حفاظتی اقدامات نہ ہونے کی وجہ سے بلوچستان میں کوئلے کی کانیں موت کی وادیاں بن گئیں

بلوچستان میں کوئلے کی کانیں حفاظتی اقدامات نہ ہونے کے باعث موت کی وادیاں بن چکی ہیں۔
1873 میں شروع ہونے والی بلوچستان میں کوئلے کی کان کنی میں گزشتہ 10 سالوں میں 900 کے قریب کان کن ہلاک ہو چکے ہیں۔
تقریباً ڈیڑھ صدی گزرنے کے باوجود کان کنی کے طریقہ کار میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی۔
بلوچستان میں 4500 سے زائد کوئلے کی کانوں میں 44 ہزار سے زائد مزدور کام کر رہے ہیں
کوئلے کی کئی کانوں میں جدید حفاظتی آلات کی کمی، ناکارہ مشینری، حکومتی عدم توجہی اور ٹھیکیداری نظام کے باعث ہزاروں افراد کی زندگیاں خطرے میں ہیں۔
مزدوروں کا کہنا ہے کہ کوئلے کی مقامی کانوں میں زہریلی گیسوں کو چھوڑنے کے لیے وینٹی لیٹرز اور ایگزاسٹ پائپ کی کمی ہے۔
کان کے اندر ہونے والے حادثات سے بچ جانے والے کان کنوں کو مہلک بیماریوں کا خطرہ ہوتا ہے۔
کان کنوں نے کہا کہ کوئلے کی دھول سینے کو تنگ کرتی ہے، گردوں کو نقصان پہنچاتی ہے،
کسی نہ کسی بیماری کا سبب بنتی ہے، اور دانتوں کو بھی نقصان پہنچاتی ہے۔