آج کل پاکستان میں چودہ سال سے بھی کم عمر بچے نسوار ای سگریٹ اور تمباکو نوشی طرف ذیادہ راغب ہو رہے ہیں اس کی کئی وجوہات ہیں جن میں دوستوں کے ساتھ شوق شوق میں سگریٹ نسوار گٹکا تمباکو نوشی یا ای سگریٹ شروع کرتے ہیں اور آہستہ آہستہ اس کے عادی ہو جاتے ہیں دوسری وجہ اپنے خاندان میں بزرگوں ۔رشتے دار کو دیکھ کر ترغیب حاصل کرتے ہیں اس عمر میں والدین کا فرض بنتا ہے کہ اپنے بچوں پر کڑی نظر رکھیں ان کے دوستوں کی تمام معلومات حرکات ان کے علم میں ہوں ۔حکومت کو چاہیے کہ نسوار و دیگر بغیر دھوئیں کے تمباکو مصنوعات پربھی ٹیکس لگایا جائے اور اشتہاری انتباہ کو لاگو کیا جائے ۔ملک میں 14 ملین سے زائد لوگ سموک لیس تمباکو جیسے نسوار، گٹکا پان وغیرہ کا استعمال کرتے ہیںپاکستان میں بے روزگاری اور مہنگاہی کی وجہ سے مزدور کے لئے دووقت کی روٹی مشکل ہو گئی ہے ۔چھوٹی چھوٹی عمر کے بچے بھی کسی نہ کسی وجہ سے ذہنی پریشان دکھائی دے رہے ہیں ۔دوسری طرف ایسی سوسائٹی مل جائے جو بس کہے کہ پریشانی کا حل سگریٹ ہے ۔یہاں ذہنی پریشانی ہو تو سگریٹ سے کم کی جا سکتی ہے ۔معدہ ٹھیک نہ ہو تو علاج سگریٹ ۔اور کچھ محفل میں بیٹھ کر شوقیہ سگریٹ پینا ۔ڈاکٹرز کے مطابق سگریٹ پینے کا کسی طور فایدہ نہیں ۔بلکہ نقصان زیادہ ہے جس سے خاص کر پھیپھڑوں کا سرطان، ٹی، بی،کینسر ۔سانس کی تکلیف بھی شامل ہے۔سگریٹ پینے والے کا تو نقصان ہے ہی مگر ساتھ بیٹھے دھواں جن تک پہنچ رہا ہے ان کو زیادہ نقصان ہے حکومت اس معاملہ میں بہت سنجیدہ ہےتمباکو سے جڑی بیماریاں سالانہ 160,000 سے زیادہ جانیں نگل رہی ہیں، عالمی ادارہ صحت اور عالمی بینک دونوں نے مسلسل پاکستان کو تمباکو پر ٹیکس بڑھانے کی سفارش کی ہے۔ایک اندازے کے مطابق پاکستان 31 ملین سے زائد لوگ تمباکو کا استعمال کرتے ہیں جن میں سے 17 ملین سگریٹ نوشی کی لت میں مبتلا ہیں جبکہ 14 ملین سے زائد لوگ سموک لیس تمباکو جیسے نسوار، گٹکا پان وغیرہ کا استعمال کرتے ہیں۔ اگر سموک لیس ٹوبیکو کو ٹیکس نیٹ میں لایا جائے تو حکومت پاکستان کو مالی فوائد ہوں گے تمباکو پراڈکٹ کی قیمتوں میں اضافہ کے باعث ان کا استعمال کم ہو گا اور تمباکو کے باعث ہونے والی بیماریوں میں کمی واقع ہو گی جس کے باعث صحت کے بجٹ پر بھی بوجھ کم ہونے کے امکانات بہت روشن ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ سموک لیس تمباکو مصنوعات جیسے نسوار وغیرہ کی برانڈنگ دیکھنے کو ملتی ہے اس کی بجائے ان کی پیکنگ پر وزارت صحت کی جانب سے جاری کردہ اشتہاری انتباۃ کو شائع ہونا چاہیئے۔سماجی تنظیمیں اس حوالہ سے بچوں اور نوجوانوں کو سگریٹ کے نقصانات اور بچاؤ کے لئے اہم کردار ادا کررہی ہیں ۔ کولیشن فار ٹوبیکو کنٹرول پاکستان (سی ٹی سی-پاک) 100 سے زائد انسداد تمباکو پر کام کرنے والی تنظیموں کا ملک گیر اتحاد ہے جن کے پراجیکٹ کو آرڈنیٹر سی ٹی سی- پاک ذیشان دانش ہیں یہاں ضرورت اس بات کی ہے کہ مرکزی اور صوبائی حکومتیں سموک لیس تمباکو مصنوعات جیسے نسوار، تارا ، چوائس وغیرہ پر تصویری انتباہ کو لاگو کرے اور ان مصنوعات پر ٹیکس لگائے ، اور سگریٹ کی طرح ان پر بھی مکمل قانون سازی کی جائے تاکہ ابہام کا خاتمہ ہو اور غیرقانونی تمباکو مصنوعات کے خلاف کریک ڈاون میں ان سموک لیس مصنوعات کو بھی چیک کیا جا سکے۔دوسری طرف حکومت اور سماجی تنظیموں کے علاوہ والدین پر بھی فرض ہے کہ وہ اپنے بچوں پر کڑی نظر رکھیں ۔کیونکہ سگریٹ ہی نشہ کا گیٹ وئے ہے جس سے بڑے بڑے گھر تباہ ہوتے دیکھے گئے ہیں نشہ کی وجہ سے رشتے ختم ہو جاتے ہیں نہ بہن بھائی۔ماں باپ۔دوست سسر ساس بیوی بچے سب رشتوں کی پہنچان بھول جاتا ہے یہ افراد سگریٹ کے ساتھ نشہ کرنے والے سڑکوں اور نالیوں کے کنارے مرتے دیکھا گیا ہے حقیقت یہ ہے کہ یہ دراصل غلط سوسائٹی کا ہی اثر ہے اس حوالے سے سابق ڈی پی او وہاڑی محمد عیسی خان کی خدمات قابل ستائش ہیں جو ہمیشہ یاد رہیں گی انہوں نے نشہ کرنے والے ساٹھ سے زائد معاشرے کے ٹھکرائے ہوئے افراد کا علاج معالجہ کرواکر ان کو تاجران اور دیگر سٹیک ہولڈرز کی مدد سے برسر روز گار کیا آج وہ باعزت شہری بن کر اپنی روز گار کما کر فیملی کے ساتھ اچھی زندگی بسر کر رہے ہیں آج ایک ڈی پی او وہاڑی عیسیٰ خان نے سٹیک ہولڈرز کے تعاون سے نا ممکن کو ممکن کر دکھایا ۔اصل ضرورت اس امر کی ہے کہ ۔حکومت کے اقدامات صرف اعلانات کی حد تک نہ ہو ں بلکہ ان پر عملدرآمد کرایا جائے ۔اج بھی تمام دفاتر میں سگریٹ نوشی کی جا رہی ہے اس کی سختی سے روک تھام کی جائے۔دوکاندار اٹھارہ سال سے کم عمر کے بچے کو سگریٹ نہ بیچیں ۔مگر یہ بھی عام بکتے دیکھا گیا ۔ای سگریٹ کا رواج عام ہوتا جا رہا ہے اس کے لئے حکومت لائحہ عمل تیار کریں اور ایک سگریٹ کنٹرول کمیٹی تشکیل دی جائے جو چیک اینڈ بیلنس رکھے ۔کیونکہ آج کے بچے کل کے روشن مستقبل ہیں اور اس مستقبل کی باگ دوڑ حکومت کے ساتھ ساتھ ہم سب کے ہاتھوں میں ہے لہذا اس لعنت سے چھٹکارا دلانے کے لئیے ہم سب کو اپنا فرض سمجھتے ہوئے کردار ادا کرنا پڑے گا ۔