گندم کی خریداری کے معاملے پر چچا اور بھتیجی کسانوں کی دادرسی کے بجائے عوام کو ٹرک کی لال بتی کے پیچھے لگانے میں مصروف ہیں وزیراعظم اور ان کی کابینہ گندم کی درامد کا سارا مدعا نگران حکومت پر ڈال رہی ہے اور نگران وزیراعظم فرماتے ہیں کہ یہ فیصلہ ان سے پہلی حکومت کا تھا جو کہ موجودہ حکمرانوں کی ہی تھی قابل زکر امر یہ ہے کہ شہباز شریف کی موجودہ حکومت میں بھی یعنی مارچ میں بھی گندم درامد ہوتی رہی اب گندم کی درآمد کی زمہ داری کوئ اٹھانے کو تیار نہی اس زمہ داری کے تعین سے مقدم امر گندم کی خریداری ہے جو پنجاب حکومت نہی کر رہی اور کسان اونے پونے داموں اپنی محنت کی فصل بیچنے پر مجبور ہے مارچ میں گندم کی درآمد کے وقت وزیر اعظم وزارت تحفظ خوراک کے انچارج وزیر خود تھے، انہوں نے 3 اپریل کو وفاقی وزیر رانا تنویر کو قومی تحفظ خوراک کا اضافی قلمدان دیا، اس سے قبل تقریباً ایک ماہ تک وزیر اعظم شہباز شریف وزیر تحفظ خوراک کے انچارج وزیر تھے۔وزیر اعظم نے گندم درآمد کے معاملے پر سیکریٹری خوراک محمد آصف کو او ایس ڈی کردیا تھا۔سرکاری اعداد و شمار کے مطابق رواں مالی سال فروری تک 225 ارب 78 کروڑ 30 لاکھ روپےکی گندم درآمد ہوئی، مارچ 2024 میں57 ارب 19 کروڑ 20 لاکھ روپے مالیت کی گندم درآمد کی گئی۔یوں رواں مالی سال مارچ تک 282 ارب 97 کروڑ 50 لاکھ روپے مالیت کی کُل 34 لاکھ 49 ہزار 436 میٹرک ٹن گندم درآمد کی گئی، جبکہ موجودہ حکومت کے پہلے ماہ 6 لاکھ 91 ہزار 136 میٹرک ٹن گندم درآمد کی گئی۔واضح رہے کہ ملک میں گندم کے وافر ذخائر موجود ہونے کے باوجود نگران حکومت کے دور میں بڑے پیمانے پر گندم کی درآمد کے معاملے میں روز نئے انکشافات سامنے آرہے ہیں۔یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ موجودہ حکومت کی اب تک کی مدت میں بھی گندم کی درآمد کا سلسلہ جاری رہا۔گندم کی درامد کے معملہ پر حکمران جماعت کے ایم این ائے حنیف عباسی اور انوارالحق کاکڑ کے مابین تلخ کلامی بھی ہوئ ایک پروگرام میں جب نگران وزیراعظم کو حنیف عباسی سے گندم کی درامد کا زمہ دار ٹھہرایا تو انوارالحق کاکڑ کا کہنا تھا کہ انہوں نے منہ کھولا تو ن لیگ والے کہیں منہ دکھانے کے لائق نہی رہیں گے۔ نگران وزیراعظم جزبات میں یہ بات کر گئے کیونکہ ان کا منہ کھلنے والا نہی اور اگر کھلا تو وہ خود بھی کہیں منہ دکھانے کے لائق نہی رہیں گے اور ن لیگ یہ بات جانتی ہے کیونکہ اس حمام میں سب ننگے ہیںپنجاب حکومت نمی کو جواز بنا کر گندم نہ خریدنے کی ضد پر قائم ہے اور احتجاج کرنے والے کسانوں کو بھی قابو کر لیا گیا ہے پنجاب حکومت اب احتجاج دبانے کے معاملے میں ایکسپرٹ ہو چکی ہے کسان اتحاد جی جانب سے لاہور میں احتجاج کی دو کالیں ناکام ہو چکی ہیں اور اب دس مئی سے ملتان سے احتجاج شروع کرنے کی تیسری کال دے دی گئی ہے تاکہ بھرم برقرار رہے امر واقع یہ ہے کہ چچا اور بھتیجی نے مل کر چھ کروڑ سے زائد کسانوں کو تہی دست کر دیا ہے اور اس کا ملکی معیشت پر کوئ اچھا اثر نہی پڑنے والا گندم کی درامد کی زمہ داری کے تعین کی کہانی میں کسانوں کو الجھانے کے بجائے گندم کی خریداری شروع کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے وطن عزیز میں پہلے کبھی زمہ داری کا تعین ہوا ہے جو اب ہوگا یہ تعین ہمیشہ حکومتوں کی تبدیلی کے بعد ہوتا ہے۔