عدل و انصاف

دنیا میں ترقی کرنے کا ایک ہی راز ہے کہ ملک میں عدل و انصاف کا بول بالا ہو جس ملک میں عدل و انصاف کا بول بالا ہوتا ہے وہ ملک ترقی بھی کرتا ہے اور آگے بھی بڑھتا ہے۔ گزشتہ یوم قائم مقام چیف جسٹس شجاعت علی خان نے حلف اٹھانے کے بعد پروٹوکول نہ لیا بلکہ انصاف اور جلد فیصلوں پر زور دیا۔ سید منصور علی شاہ کے دور میں شروع کیے گئے مصالحتی نظام کو فعال کرنے کے ساتھ ساتھ ڈسٹرکٹ جوڈیشری کے ججز کی ٹرانسفر پوسٹنگ کے لیے بھی آسانی پیدا کر دی۔ چیف جسٹس کے حکم کے مطابق لاہور ہائی کورٹ لاہور کی کانفیڈینشل برانچ ون نے ایک حکم نامہ جاری کیا ہے کہ جتنے بھی ججز پنجاب میں انصاف فراہم کرنے کا کام سر انجام دے رہے ہیں وہ اپنی مرضی کے شہر میں تعیناتی کیلئے06.29.2024 تک اپنی درخواست لاہور ہائی کورٹ رجسٹرار کے دفتر تک پہنچائیں. درخواست سیشن جج کے ریمارکس کے ساتھ بھجوانی ہوگی ۔ دو مختلف شہروں میں پوسٹڈ ججز ایک دوسرے کی رضامندی سے ایک شہر سے دوسرے شہر میں ٹرانسفر پوسٹنگ کرا سکتے ہیں۔ اس کے لیے دونوں ججز کو لاہور ہائی کورٹ درخواست گزارنی ہوگی اس درخواست پر عمل کرتے ہوئے ان کی ٹرانسفر پوسٹنگ کا فیصلہ کر دیا جائے گا۔ اسی طرح اگر کوئی ایک جج کسی دوسرے شہر میں ٹرانسفر پوسٹنگ کرانا چاہتا ہے تو وہ اپنی درخواست میں کسی بھی تین شہروں کے نام لکھے گا اور اپنی درخواست لاہور ہائی کورٹ میں بھجوا دے گا اور اس پر فیصلہ ہو جائے گا۔ یہ پہلی دفعہ ایسا ہوا ہے لاہور ہائی کورٹ کی تاریخ میں کہ اتھارٹی نے حکم دیا ہے کہ اپنی مرضی کے شہر بتائیں اور ٹرانسفر پوسٹنگ کرائیں۔ یہ اتنا سارا ریلیف دینے کے پیچھے ایک ہی عمل کار بند ہے اور وہ ہے جلد فیصلے۔ قائم مقام چیف جسٹس کی خواہش ہے کہ عوام کو جلد سے جلد انصاف فراہم کیا جائے اگر چہ ہر سال لاکھوں مقدمات کے فیصلے پنجاب کے ججز کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود بھی مقدمات کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ یہ جو قائم مقام چیف جسٹس کی موجودگی میں ہونے والی تعیناتیاں ہیں یہ ساری تعیناتیاں پنجاب جوڈیشل سروس ٹرانسفر پالیسی 2017 کے مطابق ہونگی۔ ٹرانسفر پالیسی پہلے تو موجود نہیں تھی 2017 میں پالیسی بنائی گئی۔ پالیسی کے مطابق سیشن جج اور سنیر سول جج کا عرصہ تعیناتی ایک سال ، ایڈیشنل سیشن جج کا دو اور سول جج کا ڈھائی سال ہوگا ۔پالیسی کے مطابق کسی بھی ایڈیشنل سیشن جج اور سنیر سول جج کی ایک ہی شہر میں دوسری دفعہ تعیناتی نہ ہو سکتی ہیں۔ ہاں سول جج نے اگر آدھے سے کم عرصہ گزارا ہو تو ہو سکتی ہے یا پانچ سال کا عرصہ گزر گیا ہو تو بھی سول جج کی اسی شہر میں دوبارہ تعیناتی ہو سکتی ہے۔ اگر کسی جج کی زمین کسی شہر میں ہے یا اس کے سسرال والے رہتے ہیں یا جج خود پانچ سال سے کسی شہر میں رہ رہا ہو تو اس شہر میں اس کی تعیناتی نہیں ہو سکتی ۔ لاہور کے رہنے والے مرد ججز اپنے ہی شہر میں تعیناتی کروا سکتے ہیں۔ جو خواتین ہیں لاہور فیصل آباد ملتان، راولپنڈی کی رہنے والی ان کی بھی اپنے شہر میں تعیناتی کی جا سکتی ہے۔ غیر شادی شدہ خواتین کی جائے تعیناتی کا فاصلہ اور ان کے ڈومیسائل کی رہائش کا فاصلہ 200 کلومیٹر سے زائد نہیں ہوگا اور یہ ترجیح خواتین کو دی جائے گی۔ جج کے بیمار خاوند،بیوی ،والدین، سسرال اور بچوں کے علاج کے لیے بھی ٹرانسفر کی جاسکتی ہے۔ معذور ججز کو انکی مرضی کے شہر میں تعیناتی کی جاسکتی ہے ۔ بچوں کے امتحانات کو بھی ٹراسفر کے وقت مدِنظر رکھا جائے گا ۔ اگر میاں بیوی دونوں جج ہیں تو ایک ہی شہر ضلع یا ڈویژن میں تعیناتی کی جائے گی۔
ہماری دعا ہے کہ قائم مقام چیف جسٹس لاہور جو بھی انصاف کے جلد فیصلوں کے لیے کوشش کر رہے ہیں اللہ تعالیٰ اسے اپنی بارگاہ میں قبول و منظور فرمائے۔ قائم مقام چیف جسٹس کو تندرستی اور صحت عطا فرمائے۔ اور اس ملک میں دن رات محنت سے ججز کام کر رہے ہیں ان کو تندرستی اور صحت عطا فرمائے۔ اور اس ملک کے مشکل حالات میں سے ملک کو نکالے اس ملک کی معاشی ترقی بہتر ہو اس ملک کا ہر بچہ تعلیم حاصل کرے ہر انسان کو عدل و انصاف کی فراہمی میں آسانی ہو۔ امین