اکیسویں صدی سائنس اور ٹکنالوجی کی اہم پیش رفت کی صدی ہے آج کے دور میں ہم نہ صرف اس کرہ ارض پر وقوع پذیر ہونے والے واقعات کو براہ راست دیکھ سکتے ہیں بلکہ کائنات کی وسعتوں میں بنتی بدلتی اور مٹتی کہکشاوں کو حقیقی وقت میں دیکھنے کی اہلیت رکھتے ہیں اس عہد میں سفر نامہ لکھنے کا فیصلہ دلدلی زمین پر چلنے کے مترادف ہے ایک عہد میں سفر نامے ان دیکھے دیس کے لوگوں اور ان کے کلچر کے بارے میں فہم و ادراک کے حصول کا اہم وسیلہ سمجھے جاتے تھے اور ان دیسوں کے بارے میں لکھی گئی باتیں دیو مالائی قصوں کی طرح سنی جاتی تھیں مارکو پولو جیسا سفر نامہ نگار بھی حقائق کے بر عکس فرضی قصے لکھنے کے الزام سےنہیں بچ پایا تحقیق بتاتی ہے کہ مارکو پولو ۱۲۷۲ میں ایران سے گزرا اس وقت قلعہ الاموت کوکھنڈر بنے پندرہ سال کا عرصہ گزر چکا تھا اور وہ کبھی اس کے قریب سے بھی نہیں گزرا کاروان سرائے میں سنی سنائی کہانیاں لکھ دیں اردو زبان میں بھی بہت سارے سفر نامے لکھے گئے مگر ان ملکوں یا علاقوں کے معاشرتی اور تاریخی معروض کو زیادہ توجہ نہیں دی گئی زیادہ تر لکھنے والوں نے اپنی ذات کو نمایا ں کرنے کی کوشش کی تاہم انگریزی زبان میں لکھے گئے کچھ سفر نامے خصوصی اہمیت رکھتے ہیں جن کا ذکر مضمون کو طوالت سے بچانےکی وجہ سے یہاں نہیں کیا جا رہاہم سمجھتے ہیں اور یہ عمومی نکتہ نظر بھی ہے کہ سفر نامے میں کچھ عناصر کا ہونا لازم ہے یا ان عناصر کو کسی نہ کسی صورت ہونا چاہئے سب سے پہلے مصنف کا انداز بیان دیکھا جاتا ہے کہ وہ کہانی سنانے کے فن سے کتنا آشنا ہے اور وہ اپنے تجربے کو کس طرح جادوئی حقیقت کے روپ میں ہم تک پہنچاتا ہے پھر لازمی عنصر یہ ہوتا ہے کہ مصنف جزیات کی تفضیل بیان کرنے کی کتنی صلاحیت رکھتا ہئے اور اس دیس کے کلچر رسم و رواج کو کتنی گہرائی سے اپنے اندر جذب کرکے آپ کو بتاتا ہے جو کیمرے کی آنکھ آپ کو نہیں دکھا سکتی پھر یہ دیکھنا بھی ضروری ہوتا ہے کہ مصنف کا اس ملک کےکلچر اور تاریخ کے بارے میں علم اور اس ملک سے وابستگی کتنی ہے جو اس کی تحریر کی دلکشی کا باعث بنتی ہے اور اس کے ذاتی تجربے کی گہرائی اس کی تحریر کو چاشنی عطا کرتی ہے اور ایک اہم بات یہاں کرنا ضروری ہے کہ اس ملک کی تاریخی اور ثقافتی یک سوئی کے ساتھ ساتھ وہاں کے ادب پر عبور بھی سفر نامہ لکھنے اور پرکھنے کیلیئے لازمی عناسر میں شامل ہے اور انداز تحریر کی جادو گری قاری کو نہ صرف وہ مقامات دکھاتی ہے جو مصنف دکھانا چا ہتا ہے بلکہ وہ اس کے احساسات کا شریک بناتی ہے
استنبول کی محبت میں بہت لوگ گرفتار ہوئے مگر اس محبوب دلربا نے بہت کم لوگوں پر اپنے راز ا فشا
کیے یہی وجہ ہے کہ انگریزی اور اردو میں اس شہر نا رسا کے بارے بہت کچھ لکھا گیا میرا اس شہر سے پہلا تعارف ارہان پاموک کے حوالے سے ہوا میں نے شہر کو بارہ سال کے دہی بیچنے والے بچے کی آنکھ سے دیکھاجو اناطولیہ کے دیہات سے اپنے باپ کے ساتھ آیا تھا استنبول اس عہد میں ایک نیا روپ لے رہا تھا اور بہت سے نئے عناصر اس شہر کی شناخت کا حصہ بن رہے تھے میر اپنا بیک گراونڈ اس بچے سے بہت ملتا تھا اس سبب سے مجھے اس کی حیرتوں اور مسرتوں کا شریک بننے میں زیادہ مشکل پیش نہیں آئی اور میرے ذہن میں استنبول کی وہی تصویر برقرار رہی جو ارہان پاموک نے دکھائی ابھی کچھ دن پہلے محمد سعید اختر کا سفرنامہ ”استنبول :حواس کی سمفونی“ پڑھنے کا اتفاق ہوا کتاب کے آ غاز سے ہی محسوس ہوا کہ مصنف کسی شہر میں نہیں بلکہ جنموں کے انتظار کے فسوں کی چاشنی لیے اپنے محبوب سے ملا ہے جس کی زلفوں کے سائے میں کچھ پل گزارنے کی سک صدیوں تک اس کی روح میں بستی رہی سفر نامہ ایک خوبصورت فکشن کا روپ دھار لیتا ہے جس کے دو مرکزی کردار ہیں ایک نیم خوابیدہ آنکھوں میں حسرت دید لیے صدیوں سے منتظر عاشق جو کتاب میں مصنف کے روپ میں سامنَے آتا ہے اور دوسرا کردار استنبول کی صورت میں اس محبوب طرحدار کا ہے جس نے صدیوں کے سفر میں اپنی جادو گری سے بے انت لوگوں کو اپنی زلفوں کا اسیر بنا یا ہے ہمارے مصنف کی آمد کچھ یوں ہوتی بقول مصطفے زیدی معمو لی ترمیم کی معذرت کے ساتھ
اور بھی آئے ہوں گے تیری گلی میں مگر
میں سوال عزت “دامان “لے کے آیا ہوں
صدیوں کی بے نیازی جو کہ اس شہر بے مثال کا وطیرہ ہے اس کے باوجود محبوب کی دھڑکن نے سندیسہ دیا کہ آنے والا عاشق دل و جان ہتھیلی پر ر کھےصدیوں کا سفر کر کے شوق دید لئے حاضر ہے بقول فیض
حضور یار ہوئی دفتر جنوں کی طلب
گرہ میں لے کے گریباں کا تار تار چلے
مصنف اپنی آمد کو کچھ یوں بیان کرتا ہے ” جب میں استنبول ایر پورٹ پر اترا تو میں نے دور سے آپ کو ہاتھ ہلاتے دیکھا آپ نے مجھے دیکھا تو آپ کا چہرہ خوشی سے چمک اٹھا اور آپ مسکراہٹ چھپا نہیں پائے ” اور کچھ آگے چل کر آپ ایک اور حیرت میں ڈوب جاتے ہیں“ بیکس بھی تمھیں استنبول میں خوش آمدید کہہ رہا ہے فادر کیخوتے نے ہاتھ میں سرخ وائن کی بوتل تھامے ہوئے کہا ان کی آنکھوں میں چمک تھی وہ مخصوص چمک جو بیکس کے ساتھ ہونے پر ان کی آنکھوں میں آ جاتی“ فادر کیخوتے یہاں روحانی رہنما اور مرشد کے کردار کے طور پر ہے جو رازدان ہے اور جس نے دل کے اندر عشق کی چنگاری لگائی وہی وسیلہ ہے محبوب سے ملنے کا یہ ایک پو شیدہ کردار ہے جس کو صرف مصنف ہی دیکھ سکتا ہے بقو ل حضرت سلطان باہو
الف اللہ چمبے دی بوٹی میڈے من وچ مرشد لائی ہو
مصنف اپنے جذبوں کی شدت کو مختلف زاویوں سے پیش کرتا ہے جیسے” ہم اس موسم میں ناچتے گاتے آیئں نہ صرف اس موسم میں بلکہ آنے والے سالوں کے بہت سے موسموں ناچتے گاتے تمھارے پاس آیئں “استنبول کی حسین سر زمین جہاں صدیوں نے جنم لیا جس کے سائے تلے صدیاں پھلتی پھولتی رہیں جسے تاریخ بے شمار ناموں سے یاد کرتی ہے آج ایک سیاح کو نہیں ایک عاشق کو خوش آمدید کہا مصنف اپنے اشتیاق کا اظہار یوں کرتا ہے
میں گھٹنوں کے بل بیٹھا ہوں اور تمھارے ہاتھوں کو دیکھ رہا ہوں
میں تمھارے ہاتھوں کو چھونا چاہتا ہوں
لیکن میں ایسا نہیں کر سکتا
تم ایک شیشے کے پیچھے ہو
محبوب میں اپنے ہی ڈرامے کا ایک حیران تماشائی ہوں
میں اس شام اپنا کھیل کھیل رہا ہوں
یہ انداز تحریر کسی سیاح کا نہیں بلکہ یہ وہ جادوئی حقیقت نگاری ہے جو قاری کی دھڑکنیں بے ترتیب کر دیتی ہے اور اس کے سامنے خوبصورت بلند و بانگ عمارتیں نہیں بلکہ ان کے اندر جنم لینے والی کہا نیاں اور ان کہانیوں کے کردار آ جاتے ہیں جہاں سنہری زلفوں والی حسیناوں کی محفل میں حسن و محبت کی دیوی ایفرو ڈائٹ صدر نشیں ہوتی ہے
بکٹ ازونر نے اپنے ناول “میں استنبول ہوں” جو کہ ایک حوالے سے مشکل ناول ہے کیونکہ ناول نگار نے شہرکا حسن تاریخ اور اس کے تضادات کو خود شہر کی زبان سے بیان کرائے ہیں اس ناول کو انگریزی زبان میں ترجمہ کرتے ہوئےکینیتھ جے ڈیکن نے لکھا ہے کہ ناول میں نہ صرف شہر کی جسے دنیا ہزاروں ناموں سے جانتی ہے کی تاریخ اور میتھالوجی کی بات کی گئی ہے بلکہ اس کے رہنے والوں کی روح کے راز بھی افشا کیے گئے ہیں سعید اختر نے اپنی کتاب میں ازونر کےاستنبول کے بارے مِیں لکھے گئے تاریخی الفاظ لکھے ہیں جو نہ صرف شہر کے مزاج کی عکاسی کرتے ہیں بلکہ مصنف کی محنت اور محبت کا بھی ثبوت ہیں ” امید کی طرح نیلا زہر کی طرح سبز صبح کی طرح گلابی میں استنبو ل ہوں میں یہودا کے درخت میں ہوں کیکر میں ہوں لیونڈر میں ہوں میں ناقابل فہم ہوں میں امکان توانائی اور تخلیقی صلا حیت کی متاثر کن دنیا ہوں میں ایک ایسی جگہ ہوں جہاں محبت دھوکہ دہی اور تکلیف ساتھ ساتھ رہتے ہیں میں ملکاوں کی ملکہ ہوں شہنشاہوں اور سلاطین کے ساتھ چہل قدمی کی ہے سیاحوں اور شاعروں کے رازوں میں شریک ہوں ابھی بھی مصنفین میرے بارے میں لکھنے کے لئے قطار میں کھڑے ہیں” اور غالب نے بجا طور پر کہا تھا
ہاں وہ نہیں خدا پرست جاو وہ بے وفا سہی
جس کو ہوں دین و دل عزیز اس کی گلی میں جائے کیوں
سعید اختر اس شہر بے مثل اوراس طرحدار حسینہ سےیوں ملا کہ تہہ در تہہ راز منکشف ہوتے چلے گئے اور شہر کی محبت مصنف کے ناسٹلجیا کی صورت یادوں کے رنگ بکھیرتی رہی اور مصنف ان رنگوں کے امتزاج سے وہ تحریر تخلیق کرتا رہا جس کے سبب کتاب کے ہر صفحے پر آپ کو رنگ و خوشبو کا ایک جہان ملے گا آپ محسوس کریں گے کہ بقول فیض
کوئی خوشبو بدلتی رہی پیرہن
کوئی تصویر گاتی رہی رات بھر
سعید اختر ایک صاحب مطالعہ شخص ہے یہی وجہ ہے کہ وہ کسی منظر کو ااس کے پس منظر کے بغیر نہیں دیکھتایہ انداز آپ کو زیر بحث کتاب کے ہر صفحے پر دکھائی دے گا ہم پاکستان کے لوگوں کی یہ بہت بڑی بد قسمتی ہے کہ یہاں تاریخ کو ہمیشہ مسخ کیا گیا ہم اس اعتماد سے محروم رہے جو تاریخ کا تسلسل قوموں میں پیدا کرتا ہے مصنف کے اندر یہ احساس پوری شدت کے ساتھ موجود ہے اور اس کی جھلک نا آسودہ خواہشوں کی صورت آپ کو اس کتاب میں نظر آئے گی ایک جگہ لکھتے ہیں ” شہروں کے وارث کیسے پیدا ہوتے ہیں اپنے لا وارث شہر یاد آنے لگے” یہ ایک طے شدہ امر ہے کہ تاریخی تسلسل روایات کو جنم دیتا ہے اور روایات تہذیب کی تشکیل کرتی ہیں تہذیبی شناخت یقینی طور پر کسی شہر قوم اور ملک کو وہ حسن عطا کرتی ہے کہ پوری دنیا اس کی گرویدہ ہوتی ہے یہاں یہ بات سمجھنا بھی بہت اہم ہے کہ صرف بلند و بالا عمارتیں کسی قوم کی بہتر شناخت نہیں ہوتیں بلکہ اس قوم کی حقیقی شناخت اس کا تہذیبی حسن ہوتا ہے جسے مصنف نے روایات کا تسلسل کہا ہے اوراپنے مرشد فادر کیخوتے کے حوالے سے روایات کے تسلسل کی وجوہات کے نفسیاتی پس منظر پر بھی بحث کی ہے اور بتایا ہے کہ روایات کا تسلسل کیوں اور کیسے بر قرار رہتا ہے استنبول کی تہذیبی شناخت جہاں مصنف کو مسحور کر دیتی ہے وہیں اپنے دیس اور اپنے شہروں کی زوال پذیر ثقا فتی قدریں اور معاشی بد حالی دل میں ایک کسک کی صورت سامنے آتی ہے یہ کسک شاید جہانگیر مخلص کے لہجے میں قاری کے پاس اسی شدت کے ساتھ پہنچے جس شدت کے ساتھ مصنف نے محسوس کی ہے
اساں گمنام رستے تیں کھڑے ہوئے ماتمی چہرے
اساں بے وارثے ہونٹاں تیں اکری پیاس ہیں سانول
وطن عزیز میں سیاسی شعبدہ بازیوں اور غیر جمہوری طاقتوں نے لوگوں کوریاست اور جمہوری عمل سے بیگانہ کر دیا ہے اور ہم بجا طور پر سیاسی بیگانگی کا شکار ہیں جس کے نتیجے میں معاشرتی بیگانگی عمل میں آتی ہے ترکیہ کا مستحکم سیاسی عمل مصنف کے دل میں اپنے دیس میں جاری جبر و ستم کی یاد دلا تاہے ایک جگہ اس دکھ کا اظہار یوں ہوا ہے ” در اصل کسی معاشرے کی سیاسی جدوجہدمعاشرے کے زندہ ہونے کا عملی ثبوت ہوتی ہے وہ سیا سی کارکن قابل ستائش ہوتے ہیں جو اپنے سیاسی نظریات کی خاطر جان کی پرواہ نہیں کرتے”سعید اختر نےایک بہت خوبصورت بات لکھی ہَے کہ شہروں کی پر اسراریت کو اپنے اندر جذب کرنے کیلئے ایک بڑے دماغ کی ضرورت ہوتی ہے اس بات کو کو اگر ہندوستان کے تہذیبی اور اسا طیری تناظر میں دیکھا جائے تو پر اسراریت ہی در حقیقت حسن ہے ارشاد تونسوی کہا کرتے تھے دمان کا اسرار ہی دمان کا حسن ہے سعید اختر نے استنبول کے ایشیائی اور یورپی حصے کے حسن کو تاریخی اور ثقافتی پس منظر کے ساتھ اپنے اندر جذب کر کے اپنے قاری تک پہنچایا ہے پکاپی محل اور دوسری تاریخی عمارات کے ساتھ ساتھ آیا صو فیا کی صرف تعمیراتی شان و شوکت کو نہیں دیکھا بلکہ ان کے اندر صدیوں کے قدموں کی آہٹ سنی ہَے بقول اقبال
سلسلہ روزوشب نقش گر حادثات
سلسلہ روزوشب اصل حیات و ممات
سلسلہ روزوشب تار حریر دو رنگ
جس سے بناتی ہے ذات اپنی قبائے حیات
سفر نامہ کی تحریر ایک حیران کن موڑ لیتی ہے جب سعید اختر استنبول سے کونیا کا سفر کرتا ہے یہ ایک حیران کن تخیلاتی دنیا کا سفر ہے جس رفتار سے بلٹ ٹرین آگے بڑھ رہی تھی اس سے کئی گنا زیادہ رفتار سے مصنف کا دماغ ماضی کے پر اسرار دھندلکوں کا سفر کرتا رہا ٹرین جب سات سو کلو میٹر کا سفر طے کر کے کو نیا پہنچی مصنف سات سو سال پیچھے مولانا روی کے عہد میں پہنچ چکا تھا جہاں مولانا رومی شمس کے آگے دو زانو بیٹھے تھے اور ہمارا مصنف نغمہ رومی سے شناسائی کے عمل میں تھا
پیر رومی خاک را اکسیر کرد
از غبارم جلوہ ہا تعمیر کرد
سعید اختر کا سفر نامہ ایک خوبصورت فکشن کی چاشنی کے ساتھ ساتھ تاریخی اور سقافتی دستاویز کی علمی اہمیت رکھتا ہے پڑحنے والوںکو اس میں ایک عاشق کی سر گذشت بھی ملے گی استنبو ل کی گلییوں میں نغمہ سراوں کے لہجے سے جھلکتا حزن بھی ایک سوال کی صورت آپ کے سامنے ہوگا
وہ کیا دکھ تھا تیری سہمی ہوئی خاموش آہوں میں