بلوچستان کوئلے کی کان میں مزدوروں کی ہلاکت یہ خون خاک نشیناں تھا رزق خاک ہوا

بلوچستان نہ صرف تیل کے زخائر کے حوالے سے بلکہ دیگر قیمتی معدنیات کے حوالے سے بھی ملک کا اہم ترین صوبہ ہے لیکن ترقیاتی کام نہ ہونے کے کہ باعث ملک کا پسماندہ ترین صوبہ ہے یہاں اتنے وسائل موجود ہیں کہ پورے ملک کا نظام چلایا کاسکے سونے اور تانبے کی کانیں موجود ہیں تاہم انفرادی مفادات کے لیے ریکوڈک جیسے بیش قیمت زخائر بھی غیروں کو بیچ کر ہم ان سے بھیک مانگنے پہنچ جاتے ہیں یہاں کوئلے کی کانوں سے جدید طریقوں سے بھی کوئلہ نکالا جاسکتا ہے تاہم بلوچستان کے سرداروں صوبائ یا وفاقئ حکومت کی جانب سے مائننگ کے شعبے پر کبھی توجہ نہی دی گئی جس کے باعٹ گزشتہ روز کوئلے کی کان میں گیس بھر جانے سے گیارہ مزدوروں کی ہلاکت کا افسوسناک واقعہ پیش آیا اطلاعات کے مطابق یوسی سنجدی میں کوئلے کان میں دم گھٹنے سے 11 افراد جاں بحق ہو گئے جن میں 9 کان کن، ایک ٹھیکیدار اور ایک مائن منیجر شامل ہے۔چیف مائنز انسپکٹر عبدالغنی بلوچ نے بتایا کہ تمام جاں بحق افراد کا تعلق سوات سے ہے اور حادثہ گیس لیکج کے سبب دم گھٹنے کے باعث پیش آیا۔ان کا کہنا تھاکہ حادثے کا شکار کوئلہ کان کو سیل کردیا گیا جبکہ کان کنوں کی میتیں آبائی علاقوں کو روانہ کی جارہی ہیں۔یوسی سنجدی کوئٹہ شہر سے 40 کلو میٹر دور ہےوزیراعظم نے قیمتی جانوں کے ضیاع پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے بلوچستان حکومت سے 24 گھنٹے میں واقعے کی رپورٹ طلب کر لی ہے۔بلوچستان میں کوئلے کی لاتعداد کانیں موجود ہیں جس میں بداحتیاطی اور حفاظتی انتظامات نہ ہونے کی وجہ سے ہرسال لاتعداد افراد جان کی بازی ہار جاتے ہیں۔گزشتہ ماہ مئی میں ہی بلوچستان کے ضلع ہرنائی میں کوئلے کی کان میں گیس دھماکے کے نتیجے میں 12 افراد جاں بحق ہو گئے تھے۔24 اپریل کو بلوچستان کے علاقے ہرنائی اور دکی میں کوئلہ کان میں زہریلی گیس بھر جانے سے 4 کان کن جاں بحق ہوگئے تھے۔اس سے قبل صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع کرم میں کوئلے کے کان میں گیس بھرنے سے ایک ہی خاندان کے 3 افراد سمیت 4 مزدور جاں بحق ہو گئے تھے۔بلوچستان میں بنیادی روزگار کا بنیادی انفراسٹرکچر ہی موجود نہی ہے تو لوگ دو وقت کی روٹی کے لیے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر کوئلے کی اندھیری کانوں میں نہ اتریں تو کیا کریں یہاں جوان لاپتہ ہوجاتے ہیں اور ورثا تصاویر سینے سے لگائے روتے روتے زندگی گزار دیتے ہیں یا خود بھی لاپتہ ہو جاتے ہیں اور باقی ماندہ افراد ان گہری کانوں میں زندگی کی جنگ لڑ رہے ہوتے ہیں یہی وجہ ہے کہ نہ صرف طالبان بلکہ را اور دیگر طاقتیں بھی یہاں سرگرم ہیں فوجی آپریشن کے ساتھ ساتھ اس خطے میں ترقی اور روزگار کے بنیادی انفراسٹرکچر کی تشکیل بھی فوجی اپریشن کی طرح ہی نا گزیر ہے اسی صورت میں ایسے حادثات کا تدارک ہو سکتا ہے لیکن اس بارے میں نہ کوئ سردار بولتا ہے نہ صوبائ یا وفاقی حکومت اس بارے میں سنجیدہ ہے بلوچستان میں مائننگ کے شعبے کو جدید بنیادوں پر استوار کیا جائے تو نہ صرف صوبے کے مسائل حل ہوں گے بلکہ ملک بھی ترقی کرے گا اور مستقبل میں ایسے حادثات کا تدارک ہوسکے گا ورنہ ان مزدوروں کی جان کی اہمیت ارباب اقتدار کے نزدیک کیا ہے اس کے زمہ دار مائننگ کے مجاز افسران اور صوبائ حکومت کو کس نے کٹہرے میں لانا ہےدو روایتی بیانات جاری کرکے کاروائی ختم نہ مدعی نہ شہادت حساب پاک ہوا ،یہ خون خاک نشیناں تھا رزق خاک ہوا۔