صحت مند زندگی اور ذیابیطس

کیا اس مرض کو بڑھنے سے روکا جا سکتا ہے؟
گزشتہ پچاس ساٹھ برسوں میں ذیابطیس کے مرض میں تیز رفتاری سے اضافہ ہوا ہے۔ نا صرف ترقی پذیر ممالک بلکہ ترقی یافتہ ممالک بھی بری طرح اس مرض کی لپیٹ میں دکھائی دیتے ہیں۔ ذیابطیس کے پھیلاؤ کی کیا وجوہات ہیں؟ اور کیا اس مرض کو بڑھنے سے روکا جا سکتا ہے؟ آئیے دیکھتے ہیں کہ میڈیکل سائنس اس کے بارے میں کیا کہتی ہے؟انسولین کا بنیادی کام خون کے اندر گلوکوز لیول کو کنٹرول میں رکھنا ہے۔ اس کے علاوہ یہ پروٹین، لحمیات، وٹامن وغیرہ کے پیچیدہ کیمیائی عوامل کے لیے مددگار ہوتی ہے۔ گلوکوز دماغ اور کگر میں باآسانی جذب ہو جاتا ہے۔ یہدماغ کو توانائی فراہم کرتا ہے لیکن جسم کے دیگر سیلز کے اندر اس وقت تک جذب نہیں ہوتا جب تک انسولین سیل کو گلوکوز جذب کرنے میں مدد نہ دے۔ ذیابطیس ایک ایسا مرض ہے جو جسم کے اندر انسولین مقررہ مقدار سے کم یا زیادہ ہو جانے کے باعث ہوتا ہے۔ذیابیطس کی دو اقسام ہیں: انسولین ڈیپینڈنٹ انسولین: جب جسم کے اندر انسولین بننا بالکل بند ہو جائے تو یہ انسولین ڈیپینڈنٹ ذیابطیس کہلاتی ہے۔ اس پہلی قسم بھی کہا جاتا ہے۔ اسولین کی غیر موجودگی میں جسم کے سیل کسم کے اندر موجود چربی سے توانائی لینے پر مجبور ہو جاتے ہیں جس کی وجہ سے جسمانی کمزوری میں اضافہ ہوتا رہتا ہے اور مریض کمزور سے کمزور ہونے لگتے ہیں۔نان انسولین ڈیپینڈنٹ انسولین: اس قسم میں لبلبہ انسولین کو خارج تو کرتا ہے لیکن مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ سیل اس کو جذب نہیں کرتے۔ یہ ذیابطیس کی دوسری قسم یعنی ٹائپ ٹو بھی کہلاتی ہے۔ ذیابطیس کے مریضوں کی بڑی تعداد ٹائپ ٹو میں مبتلا ہوتی ہے۔ یہ تعداد کل مریضوں میں تقریباً نوے سے پچانوے فیصد تک ہوتی ہے جبکہ صرف پانچ سے دس فیصد لوگ ٹائپ ون میں مبتلا ہوے ہیں۔ ٹائپ ٹو کیوں زیادہ ہے؟اس کے زیادہ عام ہونے کی بڑی وجہ غذا لینے میں لا پرواہی ایسے ہے۔ تمام لوگ جو بیس سال یا اس سے زیادہ عرصے اپنی غذا کے معاملے میں لاپرواہی کے مرتکب اکثر ہوتے ہیں۔ لوگ چھنا ہوا کاربوہائیڈریٹ استعمال کرتے ہیں مثلاً سفید سفید، روٹی، چاول، فتیری آٹا (بغیر خمیر کے آٹا) وغیرہ ایسی غذاؤں سے ذیابطیس ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ذیابطیس کا غذا سے علاج ممکن ہے؟غذائی ماہرین کا کہنا ہے کہ صحت بخش غذا اور باقاعدہ ورزش کے ذریعے ذیابطیس سے بہت حد تک چھٹکارا پایا جا سکتا ہے۔ اچھا کھانا لینے کا مقصد یہ نہیں ہے کہ پروٹین کی مقدار زیادہ اور کاربوہائیڈریٹ کو کم کیا جائے بلکہ سبزیوں کو اپنی غذا میں شامل کریں جو گلوکوز کی بہت کم مقدار فراہم کرتی ہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق اگر غذا میں سے کاربوہائیڈریٹ کو بالکل ختم کر کے اس کی جگہ پروٹین اور چربی کو دے دی جائے تو ذیابطیس کا مرض بہت جلد لا حق ہو سکتا ہے۔ اگر غذا میں معدنیات کو بڑھا دیا جائے جن میں وٹامن، میگنیشیم، بی کرومیم اور اومیگا تھری تیل (جو مچھلیوں میں ہوتا ہے) شامل ہوں تو انسولین کی سیل میں جذب ہونے کی صلاحیت بڑھائی جا سکتی ہے۔ غذا میں کابوہائیڈریٹ کی مقدار کم ہونے کی صورت میں تین سے چھ ماہ میں وزن میں کمی ہونے کے ساتھ ساتھ بلڈ شوگر لیول اور انسولین کا لیول بھی کم ہو جاتا ہے۔اگر ورزش کو باقاعدگی سے اپنا لیا جائے اور کچھ دیر تک پیدل چلا جائے تو ذیابطیس کے مرض میں جلد افاقہ ہو جاتا ہے۔ ایک برطانوی ریسرچ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ اگر رازمرہ کی غذا میں سبز پتوں والی سبزیاں شامل کی جائیں تو ذیابطیس میں مبتلا ہونے کا امکان کم ہو سکتا ے۔ پھلوں اور سبزیوں کے استعمال سے متعلق چھ مختلف جائزوں سے معلوم ہوتا ہے کہ پالک اور بند گوبھی نے اس سلسلے میں سب سے زیادہ مثبت کردار ادا کیا۔برٹش میڈیکل جرنل کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دن بھر میں اگر ان سبزیوں کا ڈیرھ پورشن استعمال کیا جائے تو ٹائپ ٹو ذیابطیس کا خطرہ چودہ فیصد تک کم ہوسکتا ہے تاہم ماہرین نے کہا ہے کہ صرف ان ہی سبزیوں پر اکتفا نہ کیا جائے بلکہ دن بھر میں مختلف پھلوں اور سبزیوں کے پانچ پورشنز استعمال کیے جائیں۔ ایسیسٹر یونیورسٹی کے ریسرچز نے اس ضمن میں دو لاکھ بیس ہزار باغ افراد کی غذائی عادات اور ان کی صحت سے متعلق کوائف کا جائزہ لیا جس میں دیکھا گیا تھا کہ عمومی طور پر تمام پھلوں اور سبزیوں کے استعمال سے صحت پر بہتر اثرات مرتب ہوئی تھے تاہم سبز پتوں والی سبزیوں کے استعمال سے جس میں بروکلی اور پھول گوبھی کو بھی شامل کیا گیا تھا، ذیابطیس ٹائپ ٹو کی روک تھام میں بڑی مدد لی۔ ریسرچ ٹیم نے حساب لگایا ہے کہ اگر ان مخصوص سبزیوں کی روزانہ 106 گرام مقدار استعمال کی جائے تو ذیابطیس کا خطرہ چودہ فیصد کم ہو سکتا ہے۔واضح رہے کہ ایک برطانوی “پرشن” اسی گرام کے لگ بھگ سمجھا جاتا ہے۔ یہ بات اگرچہ واضح نہیں ہو سکی ہے کہ سبز پتوں والی سبزیاں صحت کے یئ اس قدر مفید کیوں ہیں لیکن ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ ان سبزیوں میں وٹامن سی جیسے اینٹی آکسیڈینٹس کی بھر مار ہوتی ہے۔ یہ ایک دوسرا نظریہ ہے کہ اس قسم کی سبزیوں میں میگنیشیم کی سطح بھی کافی بلند ہوتی ہے۔ ذیابطیس کے مرض میں انسولین کے نظام میں خرابی کے سبب جسم میں شوگر کی مقدار بڑھنے لگتی ہے اور جسم میں مختلف پیچیدگیاں پیدا ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ ذیابطیس کی وجہ سے مختلف کمزوریوں پر قابو پانے کے لیے وٹامن اور فوڈ نیچرل سپلمنٹ وغیرہ دیے جاتے ہیں۔ وٹامن وہ اجزاء ہین کو نہایت کم مقدار میں جسم کے مختلف افعال کے لیے درکار ہوتے ہیں۔ ان وٹامن کی کمی ہو تو مختلف بیماریاں پیدا ہوتی ہیں۔ وٹامن دو طرح کے ہوتے ہیں۔ پانی میں حل ہونے والے وٹامن اور چکنائی میں حل ہونے والے وٹامن۔ ان وٹامنز کا فرق سمجھنا اس لیے ضروری ہے کہ چکنائی میں حل ہونے والے وٹامن جسم میں ذخیرہ ہوتے ہیں اور ضرورت سے زیادہ استعمال سے ان کے زہریلے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ پانی میں حل ہونے والے وٹامن جسم میں ذخیرہ نہیں ہوتے اور اگر ان کو ضرورت سے زیادہ لے بھی لیا جائے تو عموماً ان کے منفی اثرات مرتب نہیں ہوتے کیوںکہ یہ جسم سے خارج ہو جاتے ہیں۔ ایک متوازن غدا میں تمام ضروری وٹامن موجود ہوتے ہیں اور زیادہ تر افراد کو الگ سے ان وٹامن کے استعمال کی ضرورت نہیں ہے۔ کوئی بھی وٹامن باہر سے لینا اسی صورت میں فائدہ مند ہو سکتا ہے جب جسم میں واقعی اس وٹامن کی کمی ہو۔ذیابطیس کے مریضوں کے لیے اجتنابی فواکہ اور سبزیاںذیابطیس کے مریضوں کو مخصوص طرح کی غذائیں منتخب کرنی چاہیے تاکہ ان کی صحت میں بہتری آئے۔ ایک اہم حقیقت ہے کہ کچھ فواکہ اور سبزیاں ہیں جو شوگر کے مریضوں کے لیے مناسب نہیں ہوتیں، ان کی وجہ سے شوگر کی سطح بڑھ سکتی ہے۔ یہاں کچھ فواکہ اور سبزیوں کی فہرست ہے جن کو ذیابطیس کے مریضوں کو استعمال سے بہتر بچانا ہے۔شہتوت: شہتوت میں زیادہ مقدار میں کاربوہائیڈریٹس ہوتے ہیں جو شوگر کی سطح کو بڑھا سکتے ہیں۔ اس لیے ذیابطیس کے مریضوں کو شہتوت کے استعمال سے اجتناب کرنا چاہیے۔ چکوترا: چکوترے میں بھی زیادہ مقدار میں کاربوہائیڈریٹس پائے جاتے ہیں، جو شوگر کی سطح کو بڑھا سکتے ہیں۔کیلے: کیلے بھی شوگر کے مریضوں کے لیے زیادہ مقدار میں کاربوہائیڈریٹس پائے جاتے ہیں، جو کہ ان کی صحت کو متاثر کر سکتے ہیں۔آلو: آلو میں بھی کاربوہائیڈریٹس کی مقدار زیادہ ہوتی ہے، اسلیے شوگر کے مریضوں کو اس کا استعمال کم کرنا چاہیے۔گاجر: گاجر میں بھی شوگر کی سطح کو بڑھانے کے ممکن امکانات ہوتے ہیں، اس لیے ذیابطیس کے مریضوں کو گاجر کا زیادہ استعمال نہیں کرنا چاہیے۔پانی میں حل ہونے والے وٹامن:اس گروپ میں تمام وٹامن بی اور سی موجود ہیں۔ ماہرینِ صحت کا کہنا ہے کہ وٹامن بی 12 کی کمی کی وجہ سے صحت کے کئی مسائل جنم لیتے ہیں۔ ڈاکٹروں کے خیال میں ذیابطیس میں لی جانے والی کچھ ادویات وٹامن بی 12 کی کمی کا بھی سبب بنتی ہیں۔ایسے مریض جو طویل عرصے سے دوائیں استعمال کر رہے ہوں، انہین بی 12 کے خون کا ٹیسٹ کروا لینا چاہیے۔ صرف سبزیاں کھانے والے افراد میں اس وٹامن کی کمی ہو سکتی ہے۔ وٹامن بی کے قدرتی ذرائع میں سی، انڈے، پنیر، مچھلی، چھاچھ، دودھ، پولٹری، دلیہ، فوڈز اور بیف شامل ہیں۔ وٹامن سی پھلوں سے حاصل ہوتا ہے۔ روزمرہ کی خوراک میں مختلف پھلوں اور سبزیوں جیسے لیموں،لہسن، پیاز، پالک، خربوزہ، آم، انگور، کینو، وغیرہ شامل کر کے وٹامن سی کی کمہ کو پورا کیا جا سکتا ہے۔ وٹامن سی کی کمی سے جلد اور خون کی نالیوں پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں اور مسوڑھوں سے خون آنے کی شکایت پیدا ہوتی ہے۔ ذیابطیس کے مریضوں میں دانتوں اور مسوڑھوں کی بیماریاں دیگر افراد سے زیادہ پائی جاتی ہیں، اس لیے ان مریضوں کو وٹامن سی سے بھر پور غذا استعمال کرنی چاہیے۔ چکنائیوں میں حل ہونے والے وٹامن:ان میں وٹامن ڈی، اے اور ای شامل ہیں۔ وٹامن اے جلد کی صحت کے لیے اہم ہے۔ وٹامن ای سے اعصابی نظام درستگی سے کام کرتا ہے۔ وٹامن سے خون کو جمنے میں مدد ملتی ہے ورنہ زخم کی صورت میں خون جمتا نہیں ہے اور بہتا رہتا ہے۔ ہر وٹامن ایک ضروری کام انجام دیتا ہے۔ جدید ریسرچ میں وٹامن ڈی کی کمی کو میٹابالک سنڈوم سے جوڑا گیا ہے۔ چکنائیوں میں حل ہونے والے وٹامن چونکہ جسم میں ذخیرہ ہوتے ہیں، لہٰذا ان کو ضرورت سے زیادہ لینا صحت کے لیے مضر ہو سکتا ہے۔غذائی ماہرین کا کہنا ہے کہ انسولین کی زیادہ مقدار ذیابطیس کی بیماری کے علاوہ بھی دیگر پیچیدگیوں کا سبب بن سکتی ہے جن میں کوریسٹول (ہارمون اسٹروائیڈ) کا بڑھنا موٹاپے کا سبب بنتا ہے، کولیسٹرول اور اسٹروجن کی کم مقدار کی وجہ سے پولی سسٹک اووریز بنتی ہیں (زیادہ کولیسٹرول کی وجہ سے پولی سسٹک اووریز ایسٹروجن کا اخراج کرتی رہتی ہیں۔ اس طرح ایسٹروجن کی مقدار کم ہو جاتی ہے)۔ یہی پولی سسٹک اووریز عورتوں میں بانجھ پن پیدا کر سکتی ہیں۔ ذیابطیس کی وجہ سے قوت بصارت میں واضح کمی آ سکتی ہے اور عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ آنکھوں کی کمزوری کا اندیشی بھی بڑھ جاتا ہے۔ذیابطیس کے مریض پوچھتے ہیں؟ذیابیطس کے مریضوں میں پھلوں کے استعمال سے متعلق کچھ ابہام پائے جاتے ہیں۔ اگر وہ ماہرین غذائیت اور معالجین سے پھلوں کی تفصیل معلوم کر لیں یا گوگل پر بھی تلاش کر لیں کہ شوگر کو کنٹرول کرنے میں کون کون سے پھل مدد دے سکتے ہیں تو ان کی پریشانی کم ہو سکتی ہے۔خربوزہ: پورا خربوزہ ساڑھے آٹھ گرام شوگر رکھتا ہے تو اس پھل کے چند ٹکڑے کھانا ہی مفید ہوگا کیونکہ پرا خربوزہ مریضوں کے لیے نا مناسب مقدار ہے۔کیوی: کیوی ایک ترش، لیمونی اور ذائقہ دار پھل ہے۔ اس سے آپ کو صرف چھ گرام شوگر ملے گی۔آواکادو: اگر آپ کو یہ پسند ہے تو آپ ایک چھوٹے سائز کا پھل کھا سکتے ہیں کیوںکہ اس میں موجود 1۔3 گرام شکر کطرہ نہیں بنتی۔تربوز: یہ پھل آپ ایک چائے کی پیالی کی مقدار میں کھا سکتے ہیں۔ اس میں نو گرام شکر موجود ہے۔رس بھری: اس میں پانچ گرام تک شوگر ملتی ہے یہ بھی اگر ایک پیالی کے برابر لی جائے۔اسٹرابیریز: اس میں ایک پیالی کی مقدار لے کر کھائی جا سکتی ہے جسمیں چھ یا سات گرام شکر ملتی ہے۔مالٹا: اس میں بارہ گرام شوگر موجود ہے۔انگور: بے شک انگور آپ کو پسند ہو سکتے ہیں مگر آپ کو چار سے چھ دانے کھانے ہی ضروری ہیں۔ کیونکہ پورے ایک گچھے میں اٹھارہ عشاریہ ایک گرام شکر ہے جو مضر صحت ثابت ہو گی۔انار: پورے ایک درمیانے حجم کے انار میں دس عشاریہ ایک گرام شکر موجود ہے جو مریضوں کے لئے مناسب مقدار نہیں لہٰذا آپ تین سے چار چائے کے چمچ کے برابر انار دانے کھا سکتے ہیں۔بلیک بیریز: یہ بھی ایک پیالی کے برابر لی جائیں تو سات گرام کے قریب شوگر جسم میں جاتی ہے۔
پپیتا : نظام ہاضمہ درست رکھنے کے لئے پپیتے جیسا پھل بے حد معاون ہوتا ہے آپ ہفتے میں دو ایک بار آدھا کپ کے برابر پپیتا کھا سکتے ہیں۔ اس پھل میں چھ عشاریہ ایک گرام شکر ہے۔سیب : آدھا کپ سیب مناسب خوراک ہے کیونکہ پورے سیب میں پانچ عشاریہ سات گرام شکر ہے اور یہ مقدار ذیابیطس کے مریضوں کے لئے مفید نہیں۔آڑو: ایک درمیانے آڑو میں انتالیس کیلوریز ہوتیت ہیں جبکہ پانچ عشاریہ ایک گرام شکر پائی جاتی ہے۔انناس: انناس آپ کو اچھا تو لگتا ہوگا مگر شوگر کے مریض اس کا ایک ہی پھانک کھائیں تو اچھا ہوگا کیوںکہ اس پورے پھل میں گیارہ عشاریہ ایک گرام تک سکر پائی جاتی ہے۔احتیاطی تدابیر کچھ پھل انتہائی مٹھاس رکھتے ہیں ان میں آم سرفہرست ہیں۔ عموماً سب ہی آم شوق سے کھاتے ہیں مگر شوگر کے مریضوں کو خاص احتیاط کرنی ضروری ہے۔ اپنے معالج سے معلوم کر لیں کہ کیا ایک ٹکڑا کھانا مفید ہو گا؟ اسی طرح کھجور ایک عدد کھانے میں تو مضائقہ نہیں مگر چار چھ دانے کھانا مضر ہو سکتا ہے۔