سولر دشمنی….گراس میٹرنگ کا اژدھا

حکومت کی بےڈھنگی چال کے ہاتھوں عوام کا ہمیشہ کچومر نکلتا ہے۔ یہاں سہولت کو بھی عقوبت بنا کر حکومت اپنی تسکین کا سامان کرتی ہے اور عوام کو چونالگاتی ہے۔ اب سولر انرجی کو ہی لیجئے، لوڈ شیڈنگ اورہر آن بڑھتے ہوئے بجلی کے ٹیرف کے عذاب سے بچنے کے لیے عوام نےگھروں ، دکانوں، کارخانوں ہوٹلوں اور کھیتوں میں سولر پینل لگانا شروع کیے کہ انہیں اس طرح ریلیف ملے گا اور اس کے لیے خود حکومت نے بھی اپنی پالیسی نرم کرتے ہوئے سولر پینل پر عائد ایکسائز ڈیوٹی پہلے کم کی اور پھر ختم کر دی تاکہ انرجی پر اٹھنے والے اخراجات کو کم کیا جا سکے۔س کا نتیجہ یہ نکلا کہ چھ ماہ کے قلیل عرصے میں سولر پینل کا کاروبار کرنے والے مافیا نے دو تین سالوں میں عوام سے جو لوٹ مار کی تھی وہ ایک دم زمین بوس ہو کر رہ گئی اور انہیں جان کے لالے پڑ گئے۔ مہنگے داموں خریدے گئے پینلز جب چین میں تعطیلات تھیں اور ان کی درآمد محدود عرصے کے لیے بند ہو گئی تھی تو یہ مافیا جہاں راتوں رات عروج پر پہنچ گیا تھا جونہی یہ بندش ختم ہوئی ہزاروں کی تعداد میں سولر پینل کے کنٹینرز کراچی کی بندرگاہ پر جوق در جوق لنگر انداز ہوئے اور دیکھتے ہی دیکھتے دو ہفتوں کے دوران سولر پینل کی قیمتیں آسمان سے زمین پر گریں تو سولر مافیاز کا دم گھٹنے لگا۔ اب تک کے اعداد و شمار کے مطابق ان کی قیمتیں 60 فیصد تک نیچے آگئی ہیں اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ عوام نے دھڑا دھڑ اپنے گھروں میں سولر پینل لگانا شروع کیے حتی کہ غریب نے بھی ہمت باندھی ادھار لے کر بینک سے قرضے لے کر حسب استطاعت دو کلو واٹ سے لے کر 10 کلو واٹ تک کے سسٹم لگوا لیے۔ اس دوران سولر مافیاز نے اپنے منافع کو کم ہوتا دیکھ کر اس سسٹم کی مین چیز انورٹرکو سٹاک کر کے اس کا بحران پیدا کیا اور اس کی قیمتیں دو گناہ کر کے عوام کولوٹا تا ہم پھر بھی لوگوں میں سولڈ سسٹم لگوانے ہیں کہ رجحان نے خوب ترقی کی اور دیکھتے ہی دیکھتے ہر چوتھے گھر میں یہ سسٹم کھمبیوں کی طرح اگ آیا ،ہر طرف سولر بہار نظر آنے لگی کسی نے دو پینل لگوائے تو کسی نے اپنی حیثیت کے مطابق اور ان کے ثمرات حاصل کرنے کی امید میں اپنی جمع پونجی لگا دی ۔پانچ کلو واٹ سے زائد کے صارفین نے یہ سوچ کر کہ ہماری ضرورت سے زیادہ سولر انرجی بجلی پیدا ہوگی تو کیوں نہ اسے انویسٹ کیا جائے اور واپڈا کو بیچ کر فائدہ اٹھایا جائے، انہوں نے مہنگی داموں گرین میٹرز لائن میں لگ کر بلیک میں لگوا لیے یہاں بھی سولر مافیا اپنے کرتب آزما تا ہے اور گرین میٹرز کے لیے خریدار سے دوہری قیمت وصول کرتا ہے۔ خود میٹر لگوانے میں اگر 50 60 ہزار روپے خرچ آتا ہے تو رشوت وغیرہ کے نام پر یہ ایک لاکھ بیس ہزار روپے تک وصول کرتا ہے ،صرف یہی نہیں خریدار سستے سولر پینل خرید کر خوش ہو جاتا ہے۔ اسے انسٹال کرانے کی مد میں اس سے کہیں دگنی قیمت وصول کر کے اسے خوب چونا لگاتا ہے۔ خدا جھوٹ نہ بلوائے نصف و نصف نفع ان کے جیبوں کی زینت بنتا ہے ۔چونکہ خریدار کا یہ پہلا خریداری کا تجربہ ہوتا ہے وہ اس کمزوری کا پورا پورا فائدہ اٹھاتا ہے۔ گریڈ سسٹم کا تصور یہ ہے کہ سولر سسٹم لگوانے والے فرد نے بھاری خرچہ کر کے “نیٹ میٹرنگ کرا لی یعنی اس نے گرین میٹرلگوا لیا اور یوں امن کے اس نشان کو اپنے حاصل کر کے اپنے لیے آسانی کا سامان کیا مگر اسے یہ معلوم نہیں تھا کہ یہی امن کی گرین علامت جلد ہی اس کے لیے ریڈ میٹرنگ میں تبدیل ہو کر اس کے لیے خطرے کا باعث بننے والی ہے کیونکہ یہ حکومت کے منشور کےخلاف ہے کہ عوام کو کسی طرح کا ریلیف پہنچے اور سکھ کا سانس لے سکے ۔چنانچہ حکومت اس کے لیے میدان عمل میں ا ٓچکی ہے اور نیٹ میٹرنگ والوں کے لیے فائدے کی بجائے نقصان کا سبب بنتے جا رہےہیں۔ گرین میٹر یا گریڈ سسٹم کے تحت صرف سولر سورج کی روشنی سے بجلی پیدا کرتا ہے تو وہ اپنے استعمال میں لاتا ہے اور اپنی بجلی کی ضرورت پورا کرتا ہے کہ یہ اس کا بنیادی حق ہے اور وہ اسی کے لیے لاکھوں روپے انویسٹ کرتا ہے اور ضرورت سے زائد بجلی واپڈا کو بیچ دیتا ہے اس طرح اسے بجلی کے ماہانہ بل میں ریلیف ملتا ہے۔ یہاں بھی حکومت گرین میٹر ہولڈرز کو چونا لگاتی ہے کہ خریدتی ہے تو یونٹ کوڑیوں کے بھاؤ اور دیتی ہے تو سونے کے مول پھر آف ٹائم کے ڈبل چارجز ماسوا ہیں۔ تاہم صارف کو یہ سہولت حاصل ہو جاتی ہے کہ وہ ہائی بریڈ سسٹم کے ساتھ چار بیٹریاں 48 وولٹ لگا کر لوڈ شیڈنگ میں بھی بجلی کی سہولت سے مستفید ہوتا رہتا ہے اور اس کی بنیادی ضرورت ہوتی ہے اس کے لیے ڈیڑھ دو لاکھ روپے کی الگ سے انویسٹمنٹ کرنا پڑتی ہے ۔بیٹریاں دو سال تک کار آمد رہتی ہیں جن کی استطاعت نہیں ہوتی وہ بیٹریاں نہیں لگاتے اور لوڈ شیڈنگ کے عذاب سے انہیں دن کے وقت صبح نو بجے تک اور شام چار بجے سے اگلی صبح نو بجے تک اپنے سسٹم کے فائدے سے محروم رہنا پڑتا ہے۔ حکومت نے جب یہ دیکھا ہے کہ عوام زیادہ سے زیادہ سولرسسٹم پر مشتمل ہو رہے ہیں تو اس کی ازلی ابدی خبا ثت جاگ اٹھی اور عوام سے یہ سہولت چھیننے کے لیے میدان عمل میں ا ٓچکی ہے اور بہانہ یہ ہے کہ سولر سسٹم کے فروغ سے حکومت کے لیے انرجی بل کی ادائیگی میں زبردست مشکلات پیدا ہو گئی ہیں ،بجلی کی مانگ کم پڑ گئی ہے۔ جبکہ اسے آئی پی پی کو ادائیگیاں کیپیسٹی چارجز میں کرنے ہیں میں دقت پیش آ رہی ہے۔ انہیں کیپسٹی کی حد میں جو ادائیگیاں کرنا ہوتی ہیں وہ حکومت کے سورسز سے باہر ہو چکی ہیں۔ حکومت کے ریونیو میں سولر سسٹم لگنے سے زبردست کمی آچکی ہے نتیجتا بجلی کی نرخوں میں ناروا اضافہ حکومت کی مجبوری بن چکا ہے اور ائی ایم ایف ڈنڈا لے کر سر پر کھڑا ہوا ہے کہ بجلی، گیس کے نرخوں میں مسلسل اضافہ کر دیا جائے چاہے عوام مر جائے ۔چنانچہ اب اس نے مختلف حربوں سے سولڈ سسٹم کے حامل افراد کے گرد گھیرا تنگ کرنے کی ٹھان لی ہے اور آمدہ بجٹ میں سولر سسٹم پہ ٹیکس عائد کرنے جا رہی ہے۔ اس کے علاوہ نیٹ میٹرنگ کو ختم کر کے اس کی جگہ گراس میٹرنگ سسٹم رائج کیا جا رہا ہے یعنی پہلے سولر سسٹم کے صارفین اپنی ضرورت پوری کر کے فالتو بجلی واپڈا کو فروخت کرتے تھے اب اس سسٹم کے تحت ہائبرڈ سسٹم کے حامل افراد کی سولڈ سسٹم سے پیدا ہونے والی ساری کی ساری بجلی ڈائریکٹ واپڈا کے گریڈ سسٹم میں چلی جائے گی اور اب صارف اس کے اپنے بنیادی حق سے محروم ہوگا ۔وہ حکومت سے اس کی مہنگے داموں بجلی خریدنے پر اس طرح مجبور ہوگا جس طرح سولر سسٹم کے بغیر عام صارف بجلی خریدے گا ۔سوال یہ ہے کہ صارف کا اپنا گھر ہے جو اس نے درجن بھر ٹیکسز ادا کر کے خریدا ہوا ہے اور اب بھی باقاعدہ پراپرٹی ٹیکس ادا کرنے کے جرم کی سزا بھگت رہا ہے۔ وہ اپنے ہی احاطے کی قدرت کی طرف سے دی گئی دھوپ سے بھاری اخراجات برداشت کر کے بجلی پیدا کر رہا ہے۔ اس میں حکومت کی کوئی مہارت محنت یا معاونت کا عمل دخل نہیں ہے وہ خالصتاً اپنی کمائی سے بجلی بنا رہا ہے اور محض اس کے لیے وہ اس سے استفادہ کر کے بھاری بجلی کے بل سے چھٹکارا حاصل کر کے وہ اس کا کلی طور پر مالک و مختار ہے تو حکومت اس طرح اس پر بزور طاقت ملکیت حاصل کر سکتی ہے۔ اس کے بنیادی حقوق کی بھی خلاف ورزی ہے، آج اس کی روشنی پر قبضہ کیا جا رہا ہے تو کل ہوا پر بھی قدغن لگا کر اس پر ٹیکسز عائد کر دیے جائیں گے اور اسے سانس لینے کی بھی بھاری قیمت چکانا پڑے گی ،حالانکہ پانی، روشنی اور ہوا تو قدرت کا اس کے لیے مفت عطیہ ہیں وہ کیوں کر خدا بن کر عوام کی زندگی اجیرن کر رہی ہے ۔ سولر پینلز پر سالانہ ٹیکسز لاگو کرنے کا پروگرام ہو یا حکومت کا گرڈ سسٹم کے موجودہ نظام میں مجوزہ تبدیلی اور اس کی جگہ گراس میٹرنگ سسٹم نافذ کرنے کا پروگرام یہ محض عوام کی ہڈیوں میں تھوڑا بہت موجود گودا نکالنے کا پروگرام تو ہو سکتا ہے عوام کی خیر خواہی ہرگز ہرگز نہیں، یہ جان بوجھ کر عوام کو پریشان کرنے اور ستانے کا پروگرام ہے۔ اللہ کی دی ہوئی مفت سورج کی روشنی پر حکومتی تسلط چہ معنی؟ عوام کش پالیسی سے حکومت کو باز آجانا چاہیے۔ اگر سولر سسٹم پر ٹیکس لگایا ہی ہے تو گھریلو صارفین کی جان بخشی کر کے تجارتی بنیاد پر سولر بجلی بنانے والے اداروں پر لگائیں ،نیٹ میٹرنگ سسٹم کو جاری رکھا جائے اور گراس میٹرنگ سسٹم کے نفاذ کا ارادہ ترک کر دیا جائے ۔یہ سولر صارفین کے حقوق پر ڈاکہ ہے اور یہ حقوق العباد کے زمرے میں آتا ہے جس کا روز قیامت اللہ کو حساب دینا ہوگا بلکہ اس سسٹم کو فروغ دے کر اپنی انرجی کے بل کو کم کرنا چاہیے۔ آئی پی پیس سے جان چھڑائیں اور اس سسٹم کو بجلی کی خرید و فروخت کے تصور سے ہٹ کر گرڈ سسٹم کے حامل افراد کی اپنی ضرورت سے زائد یونٹس اس کے کھاتے میں جمع کیے جائیں اور واپس صارف کی ضرورت کے مطابق اسے جوں کے توں اسی قیمت پر دیئے جائیں کہ یہ انہی کی پیداوار ہیں اور وہی ان کے استعمال کا حقدار ہے۔