مولانا جلال الدین رومی اور حضرت سلطان باہو انسانیت کیلئے امن آشتی اور محبت کی معتبر نوید

انسانی معاشرے کی ہئیتی اور نظریاتی تشکیل کی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ مختلف عوامل انسانی زنَدگی پر اثر انداز ہوتے رہے جن سے معاشرے کی ہئیتی اور نظریاتی ترکیب و ترتیب بدلتی رہیں ان عوامل میں سے جو نشابر ہو کر سامنے آتے ہیں ان میں اہم ترین عمل اغرا ض وبقا کی قوتوں کا تصادم اور ارتقا ہٰے جس سے فرد کا فرد سے اور معاشرتی معروض سے تعلق بنتا اور بدلتا رہا صدیوں کے اس سفر میں انسان کا اقتصادی معاشرتی اور جذباتی استحصال اپنی پوری شدت کے ساتھ ہوتا رہا جبر و استبداد کی ان استحصالی قوتوں کے خلاف انفرادی اور اجتماعی مزاحمتی جدوجہد بھی اپنے فکری ارتقا کے ساتھ مصروف عمل رہی یہ فکری ارتقا افقی اور عمودی سمتوں میں آگے بڑھتا رہا فکری ارتقا کی عمودی نمو کیلئے خیر کی قوتیں انسانی تاریخ کے اولین باب سے مصروف عمل رہیں یہ خیر کی قوتیں مختلف مذاہب معا شرتی فلسفوں اور نظریوں کی صورت میں ظاہر ہوتی رہیں جن سے فرد کے فرد سے اور معاشرتی معروض سے ربط اور بذات خود معاشرے کی کئی جہتوں کی تشریح اور ترویج ممکن ہوئی آج اکیسویں صدی میں سائینس اور ٹکنالوجی کی ترقی انسان کے نامیاتی وجود کو غیر نامیاتی وجود میں بدلنے کی بات کر رہی ہئے مختلف سیاسی اور سماجی نظام بھی فرد کے مادی وجود کو اہمیت دیتے رہے صدیوں کے اس سفر میں ایک فکر اس بات پرزور دیتی رہی کہ فرد مادی وجود کے ساتھ ساتھ اپنی ایک روحانی شناخت رکھتا ہئے جس کی بالیدگی کے بغیر حصول مسرت ممکن نہیں روحانی مسرت اس لا فانی محبت کا نام ہے جو رنگ نسل اور جغرا فیائی سرحدوں سے ماورا ہوتی ہئے یہاں تک کہ یہ محبت کسی نظریاتی یا مذہبی فکر کے تابع نہیں ہوتی کول مین باکس اپنی کتاب اسینشل آف رومی کے تعارف میں لکھتے ہیں کہ مولانا رومی نے تمام مذاہب کی حدود کو تحلیل کر کے عالمی محبت کی سلطنت میں ضم کر دیا ہَے اور ابھرتی مٹتی لہروں کی کژت کو سمندر کی یکتائی کا روپ دیا ہئے علم والہام کی دھر تی بر صغیر پاک و ہند کے عظیم صوفی شاعر حضرت سلطان باہو نے اس پیغام کے ساتھ ساتھ اس بات پر بھی زور دیا ہئے کہ الہامی مذاہب کی تکریم کے ساتھ ساتھ مقامی کلچر یا مقامیت کی تکریم و ترویج بھی بہت ضروری ہئے کیونکہ وجود کا خمیر دھرتی سے جڑا ہوتا ہئے اور کائناتی شعور کا منبع فطرت اور دھرتی کی نرم مٹی سے نمو پاتا ہئے
مولانا رومی کائناتی شعور یا روحانی بالیدگی کے سفر میں عشق کو اپنا امام مانتے ہیں
شاد باش ای عشق سودائے ما
ای طبیب جملہ علتہا
ای دوائےنخوت ناموس ما
ای تو افلا طون و جالینوس ما
حضور سلطان باہو فرماتے ہیں
اک نگاہ جے عاشق ڈیکھے لکھ ہزاراں تارے ہو
لکھ نگاہ جے عالم ڈیکھے کسے ناں کندھی چا ہڑے ہو
عشق وہ پر جوش جذبہ ہئے جس کا اظہار و ادراک شاعری اور موسیقی کی زبان میں ہی ممکن ہئے اس لیئے صوفیا نے ابلاغ کیلئے خا ص ترکیبات و تشبیہات تخلیق کی ہیں جن سے پرت در پرت کائنات کے سر بستہ راز کھلتے چلے جاتے ہیں اس الہامی فکر میں عالم مو جو دات وجود مطلق کا مظہر ہو تا ہئے جہاں سے لا فانی محبت کے چشمے پھوٹتے ہیں اور عالم موجودات مطلق یکتائی کے روپ میں جلوہ گر ہوتا ہئے
مولانا رومی اور حضرت سلطان باہو کی شاعری میں یہ فکر نشابر ہو کے سامنے آتی ہئے حضرت سلطان باہو فرماتے ہیں
ازل ابد توں صحی کیتوسے دیکھ تماشے گزرے ہو
چوداں طبق دلیندے اندر آتش لائے حجرے ہو
جنہاں حق ناں حاصل کیتا اوہ ڈوہیں جہانیں اجڑے ہو
عاشق غرق ہوئے وچ وحدت باہو ڈیکھ تنہاندے مجرے ہو
حضرت باہو فارسی کلام میں فرماتے ہیں
از ازل تا ابد بینی با یک نظر
تا شوی عارف خدا ثانی خضر
تاریخ بتاتی ہئے کہ تیرہویں صدی عیسوی انا طولیہ کیلئے کرب و آلام کا عہد تھا مغرب سے صلیبی جنگوں کی بر بریت خطے کو اپنی لپیٹ میں لے چکی تھی بیظنٹائن سلطنت کا شیرازہ بکھر رہا تھا دوسری طرف چنگیز خان کی سربراہی میں منگول وحشی دنیا کے امن کو تباہ کر رہئے تھے ۱۲۴۴ کے اس منظر نامے میں شمس تبریز کی ایک نظر مولانا کے ظاہری اور دنیاوی جاہ و جلال کو دمان کی واچھڑ کی طرح بہا کر لے گئی اور مو لا نا کے اندر سے لا زوال محبت کے چشمے پھوٹ پڑے اور وہ محبت رنگ نسل عقائد و جغرافیائی سر حدوں کی قید سے ماورا ہو کر روح کے تال پر رقص کناں ہوے دوسری طرف سترویں صدی کے عظیم صوفی شاٰ عر حضرت سلطان باہو کا عہد سیاسی و انتظامی طور پر قدرےمستحکم تھا گواس وقت کا ہندوستان مغلوں کے زیر تسلط تھا ہمارے زیر بحث صو فیا نے عشق کو ایک لا زوال اور متحرک قوت کے طور پر برتا مولانا کی بانسری اور حضرت سلطان باہو کی ہو کی سر میں ایک ہی پیغام سامنے آیا کہ اس کر ہ ارض پر انسانی مسرت کا راز صرف اورصرف محبت میں پوشیدہ ہئے اور ان کے نزدیک عشق کی قوت سے ہی زمان و مکان اور رنگ و نسل کی سرحدوں کے پار فرد جلوہ حقیقت سے روشناس ہوتا ہئے جہاں عاشق و محبوب اور طالب و مطلوب کی تفریق ختم ہو جاتی ہئے گو کہ عالم موجودات اور وجود مطلق ربط کی وضاحت صدیوں سے زیر بحث رہی ہے کچھ مغربی مفکرین مثال کے طور پر آگسٹائن اور اکویانس کے نزدیک خدا کے وجود کا تصور وقت کی حدود کے تصور سے ماورا ہئے اور یہ تصور وقت کے لافانی اور ابدی ہونے کے تصور کے بھی بر عکس ہئے اسلامی تصوف میں بھی یہ مسئلہ بہت زیر بحث رہا جس کے نتیجے میں دو نکتہ ہائے نظر سامنے آئے جنہیں ہم وحدت الوجود اور وحدت الشہود کے نام سے جانتے ہیں اور دونو فکری نظریوں نے اپنے اپنے طور پر عالم موجودات اور ذات مطلق کے ربط کی خوبصورت انداز میں وضاحت کی ہئے اور کچھ صوفی شعرا کو کسی ایک فکری تحریک سے وابستہ کرنا کسی حد تک آسان بھی لگتا ہئے مگر مولانا رومی اور حضرت سلطان باہو کی شاعری کو کسی ایک تحریک کے زیر اثر دیکھنا خاصا مشکل ہئے کسی حد تک دونو نکتہ ہائے نظر کی تطبیق نظر آتی ہئے بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ یہ دونو صوفی شاعر عشق کی بے عمیق وسعتوں میں عالم موجودات اور وجود مطلق کے ربط کو دیکھتے ہیں ان کے نزدیک عشق اور مرشد امکان سے لا امکان کے سفر کی تفہیم ہیں
حضور باہو فرماتے ہیں
جس منزل عشق پچاوے ایمان نوں خبر ناں کوئی ہو
مولانا رومی اور حضور باہو کی فکر میں کمال کی مما ثلت ہئے دونو کے نزدیک مرشد کامل کی ایک نظر ہی عرفان ذات عطا کرتی ہئے جس سے فرد خود پہ منکشف ہوتا ہئے اور عالم موجودات کے ہر مظہر سے وہ وابستگی پیدا ہوتی ہئے جس سے دشت امکانات رنگ و خوشبو سے بھر جاتا ہئے
الف اللہ چمبے دی ٻوٹی میں من وچ مرشد لائی ہو
نفی اثبات دا پانی ملس ہر ر ہر ڄائی
اندر ٻو ٹی مشک مچایا جان پھلا ں تیں آ ٗئی ہو
جیوے مرشد کامل باہو جئیں اے بوٹی لائی ہو
مولانا فرماتے ہیں
دید آں مرشد کہ او ادراک داشت
تخم پاک اندر زمین پاک کاشت
ترجمہ: مرشد نے دیکھا کہ استعداد رکھتا ہئے تو پاک دل کی زمین میں پاک بیج بو دیا ہمارے دونو صوفی شاعروں کی فکر کے مطابق درد و فراق کی شدت منزل وصل کو قریب لاتی ہئے راہ عشق میں ریزہ ریزہ وجود نشان منزل بنتا ہئے مولانا رومی کہتے ہیں
سینہ خواہم شرحہ شرحہ از فراق
تا بگویم شرح درد اشتیاق
میں ایسا سینہ چاہتا ہوں جو جدائی سے پارہ پارہ ہو تا کہ میں درد عشق کی تفضیل سنا سکوں حضور سلطان باہو کہتے ہیں
تن من میرا پرزے پرزے جیوں درزی دیاں لیراں ہو
اینہاں لیراں دی کفنی پا کے رلساں سنگ فقیراں ہو
یہ عشق کا وہ مقام ہئے جو دشت کر بلا میں حسین ابن علی کی وہ آبرو مندانہ استقامت بنتا ہئے جس کے آگے جبر و استبداد کی قوتیں رہتی دنیا تک سر نگوں رہیں گی یہ وہ مقام ہئے جہاں حسین بن منصور حلاج وجود ذات سے ماورا وجود مطلق کے روپ میں جلوہ گر ہو تا ہئے
سچا عشق حسین علی دا سر ڈیوے راز ناں بھنے ہو
سامراجی نظام تعلیم میں صوفی کو تارک دنیا اور دنیاوی علوم کے مخالف کے روپ میں ظاہر کرنے کی کو شش کی گئی ہئے صوفی در اصل ہر اس علم کے خلاف ہئے جو کسی دوسرے فرد یا قوم پر برتری کیلئے حاصل کیا جائے مولانا رومی فرماتے ہیں
علم را بر تن زنی ماری بود
علم را بر دل زنی یاری بود
علم کا ربط اگر بدن سے ہو تو سانپ ہے اگر علم کا رشتہ دل سے ہو تو یار ہئے
حضور سلطان باہو اپنی لوک وزڈم کا اظہار کچھ یوں کرتے ہیں
علمو ں علم انہاں نوں ہویا جیڑھے اصلی تیں اثباتی ہو
ایک اور جگہ فرماتے ہیں
جاگ بناں دودھ جمدے ناہیں بھانویں لال ہون کڑھ کڑھ کے ہو یہاں جاگ عمل کے استعارے کے طور پر برتا گیا ہئے یعنی عمل کے بغیر علم کبھی بھی مقصد کے حصول کا وسیلہ نہیں بن سکتا
حضرت سلطان باہو کی شاعری میں عشق کی وہ رمز پوشیدہ ہئے جو اہل دل پر علم موجودات اور وجود مطلق کے ربط کے ایسے اسرار منکشف کرتی ہئے جو زمان و مکان کی حدود سے ماورا ہیں انسانی شعور جو زمان و مکان کی قید سے باہر دیکھنے کی اہلیت نہیں رکھتا عشق کی لا محدود طاقت لا مکاں کو امکان کے منظر نامے میں جلوہ گر کرتی ہئے
کن فیکون جدوں فرمایا اساں وی کولوں ہاسے ہو
ہکے ذات صفات ربیدی آہی ہکے جگ ڈھنڈیاسے ہو
ہک لا مکان مکان اساڈا ہکے آن بتاں وچ پھا سے ہو
عشق کی ابدیت حضور سلطان باہو کو لا امکان کے منظر دکھاتی ہے اور حضور مذہبی رسومات یا رسمی عبادات کی نفی کرتے ہیں اور اس نفی کیلئے آپ نئی ترکیبات تخلیق کر تے ہیں
ناں میں بھ مسیتیں وڑیا ناں تسبا کھڑ
ابدیت کی اہم صفت غفلت سے ماورا ہونا ہئے
حو دم غافل سو دم کافر سانوں مرشد ایہہ پڑھایا ہو
حضور باہو نہ صرف اس صفت سے آشنا ہیں بلکہ غفلت کے پل کو کفر کا درجہ دیتے ہیں اس کی ساتھ ساتھ وہ کائنات کی لامتنہای وسعتوں کو فرد کی ذات کے اندر بھی دیکھتے ہیں ان کے نزدیک فرد کی ذات بے عمیق گہرا راز ہئے اور کائنات کے سر بستہ رازوں میں سے ایک ہئے جس نے دل کے راز کو پا لیا اس نے ذات مطلق کو پا لیا
دل دریا سمندروں ݙونگھے کون دلاں دیاں جاے ہو
وچے ٻیڑے وچے بھیڑے وچے ونجھ مہاے ہو
چواں طبق دلے دے اندر تمبو وانگے تاے ہو
جو دل دا محرم ہووے باہو سوئی رب پچھائے ہو