نو مئی کو جب ریاست اپنی عملداری میں یوم سیاہ کے عنوان سے منا رہی تھی ایسے وقت میں ایک بار پھر پنجاب کے سات جوانوں کو گوادر میں قتل کر دیا گیا یہ واقعہ ایسے وقت میں ہوا جب وزیر داخلہ محسن نقوی وزیر اعلیٰ بلوچستان اور گورنر بلوچستان سے صوبے میں امن و امان کے حوالے سے ملاقاتیں کر کے واپس جا رہے تھے یہ کوئ پہلا واقعہ نہی کہ پنجاب کے بیٹوں کا خون ان کی شناخت کی بنیاد پر بہایا گیا واضح رہے کہ 13 اپریل کو بلوچستان کے ضلع نوشکی میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے پنجاب سے تعلق رکھنے والے 9 افراد سمیت کُل 11 افراد جاں بحق اور 5 زخمی ہوگئے تھےضلع نوشکی کے ڈپٹی کمشنر حبیب اللہ موسی خیل نے کہا تھا کہ 12 اپریل کی رات 10 سے 12 مسلح افراد نے نوشکی تفتان شاہراہ این-40 پر سلطان چڑھائی کے قریب ناکہ بندی کی، مسلح افراد مختلف گاڑیوں کی چیکنگ کرتے رہے۔ڈپٹی کمشنر نے بتایا تھا کہ مسلح افراد نے تفتان جانیوالی بس روک کر مسافروں کے شناختی کارڈ چیک کیے، شناخت پریڈ کے بعد 9 مسافروں کو اغوا کیا گیا۔گزشتہ روز بلوچستان کے ضلع گوادر میں نامعلوم مسلح افراد نے سربندر میں فش ہاربر جیٹی کے قریب رہائشی کوارٹر پر حملہ کردیا، جس کے نتیجے میں سوئے ہوئے 7 افراد جاں بحق اور ایک شخص زخمی ہو گیا۔گوادر فش ہاربر جیٹی کے قریب رہائشی مکان پر حملہ رات 3 بجے کیا گیا، یہ واقعہ گوادر شہر سے 25 کلو میٹر دور پیش آیا ہے۔جاں بحق و زخمی افرادکا تعلق پنجاب کے ضلع خانیوال سے بتایا جاتا ہے، جو سربندر میں حجام کی دکان میں کام کرتے تھے۔وزیراعظم شہباز شریف وزیر داخلہ محسن نقوی وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز اور وزیر اعلیٰ بلوچستان کی جانب سے حسب روایت تعزیتی بیان جاری کر دیے گئے ہیں اور دہشتگردوں کے خلاف موثر کاروائ دہشتگردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے کے عزم کا اظہار کیا گیا ہے یہ واقعات اتنے تواتر سے ہو رہے ہیں کہ اب مقتدر طبقے کے پریس سیکریٹریز کو کچھ خیال رکھنا چاہیے اور ہر بار ایک ہی بیان کی کاپی اٹھا کر چلا دینے کے بجائے کم۔از کم بیان ہی نیا کر لینا چاہیے موجودہ حکومت اور موجودہ وزیر داخلہ کے چارج سنبھالنے کے بعد دہشت ھردی کے واقعات مسلسل بڑھ رہے ہیں ریاستی اداروں پر عوام کے جان و مال کے تحفظ کی بنیادی آئینی زمہ داری عائد ہوتی ہے اور ریاستی ادارے اس زمہ داری کو پورا کرنے میں ناکام ہو رہے ہیں پنجاب کے جوانوں کو وزیرستان میں ایران میں بلوچستان میں مسلسل نشانہ بنایا جا رہا ہے طالبان یا بلوچ تننظیموں پر زمہ داری عائد کرنے سے وزیر داخلہ اور سیکیورٹی کے زمہ دار اداروں کی زمہ داری ختم نہی ہو جاتی اس واقعے پر بھی ایسا ہی بیان سامنے آ جائے گا لیکن یہ رہاست اور اس کے اداروں کی ناکامی ہے وزیر داخلہ اور مجاز اداروں کو دیگر امور مملکت و سیاست میں تندہی دکھانے کے بجائے بلوچستان میں ریاست کی رٹ قائم کرنے کے لیے قومی اور صوبائ اسمبلی کو اعتماد میں لے کر کاروائ کرنی چاہیے اور ائین کی حد میں رہ کر بلوچستان میں امن و امان قائم کیا جائے۔