پنجاب حکومت کا دھوکہ، گندم کا بحران اور بے بس کسان

فیض احمد فیض نے عمر بھر کسانوں مزدوروں کی سیاست اور مظلوموں کے لیے شاعری لکھی، فیض صاحب نے زیادہ تر شاعری اردو زبان میں لکھی، دو چار نظمیں اپنی مادری زبان پنجابی میں لکھی ہوں گی، ان کی ایک نظم ہے” ربا سچیا “, جو کہ کسان سماج اور کسانوں کی دکھ بھری داستان بیان کرتی ہے، آج کسان اور اس کی پیدا کردہ گندم کا حال دیکھتے ہیں تو بے ساختہ فیض صاحب کی یہی نظم ذہن میں گھوم جاتی ہے، انسانی تاریخ میں زرعی انقلاب کا برپا ہونا بہت بڑا واقعہ تھا، اس سے پہلے کا انسان غار میں رہا، جانوروں کا شکار کرتا تھا، اس کے بعد جانوروں کو پالنے لگا، میں اور میرے جیسے لاکھوں بچے جن کا جنم کسان کے گھر ہوا ہے، ان کو اچھی طرح سے معلوم ہے کہ کھیت میں مزدوری کتنا مشکل کام ہے ، ہمت اور حوصلے سے کسان نہ خود بیٹھا رہتا ہے اور نہ ہی اپنے بیل، ٹریکٹر کو رکنے دیتا ہے، دن رات محنت کر کے اپنا کھیت تیار کرتا ہے، تپتی دھوپ اور کڑک سردی میں پانی لگاتا ہے، بیج بوتا ہے، فصل پر سپرے کرتا ہے ، کھاد ڈالتا ہے، چھ سات مہینوں بعد اس کی فصل تیار ہوجاتی ہے تو فصل کاٹتا ہے، منڈی میں فصل بیچ کر آڑھتی یا بیوپاری کے قرض ادا کرتا ہے، باقی جو کچھ بچتا ہے اس سے اپنا اور بچوں کا پیٹ پالتا ہے اور اگلی فصل کی تیاری شروع کر دیتا ہے ، مطلب کسان کے جیون میں فل سٹاپ اس کی موت کی صورت میں ہی ہوتا ہے۔پاکستان کے کسان کا قصہ بھی ایسا ہی ہے، دن رات محنت کرتا ہے اور فصلیں اگاتا ہے ، لیکن یہاں ایک فرق موجود ہے، یہاں کسان انتھک محنت کرتا ہے، اس کو بیج کھاد اور سپرے مہنگے داموں ملتے ہیں ، بجلی کا بل اس کی جیب پر بہت بھاری پڑتا ہے، فصل پک جاتی ہے تو اس کو لوٹنے والے مافیاز میدان میں اتر آتے ہیں، اس بار گندم کی فصل کے ساتھ کیا ہوا، اس کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ آخر کروڑوں کسان کیوں رو رہے ہیں۔عام طور پر ہمارے ہاں گندم کاشت کرنے کا وقت اکتوبر سے دسمبر تک ہوتا ہے، وفاقی حکومت صوبائی حکومتوں سے مل کر گندم پالیسی کا اعلان کرتی ہے، گندم کی کاشت اور پیداوار کا ٹارگٹ، گندم کا ریٹ، محکمہ خوراک اور محکمہ پاسکو کا گندم خرید ٹارگٹ، نہری پانی کی فصل کے لیے ترسیل، کھادوں اور سپرے تک کا ٹارگٹ دے دیا جاتا ہے۔ موجودہ گندم کا سرکاری ریٹ امدادی قیمت 3900 روپے طے کیا گیا تھا، گندم کی بمپر کراپ ہونے اور ملکی ضروریات پوری ہو جانے کا اعلان بھی کیا گیا تھا۔ لیکن ہوا کیا، وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے مل کر گندم امپورٹ کرنے کا فیصلہ کر لیا، اس حوالے سے کسانوں اور ان کی تنظیموں تک خبر تک نہیں پہنچنے دی گئی، اس فیصلے کے تحت یوکرائین سے چالیس لاکھ ٹن گندم امپورٹ کی گئی، گندم لانے والے دو جہاز ابھی بھی کراچی پورٹ پر لنگر انداز ہیں، امپورٹ شدہ گندم کی سرکاری قیمت 4500 فی من مقرر کر دی گئی، جبکہ سرکاری گوداموں میں موجود پچھلے سال کی گندم کی قیمت 4700 فی من مقرر کی گئی۔ فلور ملز نے دونوں طرح کی گندم اٹھائی اور مارکیٹ میں آٹا پہنچانا شروع کردیا۔ اب ہوا کیا، امپورٹ شدہ گندم جیسے ہی کراچی اور گوادر پورٹس پر پہنچنا شروع ہوئی، اسی وقت پاکستانی کسانوں کی مکئی کی فصل مارکیٹ میں آگئی، اور گندم کی زیادہ مقدار میں موجودگی کی وجہ سے مکئی کا ریٹ ایک ہزار سے تیرہ سو روپے فی من تک گر گیا، خیر کسان رو دھو کے چپ ہوگئے۔مکئی میں نقصان اٹھانے کے بعد کسان کی ساری امیدیں گندم سے جڑی تھیں، موسم میں تبدیلی کے حساب سے گندم کی فصل ٹھٹہ سجاول تھر پارکر سندھ میں فروری کے آخری دس دنوں میں اترنا شروع ہو جاتی ہے۔ اور آخر میں ھمالیہ کے پہاڑوں میں بسنے والے کسان مئی میں کٹائی شروع کر دیتے ہیں، ایک طرف پاکستانی مارکیٹ امپورٹ شدہ گندم سے بھر دی گئی اور دوسری جانب مقامی کسان کی گندم بھی مارکیٹ میں آگئی، دوسری جانب گورنمنٹ نے گندم خریدنے سے صاف انکار کر دیا۔ اس کا اثر یہ ہوا کہ گندم کی مارکیٹ کریش کر گئی۔ آج اگر آپ مارکیٹ سے گندم کا ریٹ معلوم کریں تو کوئی 2500 روپے فی من بھی خریدنے کو تیار نہی۔برطانوی راج کے زمانے سے آج تک گندم کی فصل کے لیے گورنمنٹ ایک لفظ استعمال کرتی آئی ہے، گندم کی سپورٹ پرائس یا گندم کی امدادی قیمت۔ بنگال کے خوفناک قحط کے بعد فیصلہ کیا تھا کہ مقامی کسانوں کو گندم اگانے کے لیے ان کا ساتھ دیا جائے، آج تک وہی پریکٹس جاری تھی، موجودہ گندم کی فصل کے لیے سرکاری ادارے خاص طور پر زرعی ادارے دن رات کسانوں کے ساتھ میٹنگ کرتے رہے کہ زیادہ سے زیادہ گندم آگائی جائے۔ زیادہ گندم-زیادہ خوشحالی اور یہ نعرہ لگایا کہ گندم درآمد نہی برآمد کرنی ہے۔ اب گندم کی فصل تیار ہے تو گورنمنٹ مالکی کرنے سے صاف انکاری ہو گئی ہے، تاریخ میں ایسا دھوکا پہلی بار دیکھ رہے ہیں۔کسانوں نے احتجاج کرنے شروع کیے تو محکمہ پاسکو نے گندم خرید شروع کی، مگر محکمہ پاسکو کے افسران نے کسانوں کی بجائے مڈل مینوں اور بیوپاریوں سے رشوت لے کر گندم خریدنا شروع کی جس کا کسان کو کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ محکمہ خوراک نے تو سرے سے انکار ہی کر دیا ہے۔ ان کا موقف ہے کہ ہمارے پاس پچھلے سال کے گندم سٹاکس پڑے ہیں، مزید خرید کرنا ممکن نہیں۔گندم خرید کو لے کر کسان کی تکلیف کئی طرح کی ہے۔ ایک تو اس کے پاس نئی فصل اگانے کے لئے پیسے نہیں ہیں۔ دوسرا کسان بچوں کی شادیاں گندم کی فصل اترنے پر کرتے ہیں، اب پیسے ہی نہیں تو شادیاں کیسے کی جائیں۔ بچوں کی سکول فیس تک گندم کی خریداری سے جڑی ہے، کھاد سپرے ادھار پر خریدے تھے وہ بھی ادا کرنے ہیں، مطلب کسان اپنا آپ بھی بیچ ڈالے تو قرض ادا نہیں ہونے والے۔ حکمران اشرافیہ نے گندم اسکینڈل کر کے کسانوں کو دیوالیہ کر دیا ہے، گندم اسکینڈل خبر تو بنی ہے، اس پر انکوائری کمیٹی بھی بن گئی ہے، رپورٹ آئے گئی تو بھی کسی کا بال بھی بیکا نہیں ہونے والا۔ وجہ یہ ہے کہ حکمران اشرافیہ آپس میں رشتہ دار ہیں اور کسانوں کا تو خداوند کریم کے سوا کوئی سہارا نہیں۔ کسان سڑکوں پر رل رہے ہیں اور گندم منڈیوں اور کھیتوں کھلیانوں میں پڑی سڑ رہی ہے، حکمران اشرافیہ ٹک ٹاک پر ویڈیوز شئیر کر رہی ہے، راوی سب چین ہی چین لکھ رہا ہے۔۔۔۔گندم انہوں نے لگوائی بھی دھوکہ سے ہے کہ زیادہ گندم-زیادہ خوشحالی ہمارا عزم گندم درآمد نہیں برآمد کرنی ہے اب گندم خرید کرتے اور باہر بیچ دیتے۔ اور زرمبادلہ حاصل کرتے۔ اور سپورٹ پرائس کا مطلب ہی امدادی قیمت مقرر کرنا ہے۔ جو بھی ہو ہر حال میں اس قیمت پر حکومت گندم خرید کرنے کی پابند ہے۔ اگر حکومت ہو تو۔