بچوں کے تحفظ پر کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیموں کے اتحاد چلڈرن ایڈوکیسی نیٹ ورک نے بچوں کی مشقت کے خلاف عالمی دن کے موقع پر حکومت سے بچوں کی مشقت کے خاتمے کے لیے کثیر الجہتی اقدامات اٹھانے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ واضح رہے کہ رواں سال 12جون دنیا بھر میں اس عزم اور یقین کے ساتھ منا یا جا رہا ہے کہ بچوں کی مشقت کے لیے کیے جانے والوں وعدوں پر عمل درآمد یقینی بنایا جائے۔ چلڈرن ایڈوکیسی نیٹ ورک کے ترجمان ڈسٹرکٹ کوارڈینیٹر راجن پور آفتاب نواز خان مستوئی کے مطابق بچوں کی مشقت کی روک تھام کے قانون مجریہ 2016کے تحت صوبہ پنجاب میں 15سال سے کم عمر بچوں کو کسی بھی طرح کی ملازمت پر رکھنا جرم ہے، اور اس جُرم کا ارتکاب کرنے والوں کو 6 ماہ تک قید اور 50 ہزار روپے تک جرمانہ بھی ہو سکتا ہے۔ اسی قانون کے مطابق 15سال سے زائداور18سال سے کم عمرافراد کو قانون میں متعین کیے گئے خطرناک شعبو ں میں ملازم رکھنا بھی جُرم ہے۔ چلڈرن ایڈوکیسی نیٹ ورک کے مطابق بچوں کی مشقت سے نہ صرف ان کا بچپن، تعلیم، صحت، عزت و تکریم، کھیل کود، ذہنی و جسمانی ترقی متا ثر ہوتی ہے بلکہ بچوں کے تحفظ اور اخلاقیات کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔ لہذا اس تناظر میں ضرورت اس امرکی ہے کہ بچوں کی مشقت کے خاتمے کے پائیدار حل کے لیے صوبائی سطح پر جامع اور مربوط پالیسی متعارف کروائی جائے۔ چلڈرن ایڈوکیسی نیٹ ورک نے گھریلو شعبوں میں بچوں کی مشقت کے خاتمے کے لیے پنجاب ڈومیسٹک ورکرز ایکٹ 2019کے سیکشن 3پر عملدرآمد نہ ہونے پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے محکمہ محنت و انسانی وسائل سے مطالبہ کیا کہ گھریلو بچہ مزدوری کی روک تھام کے لیے قانون پر عملدرآمد یقینی بنانے کے لیے بلا تعطل لائحہ عمل مرتب کیا جائے۔چلڈرن ایڈوکیسی نیٹ ورک کے مطابق گھریلو بچہ مزدوروں پر تشدد کے مرتکب افراد عموما قانونی سقم کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سزا سے بچ نکلتے ہیں،لہذا ضرورت ہے کہ پاکستان پینل کوڈ کے سیکشن 328-A،جو بچوں کے ساتھ ظالمانہ سلوک کو ڈیل کرتا ہے، کو ناقابل راضی نامہ اور ناقابل ضمانت جُرم قرار دیا جائے۔ چائلڈ لیبر کے واقعا ت کی بالعموم اور گھریلو چائلڈ لیبر کے واقعات کی بالخصوص اطلاع دینے کے لیے ہیلپ لائن یا آن لائن پورٹل کا قیام عمل میں لایا جائے جہاں بچہ مزدوروں بشمول گھریلو بچہ مزدوروں کی موجودگی کی اطلاع دی جا سکے۔چلڈرن ایڈوکیسی نیٹ ورک نے توجہ دلائی کہ پنجاب چائلڈ لیبر سروے رپورٹ 2019 کے اعداد وشمار کے مطابق صوبہ بھر میں 13.4فیصد بچے چائلڈ لیبر کا شکار ہیں۔ اسی سروے کے نتائج واضح کرتے ہیں کہ بچوں کی ایک بڑی تعداد زرعی شعبوں میں چائلڈ لیبر کا شکار ہے تاہم یہ بھی باعث تشویش ہے کہ صوبہ پنجاب میں چائلڈ لیبر کی روک تھام کے لیے موجود ہ قانون کا اطلاق زرعی شعبہ پر نہیں ہوتا۔ چلڈرن ایڈوکیسی نیٹ ورک نے مطالبہ کیا کہ قانونی ترامیم کے ذریعے زرعی شعبہ کو چائلڈ لیبر قوانین کے دائرہ کار میں لایا جائے تا کہ بچوں کو استحصال کی تما م تر شکلوں سے محفوظ رکھنے کے ریاستی عزم کی تکمیل ہو سکے۔ چلڈرن ایڈوکیسی نیٹ ورک کے ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ بچوں کی مشقت کے خاتمے کے لیے موجود قوانین پر موثر عمل درآمد یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ سماجی تحفظ کے پروگرامز کے بجٹ میں مزید اضافہ کیا جائے تا کہ سماجی تحفظ کا مضبوط نظام قائم کرتے ہوئے بچوں کی مشقت کاخاتمہ عمل میں لایا جا سکے۔ سماجی تحفظ ایک حق ہے اور خاندانوں کو بحران کے وقت چائلڈ لیبر کا سہارا لینے سے روکنے کے لیے طاقتور پالیسی ٹول ہے۔ واضح رہے کہ چلڈرن ایڈوکیسی نیٹ ورک بچوں کے تحفظ پر کام کرنے والی سول سوسائٹی کی مقامی تنظیموں کا پلیٹ فارم ہے جو پنجاب کے18اضلاع میں اپنی ساتھی تنظیموں کے اشتراک سے بچوں کے تحفظ کے لیے کوشاں ہے مزید تفصیلات کے لیے canpk.org@gmail.com پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔