ریاست بہاول پور کے آخری نواب سر صادق محمد خان عباسی (خامس )

نواب سر صادق محمد خان عباسی (خامس) کی علمی و ملی خدمات کو احاطہ تحریر میں لانا بہت مشکل ہے۔ آپ کی پیدائش 29 ستمبر 1904 ء کو ڈیرہ نواب صاحب میں ہوئی۔ آپ کی عمر ابھی دو سال ہی تھی کہ آپ کے والد نواب محمد بہاول خان عباسی (خامس) آپ کو ہمراہ لے کر فریضہ حج کے لیے تشریف لے گئے۔ واپسی پر سفر کے دوران میں نواب محمد بہاول خان کا انتقال ہو گیا۔ آپ اپنے والد کی اکلوتی اولاد تھے لہذا ریاست واپس آ جانے کے بعد آپ کی تین سال کی عمر میں 15 مئی 1907 ء کو دستار بندی کی گئی۔ آپ نے اپنے لیے نواب صادق محمد خان (خامس) کا نام منتخب کیا۔ چونکہ آپ ابھی کم سن تھے، اس لیے ریاست کی انتظامی نگرانی کے لیے حکومت برطانیہ نے سر رحیم بخش (آئی سی ایس) کی سربراہی میں کونسل آف ریجنسی قائم کی۔ ریاست بہاول پور 1907 ء سے 1924 ء تک کونسل کے زیرنگیں رہی۔
نواب صادق محمد خان نے ابتدائی فارسی، عربی اور مذہبی تعلیم اپنے اتالیق علامہ مولوی غلام حسین قریشی سے حاصل کی۔ آپ کو 1913 ء میں اعلیٰ تعلیم اور امور ریاست کی تربیت کے لیے لندن بھیجا گیا جہاں 1915 ء تک تعلیم حاصل کی۔ 1915 ء سے 1921ء تک آپ نے ایچی سن کالج لاہور میں تعلیم حاصل کی۔ 1921 ء میں آپ کو ہزرائل ہائی نس آف ویلز کا ایڈی کانگ مقرر کیا گیا۔ بیس سال کی عمر میں آپ کی تاج پوشی کی گئی۔ اس حوالے سے باقاعدہ تقریب 24 مارچ 1924 ء کو نور محل بہاول پور میں منعقد کی گئی۔ اس تقریب میں واسرائے ہند لارڈ ریڈنگ نے آپ کی رسم تاج پوشی ادا کرتے ہوئے مکمل اختیارات حکمرانی آپ کو تقویض کیے۔ اس موقع پر صادق ریڈنگ لائبریری کی عمارت کا سنگ بنیادبھی رکھا گیا جو اب سنٹرل لائبریری کے نام سے پنجاب کی دوسری بڑی لائبریری ہے۔
نواب سر صادق محمد خان عباسی عباسیہ خاندان کے بارہویں اور آخری فرماں روا تھے۔ آپ کی شخصیت انتہائی شفیق اور جلال و جمال کا مرقع تھی۔ آپ ایک خدا ترس، جہاندیدہ، خوف خدا کے حامل اچھے حکمران کی خصوصیات و صفات سے مزین تھے۔ نواب سر صادق محمد خان عباسی اہل علم کی قربت کے نہ صرف دلدادہ تھے بلکہ علم و ادب کی باقاعدہ سرپرستی فرمایا کرتے تھے۔ انصاف کے معاملے میں کبھی لچک نہ دکھاتے۔ شاعر مشرق حضرت علامہ محمد اقبال اور حفیظ جالندھری جیسی شخصیات آپ کی نہ صرف مدح تھیں بلکہ نواب صاحب بھی انہیں نہایت توقیر و احترام سے نوازتے۔ریاست بہاول پور کے 12 حکمرانوں کے دور حکمرانی کا جائزہ لیا جائے تو نواب سر صادق محمد خان عباسی کا دور حکومت ریاست کا نہایت سنہری دور تھا۔ یہ دور دیگر ریاستوں اور ملکوں کے جدید علوم سے استفادے کا دور تھا۔ اسی دور میں نئی منڈیاں اور ہارون آباد، فورٹ عباس، حاصل پور، چشتیاں، یزمان، لیاقت پور اور صادق آباد جیسے نئے شہر بسائے گئے۔
نواب سر صادق محمد خان عباسی نے چولستان اور دیگر علاقوں کو سیراب کرنے کے لیے ستلج ویلی پراجیکٹ مکمل کرایا جس پر اس دور میں 14 کروڑ روپے کی خطیر رقم خرچ ہوئی۔ اس پراجیکٹ کی تکمیل سے 15 لاکھ ایکڑ اراضی سیراب کرنے کا اہتمام کیا گیا۔ اسی پراجیکٹ کے تحت 1932ء میں ایک کروڑ 92لاکھ 79ہزار 93روپے کی لاگت سے پنجند ہیڈ ورکس کا منصوبہ مکمل ہوا۔ 1925 ء میں ہیڈ پلہ ریگولیٹری کا بھی افتتاح کیا گیا۔ اسی سال ہی احمد پور شرقیہ میں صادق عباس مڈل سکول کی اپ گریڈیشن کرتے ہوئے اسے سکینڈری کا درجہ دیا گیا، جب کہ جدید تقاضو ں سے ہم آہنگ دینی تعلیمی کے لیے مدرسہ صدر دینیات کو ترقی دی گئی اور اسے جامعہ الازہر کی طرز پر جامعہ عباسیہ کا نام دیا گیا جو آج اسلامیہ یونی ورسٹی کے نام سے ملک کی ایک جامعہ ہے۔1926 ء میں جامعہ عباسیہ کا ایک ذیلی ادارہ طبیہ کالج قائم کیا گیا۔ جولائی 1935 ء میں جامع مسجد دہلی کی طرز پر جامع مسجد الصادق کی ازسرِ نو تعمیر کا سنگِ بنیاد رکھا جو اس وقت پاکستان کی چوتھی بڑی مسجد ہے۔ 1942 ء میں بہاول پور میں’’شیر باغ‘‘ کے نام سے ایک بڑا چڑیا گھر اپنے عوام کی سیر و تفریح کے لیے بنوایا گیا اور ڈرنگ اسٹیڈیم بھی بنوایا گیا جس میں پاکستان اور بھارت کا پہلا کرکٹ میچ کھیلا گیا تھا۔ 18جنوری1954 ء میں آپ نے ایچی سن کالج کی طرز پر صادق پبلک سکول قائم کیا جس کی تعمیر کے لیے آپ نے اپنی ذاتی اراضی سے 450 ایکڑ زمین عطا کی۔ ان سب کے علاوہ بہاول پور شہر میں بہاول وکٹوریہ ہسپتال، ایس ای کالج، صادق ڈین ہائی سکول، ایس ڈی ہائی سکول، صادق گرلز ڈگری کالج کے علاوہ درجنوں ادارے اور جدید و قدیم فن تعمیرات کی حامل خوبصورت عمارات نور محل، دربار محل آپ کی ترقی پسندانہ ذہنیت کا بین ثبوت ہیں۔ 1951 ء میں بہاول پور کی قانون ساز اسمبلی نے قانون شریعت نافذ کیا۔ ہندوستان کی یہ واحد ریاست تھی جس نے7فروری 1935ء کو سب سے پہلے مرزائیوںکو اقلیت قرار دیا۔ پاکستان کے ساتھ ضم ہونے تک ریاست میں نظام اسلام کا نفاذ رہا۔
نواب سر صادق محمد خان عباسی درحقیقت اسلامی اقدار کے علمبردار تھے۔ پاکستان بھی دنیا کے نقشے پر لا الہٰ کے نعرے کی تحریک سے وجود میں آیا تو نواب سر صادق محمد خان عباسی نے سمجھا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ اپنی ریاست کا پاکستان کے ساتھ الحاق کر دیا جائے۔ اس دوران پنڈت جواہر لعل نہرو اور سردارولبھ بھائی پٹیل نے ریاست بہاول پور کو بھارت میں شامل کروانے کی سر توڑ کوششیں کیں یہاں تک کہ بیکانیر اور اردگرد کے علاقوں کو ریاست میں شامل کرنے کی پیشکش بھی کر ڈالی۔ اس کے جواب میں نواب صادق محمد خان نے کہا کہ بھارت میرے گھر کے پیچھے ہے جب کہ پاکستان سامنے اور شریف آدمی ہمیشہ سامنے کا راستہ اختیار کرتا ہے۔3اکتوبر1947ء کو آپ نے اپنی ریاست کو پاکستان میں ضم کر دیا۔
تقسیم برصغیر کے وقت جب دونوں اطراف سے ہجرتوں اور فسادات کا سفر جاری تھا ،اس وقت پوری ریاست بہاول پور میں ہندو مسلم نفرت کا کہیں بھی نام و نشان نہ تھا۔ بلکہ ریاست سے ہجر ت کر کے جانے والوں کو ہر طرح کی سہولیات دی گئیں اور ریاست بہاول پور سمیت دیگر خطوں میں آنے والے مہاجرین کی بحالی کے لیے عملی اقدامات کیے گئے۔ صرف ریاست بہاول پور میں چار لاکھ مہاجرین کی آباد کاری کر کے ریاست بہاول پور نے مروت و مودت کی بہترین مثال قائم کی۔بہاول پور میں مہاجرین کی آبادکاری کے لیے نئی وزارت بحالی مہاجرین بنائی گئی جس کے ذریعے مہاجرین کو ریاست بہاول پور میں باعزت طریقہ سے آباد کیا گیا اور مخدوم الملک غلام میراں شاہ کو وزیر مہاجرین بنایا گیا۔ قیام پاکستان کے بعد خزانہ خالی ہونے پر نواب سر صادق محمد خان عباسی نے ابتدائی طور پر سرکاری ملازمین کی تنخواہوں کے لیے 7 کروڑروپے اور بعد ازاں 2 کروڑ روپے، پھر 22 ہزار ٹن گندم اور مہاجرین کے لیے 5 لاکھ روپے کا عطیہ دیا۔
تحریک پاکستان کے دوران کراچی ،جو اس وقت پاکستان کا دارالحکومت تھا ،میں موجود اپنی جائیداد الشمس محل اور القمر محل قائد اعظم محمد علی جناح اور ان کی پیاری بہن محترمہ فاطمہ جناح کو نواب سر صادق محمد خان عباسی نے بطوررہائش دے دیے۔نواب صاحب نے اسی پر بس نہیں کیا بلکہ انہوں نے گورنر جنرل پاکستان کی سواری کے لیے اپنی مہنگی ترین کار رولزرائس بھی قائد اعظم کو بطور تحفہ پیش کردی تھی ۔ نواب صادق محمد خان عباسی کی بے لوث خدمات کے صلے میں قائد اعظم نے انہیں محسن پاکستان کے خطاب سے نوازا تھا۔ انہوں نے نواب آف بہاول پور کی سخاوت و مروت کو دیکھتے ہوئے ایک موقع پر برملا کہا کہ ’’ہمیں تو قلم کی سیاہی تک کے لیے ریاست بہاول پور کا ممنون احسان ہونا پڑا‘‘۔
نواب سر صادق محمد خان کی وفات 24 مئی 1966 ء کو لندن میں ہوئی۔ آپ کے جسد خاکی کو لندن سے کراچی لایا گیا اور پھربراستہ لاہور، بہاول پور اسٹیشن پہنچایا گیا۔ ریلوے اسٹیشن سے ان کی میت کو چار گھوڑوں کی بگھی میں صادق گڑھ پیلس لایا گیا۔ ریلوے اسٹیشن سے صادق گڑھ پیلس تک تین میل کا فاصلہ ہے لیکن عوام کی کثیرتعداد کی وجہ سے منٹوں کا یہ فاصلہ گھنٹوں میں طے ہوا۔ آپ کی نماز جنازہ پلٹن میدان میں قاضی عظیم الدین کی امامت میں ادا کی گئی۔قائد اعظم محمد علی جناح کے بعد یہ پاکستان کی تاریخ کا تیسرا بڑا جنازہ تھا جس میں آٹھ لاکھ سے زائد افراد نے شرکت کی۔ نماز جنازہ کے بعد میت کو پاکستان آرمی کی توپ گاڑی میں پورے فوجی اور سرکاری اعزاز کے ساتھ قلعہ دراوڑ لے جایا گیا جہاں ان کی شاہی قبرستان میں تدفین کی گئی۔ اس موقع پر پاک آرمی کی طرف سے 21 توپوں کی سلامی بھی دی گئی۔ محسن پاکستان نواب سر صادق محمد خان عباسی کی 58 ویں برسی پران کی بے پایاں خدمات کے اعتراف میں ضرورت اس امر کی ہے کہ نئی نسل کی آگاہی کے لیے محسن پاکستان نواب سر صادق محمد خان عباسی (پنجم) کی ملی و علمی خدمات کو پرائمری سے لے کر یونیورسٹی تک نصاب میں شامل کیا جائے جب کہ اسلامیہ یونی ورسٹی بہاول پور میں نواب سر صادق محمد خان عباسی پر خصوصی چیئر قائم کی جائے۔