدنی امیدوارن اور ادارہ جات کی فیسوں پر مشتمل ہے۔ جبکہ کسی بھی تعلیمی بورڈ میں کوئی کمپلینٹ سیل نہیں ہے ۔ نہ کوئی ایپ ھے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ بورڈ کے حوالے سے امیدواروں ، والدین ، سکول انتظامیہ کی شکایات کو دور اور ان کے مسائل ترجیحی بنیاد پر حل کئے جائیں۔

پنجاب بورڈ کوارڈینیشن کمیٹی کااحسن اقدام
-