دُنیا کے معرض وجود میں آنے کے ساتھ ہی اولاد آدمؑ مختلف گروہوں وقبیلوں میں تقسیم ہو کر خطہ ارض پر اپنا راج قائم کرنے کیلئے جدوجہد کرنے لگی ۔جہالت کی تاریکی میں ڈوبے یہ افراد غرور ،گھمنڈاور مکروفریب کی راہ پر اس قدر تیزی سے آگے کی طرف بڑھ رہے تھے کہ حق و باطل کی تمیز ہچکولے کھاتی غیر متذلزل تھی ۔مشرکین چونکہ عبادت کیلئے ہر روز نئے نئے طریقے ایجاد کر رہے تھے لیکن ظلم و جبر کے بل بوتے پر مظلومین کے ساتھ زیادتی روز بروز عروج پا رہی تھی ۔نظام اس قدر فرسودہ ہوچکا تھا کہ سورج اور چاند سے مدد طلب کرنا ان کی حیات کا خاصہ بن چکا تھا ۔کفار اور مسلم ایک ہی سر زمین پر بسنے والے باشندے تھے لیکن ظلم و ستم اسقدر بڑھ چکا تھا کہ انسانیت کا احترام دور دور تک کہیں دکھائی نہ دیتا تھا ۔جس کی لاٹھی اُس کی بھینس کاقانون تیزی سے فروغ پا رہا تھا ۔چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال ہو چکا تھا ۔سرِعام شرم و حیا کی تذلیل روز کا معمول بن چکا تھا ۔اجناس و خوراک کا فقدان پیدا کر کے بھوک و افلاس کی بدولت انسانیت کا قتل عام مسلسل بڑھتا چلا جا رہا تھا ۔یو ں تو دُنیا میں بہت سی مسلم ریاستیں آباد ہیں ۔ان ریاستوں میں کھربوں کی تعداد میں مسلما ن آباد ہیں۔ خلیفہ دوئم حضرت عمر فاروقؓ نے یروشلم فتح کیا ۔آغاز میں مسلمانوں کا قبلہ اوّل یہاں تھا لیکن فتح کے بعد نماز پڑھنے کیلئے یہاں جگہ نہ تھی ۔عیسائیوں نے پیشکشں کی کہ ہمارے کلیسا میں نماز ادا کر لیں۔خلیفہ وقت نے معذرت کر لی ۔اگر کلیسا میں نماز ادا کی تو دوسرے مسلمان بھی پیروی کریں گے اور آپ کی عبادت گاہ آپکے پاس نہیں رہے گی ۔یروشلم کو دُنیا کے مسلمان نہایت ہی عزت و تکریم کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ یہ کہ بیت المقدس امن کا شہر کہلاتا ہے۔بیت المقدس کی تاریخ اگرچہ کافی قدیم ہے ۔یہ مقدس شہر متعدد بار اَجڑا اور پھر تیزی کے ساتھ آبادی کے مراحل سے شاداب ہوا ۔اسرائیلوں نے کئی مرتبہ اس شہر کی اینٹ سے اینٹ بجانے کی کوشش کی لیکن رحمت کریم کی بدولت یہ پھر آباد ہو گیا ۔ یہودی بیت المقدس کو مسکن خدائی کہتے ہیں ۔یہودیوں کا عقیدہ ہے کہ یہ شہر قیامت تک آباد رہے گا ۔سب سے پہلے حضرت دائود ؑ نے اس شہر کو فتح کیا اور یہاں اپنا دارالسلطنت قائم کیا ۔جو مسلمانوں، عیسائیوں اور یہودیوں کیلئے فضیلت تکریم ہے ۔اس خطہ میں حضرت سلیمان ؑکا مزا ر ہے ۔ حضرت اسماعیل ؑ کی دینی تبلیغی کاوشوں کے نشانات آج بھی وہاں موجود ہیں۔ فلسطین ، اسرائیل عراق، ایران ،افغانستان، پاکستان، بھارت ، روس، چین وغیرہ ان ممالک کی سرحدیں ایک دوسرے کے ساتھ قریب ہونے کی وجہ سے جُڑی ہیں۔فلسطین کے نام سے مشہور یہ خطہ ہزاروں سال قدیم تاریخ کا حامل ہے ۔یہ سر زمین بہت سی تہذیبوں کا مسکن تھا مثلاً اسرائیلی، کنعانی اور فلسطینی ۔یہ خطہ خاص طور پر اسلام ،یہودیت اور عیسائیت کیلئے اہمیت کا حامل ہے ۔ فلسطین کےمظلوم و نہتےعوام عرصہ دراز سے اسرائیل کے جبر و ظلم کا شکار چلے آرہےہیں ۔پی ایل او کے چیئرمین یاسر عرفات نے فلسطین کی عوام کے حقوق بارے اقوام متحدہ میں متعدد بار بابت حقوق شنوائی جدوجہد کا سلسلہ مسلسل جاری رکھا ۔امن ،مذاکرات ، معاہدوں کے حوالے سے گاہے بگاہے کئی کانفرنسیں کا انعقاد عمل میں لایا گیا مثلاً اینا پولس ،کیمپ ڈیوڈ سمٹ اور اوسلو معاہدے وغیرہ۔بدقسمتی سے عالمی حقوق انسانی کے تحفظ کی ذمہ دار اس انٹرنیشنل آرگنائزیشن نے خاطر خواہ نتائج مہیا نہ کئے ۔اسرائیل کی انسانی حقوق بارے منفی سرگرمیوں نے گذشتہ ادوار سے موجودہ حالات تک فلسطین کی عوام پر بے رحم ہوتے ہوئے آتشیں اسلحہ کے زور پر آگ کے سیاہ بادل برسائے رکھے۔ننھے معصوم اطفال ، علم کی شمع کے متمنی مسافر علمی ،نوجوانان ، بزرگ مرد و خواتین غرض کے ہر شعبہ حیات سے تعلق رکھنے والے افراد امن کے متلاشی رہے اور اسرائیلی افواج کی آفت زدہ ڈرونز کے سامنے بے بس و بے یارو مدد گار رہے ۔ان کی ظالمانہ و عزت نفس کو مجروح کرنے والی کاروائیوں پر اقوام متحدہ نے چند منٹس کی تقاریر تو سماعت کیں لیکن عملی کارروائی کا فقدان رہا ،خواتین کے ساتھ ان مسلح افراد کے آبرو ریزی کے دلخراش واقعات نے عالمی امن کے ذمہ داران کو بیدار تو کیا لیکن بے سود۔زندہ افراد کو جلانے اور مسمار کرنے سے کوئی بھی روک نہ پایا ۔موجودہ حالات میں فلسطین آئے دن سیاسی نشیب و فراز کا شکار چلا آرہا ہے ۔صہیونی عرصہ دراز سے فلسطین کے مظلوم مسلمانوں کی جان ومال سے اسلحہ کے زور پر کھیل رہے ہیں اور ان کا ناجائز خون بہایا جا رہا ہے ۔جس کیلئے اسرائیل ان پر سالانہ اربوں ڈالرز کی برسات کر رہا ہے ۔بڑی طاقتوں کی خارجہ پالیسیوں کے روابط مستحکم نہ ہونے کی بناء پر اسرائیلی کمانڈوز فلسطین کی عوام کے سکھ چین کو سبوتاژ کرنے پر گامزن ہیں۔ خواتین صحافیوں کی بے حرمتی اور شرمناک واقعات ناقابل بیان ہیں۔معصوم اطفال کو کئی کئی دن بھوکا پیاسا رکھنے کے بعد بیدردی سے قتل کر دینا اور اس کے بعد ان کی لاشوں کو آگ لگا دینا ۔ امن ، صحت ، تعلیم اور خوراک یہاںکے مکینوں کیلئے سوائے ایک خواب کے اور کچھ نہیں۔دشمنوں کی مذموم کارروائیوں کے بل بوتے پر ہونے والی خون کی ہولی نے یہاں سرسبز و شاداب باغات کو ویران کر کے رکھ دیا ہے ۔ مرد وخواتین اپنی آخری سانسوں کی دلدل میں ہچکولے کھاتے بے چین و بے یارو مدد گار،امن کے راگ الاپنے والے طاقت کی گیتا کے سامنے آنکھ مچولی کھیل رہے ہیں ۔اسلحہ و بارود کی اس جنگ میں آج تک ظالم اپنی طاقت کے نشے میں بد مست اور مظلوم حصول انصاف کیلئے سرگرداں۔ یا اللہ کریم تیری بارگاہ اقدس میں دست سوا ل ہے اے مالک ان سب پر رحم فرما اور ا ن کی غائب سے مدد فرما ۔ آمین۔