سولہ بچوں کی موت عوام کا معصومانہ سوال

اڑتالیس گھنثوں کے دوران سولہ معصوم بچے خانیوال اور ساہیوال کے سرکاری ہسپتالوں میں ریاست کی نا اہلی کے باعث جاں بحق ہوگئے لیکن یہ عام ادمی کے بچے تھے اس لیے کوئ قیامت نہی آئی وزیر اعلیٰ پنجاب نے ساہیوال کا دورہ کیا اور لیپاپوتی کی کوشش کی لیکن بیوروکریسی کو یہ بھی گوارا نہ ہوا اسی طرح خانیوال میں ایک نرس کو گرفتار کر کے معاملہ دبایا جارہا ہے ان ہلاکتوں کے زمہ دار یہ مہرے نہی بلکہ صوبائ حکومت سیکریٹری ہیلتھ اور دواساز کمپنی ہے جس نے یہ انجکشن سپلائ کیے لیکن عام ادمی کے بچوں کی جان اتنی قیمتی نہی کہ ان کے لیے ان بڑے مگرمچھوں سے سوال بھی کیا جاسکے اگر یہ دو واقعات مہزب ملکوں میں ہا قانون کی حکمرانی والے ملکوں میں ہوتے تو سیکریٹری ہیلتھ اور دواساز کمپنی کا مالکان اور یہ انجکشن فراہم کرنے والے افسران جیل میں ہوتے اور صوبائ وزیر بھی شامل تفتیش ہوتا لیکن پاکستان نہ مہزب ملک ہے اور نہ ہی یہاں قانون نام کی کسی چیز کی اشرافیہ پر حکمرانی ہے ہاں نرس پر یہ لاگو کیا جاسکتا ہے سو کر دیا گیاجو انجکشن سرکاری ہسپتالوں کو فراہم کیے جاتے ہیں اس کا پورا میکنزم ہے جس کی حتمی منظوری سیکریٹری ہیلتھ دیتا ہے اس عمل میں صوبائ محکمہ صحت کے مجاز افسران بھاری کمیشن وصول کرتے ہیں جو نہ صرف سیکریٹری ہیلتھ تک جاتا ہے بلکہ صوبائ وزیر بھی حصہ دار ہوتے ہیں اب اگر غلط انجکشن سپلائ ہوا ہے تو اس کی زمہ دار یہ ساری چین ہے اصولی طور پر خانیوال ہسپتال میں انجکشن کے اس سٹاک کا لیبارٹری معائنہ کمپنی پر فرد جرم عائد کرنے کے لیے ضروری تھا لیکن مبینہ طور پر مجرمانہ طرز عمل کے تحت محکمہ ہیلتھ کے حکام نے اس سٹاک کو تلف کر دیا اس سے کمپنی کے خلاف کیس کمزور ہوگیا تاہم محکمہ صحت ان اموات کا زمہ دار ہے اور خانیوال کے محکمہ صحت کے حکام کمپنی کے شریک جرم بنتے ہیں نرس وہ اخری سرا ہے جس نے ڈاکٹر کی غیر موجودگی میں یا اس کے نسخے پر وہ انجکشن لگایا اس حادثے کے زمہ دار خانیوال سے لاہور تک ہیں جن کو کٹہرے میں لانے کی سکت ہمارے نظام میں ہے ہی نہیں اسی طرح ساہیوال میں بھی ٹیچنگ ہسپتال کے زمہ دار افسران سمیت لاہور تک تیرہ بچوں کی موت کے زمہ دار ہیں وزیر اعلیٰ پنجاب بھی اپنے چچا کی طرح بیوروکریسی کے آگے مجبور ہیں شاید کہ لیپا پوتی کے لیے بھی انہوں نے کو گرفتاریاں لرائیں وہ سیکریٹری ہیلتھ کی مداخلت پر ختم ہوگئیں یہ ضروری تھا اس لیے کہ اگر ٹیچنگ پسپتال کے پرنسپل ایم ایس کی گرفتاری سے ںات شروع ہوتی تو اس کا انجام خود سیکریٹری ہیلتھ پر ہی ہونا تھا اس لیے اس کہانی کو یہیں ختم کرنا ناگزیر تھاان سولہ معصوم بچوں کی ہلاکت نو مئی جتانا بڑا سانحہ نہ ہو لیکن ایسا سانحہ نہی کہ صوبائ وزیر یا سیکریٹری ہیلتھ کو جوابدہ بھی نہ بنایا جاسکے اور سیکریٹری ہیلتھ بھی وہ جو سات سال سے زائد عدصے سے پنجاب کے ہسپتالوں کے سیاہ سفید کا مالک ہے عوام کا بس ایک چھوٹا سا معصومانہ سوال ہے وزیر اعلیٰ کے لیے نہی بلکہ ان طاقتوروں کے لیے جو یہ نظام چلا رہے ہیں کہ یہ سولہ اموات اگر عام ادمی کے لیے قائم سرکاری ہسپتالوں کے بجائے مخصوص ہسپتالوں میں ہوتیں اورمرنے والے عام ادمی کے نہی بلکہ کسی اور کے بچے ہوتے تو طاقتور اس نظام اور اس کے زمہ داروں سے کیا سلوک کرتے؟؟؟؟ رہے نام اللہ کا۔