قومی کھیل ہاکی کا سفر عروج و زوال

ہاکی دنیا کا قدیم اور مقبول کھیل ہے پاکستان میں ہاکی کو قومی کھیل کا درجہ 1960 کے روم اولمپکس میں سونے کا تمغہ جتنے پر صدر ایوب خان نے دیا تھا پاکستانی ہاکی ٹیم ماضی میں اول نمبر ٹیم رہی ہے قیام پاکستان کے بعد جس کھیل کی بدولت جہاں بھر میں پاکستان کا نام روشن اور سبز ہلالی پرچم سر بلند رہا تو وہ ہاکی ہے ۔ پاکستان کے مایا ناز کھلاڑیوں نے ہاکی کے معیار کو جس اعلی سطح تک پہنچایا اس کی کوئی مثال نہیں ملتی جنہوں نے حسن سردار کو کھیلتے دیکھا ہے انہوں نے گویا فطرت کو اپنے جمال کے ساتھ مشہود ہوتے دیکھا ہے ایک بے مثل مصور کی تصویر کو دیکھا ہے جس نے کمال مہارت کے ساتھ اپنے رنگ کھیل کے میدان میں بکھیر دیے تھے جیسے ایک نغمہ دلکش سماعتوں کو مسحور کر دے جیسے کوئی مجسمہ تراش کر آپ کے سامنے رکھ دے اور آپ اس کے حسن کو دیکھ کر ورتہ حیرت میں ڈوب جائیں دنیا نے فی الواقع انگلیاں دانتوں میں داب لیں اور کہا “یہ تو ساحر ہے ” یہی معاملہ فلائنگ ہارس سمیع اللہ ۔ اصلاح الدین اختر رسول آرٹسٹ آف ہاکی منظور جونیئر منظور حسین عاطف ذکا الدین منیر ڈار رشید جونیئر شہناز شیخ اور میرا ڈونا آف ہاکی شہباز سینئر کا بھی تھا ہمارے ان عظیم کھلاڑیوں نے اپنی مہارت کھیل کی بدولت نہ صرف دنیائے ہاکی میں اپنا لوہا منوایا بلکہ فیلڈ ہاکی کے تمام عالمی اعزازات جیت کر وطن عزیز کے نام اور وقار کو چہار دانگ عالم روشن کیا ۔ ان کھلاڑیوں کے شاندار کھیل کی بدولت پاکستان نے ہاکی کا عالمی کپ چار بار جیتا ہے ہاکی اولمپکس میں تین بار سونے کا تمغہ حاصل کیا ہے ایشیائی کھیلوں میں اٹھ مرتبہ سونے کا تمغہ جیتنے کا اعزاز حاصل کیا ہے تین بار چیمپین ٹرافی تین مرتبہ ایشیا ہاکی کپ ایک بار عالمی جونیئر ہاکی کپ تین بار ازلان شاہ کپ جیتا ہے دولت مشترکہ کھیلوں میں ایک بار دوسری اور ایک مرتبہ تیسری پوزیشن کا تمغہ جیت رکھا ہے تین بار ایشین چیمپین ٹرافی جیتی ہے اور جونیئر ایشیا کپ تین مرتبہ جتا ہے دنیائے ہاکی میں سب سے زیادہ اعزازات بھی پاکستان کے پاس ہیں پاکستان نے 76 سالوں میں ہاکی میں 85 میڈل حاصل کیے ہیں قومی ٹیم نے 32 مرتبہ اول پوزیشن 30 بار دوسری پوزیشن اور 23 مرتبہ تیسری پوزیشن حاصل کر کے وکٹری سٹینڈ پر کھڑے ہو کر وطن کا نام روشن اور سبز ہلالی پرچم سر بلند کیا ہے علاوہ ازیں یاکی میں سب سے زیادہ گول کرنے کا عالمی اعزاز بھی پاکستان کے مایا ناز کھلاڑی سہیل عباس کے پاس ہے جنہوں نے 348 گول کر کے عالمی ریکارڈ بنایا ہے جو کہ ابھی تک قائم ہے ہاکی کے یہ عظیم کھلاڑی ہماری تہذیب کا بھی ایک نمونہ تھے سکینڈلز سے پاک صاف ستھری زندگی متانت اور وقار سے مزین کردار کسی مذہبی یا سیاسی بحث کا حصہ نہ کسی اختلاف کا موضوع کسی گوری سے وابستہ دل فریب داستانیں نہ کرپشن نہ کا کوئی سکینڈل نہ پیسوں کی ریل پیل جو سر مستیوں کا راستہ دکھاتی ہے اور نہ وہ افلاس کہ عزت نفس مجروح ہونے لگے ۔ ہمارے ان کی عظیم کھلاڑیوں نے اپنے بے مثل کھیل کی بدولت تمام عالمی اعزاز جیت کر پاکستان کے نام کر دیے مگر اسی تفاخر کا اظہار نہ نرگسیت کا مرض دکھائی دیا مگر پھر یہ سب قصہ پارینہ بنتا چلا گیا کوئی حسن سردار کی جگہ لینے آیا نہ سمیع اللہ کا جانشین پیدا ہوا کوئی دوسرا اصلاح الدین بال سے اٹھکھیلیاں کرتا نظر ایا اور نہ کوئی کلیم اللہ منظور جونیئر اور شہباز سینیئر کی طرح میدان میں بھاگتا ہوا ڈارجنگ ڈربلنگ اور پاسنگ کر کے مخالف ٹیم کو تگنی کا ناچ نچاتے ہوئے ان کا دفاعی حصار پاش پاش کرتا ہوا دکھائی دیا اور نہ ہی کوئی دوسرا سہیل عباس اپنی زوردار پش اور ہٹ سے حریف ٹیم کا گول پوسٹ کھڑکاتا ہوا نظر آیا ۔ اللہ تعالی کے کارخانہ قدرت میں ہر زمانے میں عظیم لوگ پیدا ہوتے ہیں یہ سلسلہ کبھی بند نہیں ہوتا اللہ تعالی ہر زمانے کو بڑے لوگوں سے نوازتا ہے اور سوائے رسالت و نبوت کے ہر در کھلا ہے یہ سماج اور ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے لوگوں کو تلاش کر کے ان کی صلاحیتوں کی تہذیب کرے اور ان کے جوہر سامنے لا کر ملک و قوم کے مفاد میں استعمال کرنے کے لیے مثالی ماحول مہیا کرے مگر افسوس ہماری ریاست نے کرکٹ کے سوا باقی تمام کھیلوں کو فروغ دینے میں اپنی ذمہ داریاں نہیں نبھائی ہیں ماضی میں ہاکی اور سکواش میں ہمارے کھلاڑیوں کا ڈنکا بجتا تھا لیکن پھر ان کے ساتھ سوتیلی اولاد والا سلوک کیا گیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہم ان تمام عالمی عزازات سے محروم ہو گئے جن پر کبھی پاکستان کا نام لکھا تھا موجودہ صورتحال یہ ہے ہم ہاکی اور سکواش میں گزشتہ تین عشروں سے عالمی اعزازات سے محروم ہیں دیگر کھیلوں کا بھی بہت برا حال ہے ان کی عدم سرپرستی فیڈریشنوں کی میرٹ کی پامالی ذاتی پسند و تعلق کی بنیاد پر کھلاڑیوں کا چناؤ کھلاڑیوں کے معاشی مسائل نوکریاں نہ ملنا عالمی معیار کی سہولتیں اور تربیت میسر نہ ہونا اور میڈیا کی بے اعتنائی کی وجہ سے پاکستان میں ہاکی سمیت تمام کھیل روبہ زوال ہیں زندگی میں توازن بہت ضروری ہے عدم توازن زندگی اور سماج میں بگاڑ اور مسائل پیدا کرتا ہے کسی ریاست یا معاشرے میں اتنی اخلاقی قوت ضرور ہونی چاہیے کہ وہ سرمائے یا کسی دوسری قوت کا دباؤ برداشت کرتے ہوئے اپنی ترجیحات کا رخ درست رکھ سکے حکومت و ریاست کو کرکٹ کے ساتھ ساتھ دیگر کھیلوں پر بھی بھرپور توجہ دینی چاہیے اور ریاست کے ڈارلنگ کھیل کرکٹ کی امریکہ میں جاری ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ میں کارکردگی بھی سب کے سامنے آشکار ہو چکی ہے ایک عرصہ طویل کے بعد ہاکی کے میدان میں متاثر کن کارکردگی کا مظاہرہ دیکھنے کو ملا گزشتہ ماہ مئی میں ملائشیاء میں 30واں ازلان شاہ ہاکی کپ کھیلا گیا جس کے فائنل میں پاکستان پنلٹی شارٹ اؤٹ پر جاپان سے ہار گیا لیکن کھلاڑیوں نے 13 سال بعد فائنل تک رسائی حاصل کر کے جس طرح شاندار کھیل پیش کیا ہے اس سے کھلاڑیوں نے قوم کے دل جیت لیے نہ کافی سہولیات اور معاشی مسائل کے باوجود اس قدر متاثر کن کھیل پیش کر کے ہمارے نوجوان کھلاڑیوں نے یہ ثابت کیا کہ
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت سے خیز ہے ساقی
وزیراعظم پاکستان شہباز شریف نے قومی ٹیم کے لیے تقریب پزیرائی سجائی اور کھلاڑیوں کو گراں قدر انعامات سے نوازا اسی طرح وزیراعظم کی بھتیجی مریم نواز وزیراعلی پنجاب نے بھی قومی کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کے لیے انعامات دیے واقع امر یہ ہے کہ ستائش اور سرپرستی کا یہ سلسلہ جاری رکھا جائے اور حکومت ہاکی کھلاڑیوں کے معاشی مسائل حل کرے اور ان کو نوکریاں دے اور ہاکی فیڈریشن اور ٹیم انتظامیہ میں نور خان اور منظور عاطف جیسے زیرک اور کھیل کا ادراک رکھنے والے لوگ شامل کیے جائیں ملک میں ہاکی کے فروغ کے لیے اقدامات کیے جائیں ہاکی کا ملکی ڈھانچہ درست کیا جائے اور میرٹ پر کھلاڑیوں کا انتخاب کیا جائے میڈیا سمیت تمام سٹیک ہولڈر یکسو ہو کر کھیل کے فروخ کے لیے اپنا کردار دلجمی سے ادا کریں تو انشاءاللہ آنے والے وقت میں بہت جلد ہمارے کھلاڑی اپنے بہترین کھیل کی بدولت تمام عالمی اعزازات جیتنے ملک کا نام روشن اور سبز ہلالی پرچم سر بلند کرنے کے قابل ہو جائیں گے۔
پھر سے چل پڑا عزم و ہمت کا نشاں
جدت کا کارواں ہے نوجوان
چھو لو آسمان تم ہو پاکستان
رستہ دکھائیں گے ہم ہمت بندھائیں گے ہم
اونچی بھرو اڑان اے نوجوان
نازاں یہ سرزمین ہے تم پر اسے یقین ہے
بن جاؤ اس کا مان اے نوجواں
چھو لو اسماں تم ہو پاکستان