کیا بہاول نگر ایک لاوارث ضلع ہے

پاکستان کا ضلع بہاول نگر جسے 1904ء میں ضلعی ہیڈ کوارٹر کا درجہ دیا گیا۔اس شہر کو ریاست بہاولپور کے حکمران نواب بہاول خان عباسی کے نام پر بسایا گیا۔ پاکستان کا یہ واحد ضلع ہے جس میں دور حاضر کی کوئی بھی سہولت موجود نہیں ہے ۔ نہ دور دراز کے شہروں میں جانے کیلئے کوئی اچھی سڑک یا موٹر وے۔ نہ موٹر وے سے ملانے کیلئے کوئی انٹر چینج۔نہ کسی قسم کی میٹرو بس۔نہ ہی انڈر پاس یا فلائی اوور جیسی عیاشی اور نہ ہی نیلی پیلی یا کسی بھی کلر کی ٹرین۔1947ء سے ایک کھٹارا سی دھوئیں کے مرغولے چھوڑنے والی ٹرین کی سہولت موجود تھی جو کسی زمانے میں کراچی تک چلا کرتی تھی۔ کالے سیاہ انجن کے ساتھ چھک چھک کرتی یہ ٹرین جیسی بھی تھی غنیمت سمجھی جاتی تھی۔بہاول نگر سے ایک بوگی کراچی کیلئے ایک ٹرین کے ساتھ لگائی جاتی تھی جو بھلے دو دن کے بعد ہی کراچی میں قدم رنجہ فرماتی تھی مگر پھر بھی لوگ خوش تھے کہ چلو۔! سہولت تو موجود ہے نا چاہے جیسی بھی ہے۔اس بوگی میں کراچی کیلئے سیٹ کا ملنا ایک معجزہ سمجھا جاتا تھا۔ اسکے دم سے بہاول نگر ریلوے اسٹیشن کو جنکشن کا اسٹیٹس حاصل تھا۔ اسی دقیانوسی قسم کی ٹرین کے دم سے کچھ نہ کچھ رونق اور چہل پہل تھی۔یار لوگوں کو اس ضلعے کی یہ ادنی! سی سہولت بھی ایک آنکھ نہ بھائی۔آج سے پندرہ سولہ برس پہلے ایک مخصوص ٹولے نے اسے بھی اپنے مخصوص مفادات کے حصول کی خاطر بند کروا دیا۔ وہ دن اور آج کا دن یہاں کے لوگوں نے کسی ٹرین جیسی بلا کا منہ تک نہیں دیکھا۔ وہ خوبصورت ریلوے اسٹیشن جو یہاں کی عوام کیلئے ایک تفریح گاہ کی بھی حیثیت رکھتا تھا اب وہ بھوت بنگلے کی شکل اختیار کر چکا ہے۔لوگ اب وہاں جاتے ہوئے ڈرتے ہیں کیونکہ وہاں جانے سے جانے والے کو خوف آتا ہے ۔ نہ اس ضلع میں عوام کے بیرون ملک جانے کیلئے کوئی ائیر پورٹ کی سہولت موجود ہے کہ جس سے سفر آسان ہو۔ نہ یہاں پہ کوئی بڑی صنعت ہے کہ جس سے یہاں کے باسیوں کو روزگار ملے۔نہ یہاں کوئی بڑا ہسپتال ہے کہ جہاں پہ اس ضلعے کی عوام کو اچھے علاج کی سہولت ملے۔جو ہسپتال موجود ہے وہاں انتہائی رش اور اس رش سے گزر کر کوئی مریض ڈاکٹر تک پہنچتا ہے تو دوائی نہیں ملتی۔ میاں نواز شریف کے تیسرے دور اقتدار میں یہاں پہ میڈیکل کالج کی تعمیر کا منصوبہ بنایا گیا تھا۔نواز شریف کو اقتدار سے باہر کیا گیا تو اسکے منصوبے بھی انہی کے ساتھ رخصت کر دیئے گئے۔اب انکی بیٹی وزیراعلی! پنجاب ہیں اور دعوی! بھی کرتی رہتی ہیں کہ:”ہم وہاں سے کام شروع کریں گے جہاں سے چھوڑا گیا تھا“ اگر وہ واقعی اپنے دعووں میں سچی ہیں تو میڈیکل کالج کے منصوبے کی تکمیل اور ریلوے کی بحالی کا منصوبہ دوبارا شروع کرکے اسکا ثبوت دے سکتی ہیں۔ بہاول نگر پاکستان کا ایسا حرماں نصیب ضلع ہے کہ جہاں تعلیم و تعلم کا کوئی بھی اعلی! ادارہ موجود نہیں۔اتنی بڑی آبادی والے ضلع میں کم ازکم ایک یونیورسٹی تو ضرور بننی چاہیئے تھی لیکن یہاں بھی اس ضلع کے باسی محروم رہے ۔ ضلع بہاول نگر چاول اور گندم کی پیداوار کے لحاظ سے پورے پاکستان میں ایک نمایاں مقام رکھتا ہے لیکن اس خصوصیت کے حامل ہونے کے باوجود اس ضلع میں کوئی بھی ریسرچ انسٹیٹوٹ یا زرعی تحقیق کا ادارہ موجود نہیں حالانکہ اس ضلع میں ایک زرعی یونیورسٹی کے قیام کی اشد ضرورت تھی۔اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ:”ضلع بہاول نگر کی ان محرومیوں کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے“؟آپکا جواب اس ضمن میں جو بھی ہو میرا جواب یہ ہے کہ یہاں کی عوام ہی اس ضلع کی محرومیوں کی ذمہ دار ہے۔یہاں کے عوام کی اکثریت بدقسمتی سے اجتماعی شعور کی بجائے انفرادی شعور کی زیادہ دلدادہ ہے اسلئے وہ جس قسم کے نمائندوں کا انتخاب الیکشن کے دوران کرتی ہے ان سے اس سے زیادہ اور توقع بھی نہیں کی جا سکتی۔ ہر علاقے کے باسیوں کو یہ توقع ہوتی ہے کہ اسمبلی میں جب بجٹ پیش ہوگا تو ترقیاتی بجٹ میں اس کے علاقے کو بھی ترقی کے نام پر کچھ نہ کچھ فنڈ ملیگا کیونکہ انکے نمائندے اسمبلیوں میں بیٹھ کر اپنے علاقے کے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں۔ بہاول نگر کو جنوبی پنجاب کا حصہ بنانے کے نام پر بجٹ کا خطیر حصہ دوسرے علاقوں کو دے دیا جاتا ہے اور بہاول نگر کو محض آٹے میں نمک کے برابر فنڈز دے کر خاموش کرا دیا جاتا ہے کیونکہ ہمارے اس ضلع کے نمائندوں کی یہ خوبی ہے کہ وہ تھوڑا آسانی سے خاموش ہو جاتے ہیں۔اس علاقہ کے نمائندے محض ووٹ کی خاطر عوام کا نام لیتے ہیں اور علاقے کی بہتری اور ترقی کیلئے کوئی مثبت کوشش نہیں کرتے۔ان نمائندوں کو میڈیا پر  بارہا اہل اقتدار کے ساتھ ملتے اور بات چیت کرتے دیکھا جاتا ہے لیکن ان ملاقاتوں کا نتیجہ کیا ہوتا ہے ؟ کسی کو کچھ معلوم نہیں اور نہ ہی وہ نظر آتا ہے۔یہیں سے محرومی جنم لیتی ہے جو اب اس ضلع بہاول نگر کا مقدر بنی ہوئی ہے۔مجھ سے میرے ایک قاری نے پوچھا کہ:”کیا مستقبل قریب میں بہاول نگر کے حوالے سے صورت حال میں کچھ بہتری کی توقع کی جا سکتی ہے۔“میرا انکے لئے جواب یہی تھا کہ یہ آپ اپنے آپ سے پوچھیں کہ آپ مستقبل میں بہاول نگر کی صورت حال میں تبدیلی لانے کے خواہشمند ہیں۔اگر آپ لانے کے خواہشمند ہیں تو آپ صرف ایک بات پہ توجہ دینا ہوگی اور وہ ہے اجتماعی شعور۔اگر اسے بروئے کار لاکر فیصلہ کریں گے تو یہ نقشہ تبدیل بھی ہو سکتا ہے ورنہ حالات ایسے ہی رہیں گے جیسے ایک شاعر نے کہا تھا کہ۔
وہی حالات ہیں،،، فقیروں کے
دن پِھرے ہیں فقط وزیروں کے
اپنا حلقہ ہے،،،،، حلقہٗء زنجیر
اور حلقے ہیں سب امیروں کے
ہر بلاول ہے دیس کا مقروض
پاؤں ننگے ہیں،، بینظروں کے