سیاسی اور معاشی عدم استحکام ہر ملک میں آتا ہےمگر لوگ ان حالات میں بھی ایک دوسرے کا احساس کرنا نہیں چھوڑتے۔مجبور کی مجبوری سے فائدہ نہیں اٹھاتے۔ہمارے ملک کا المیہ ہے کہ یہاں ہر شعبہ کے لوگ اپنے مفاد کےلیے دوسروں کو روندنے سے بھی نہیں گھبراتے اور جہاں اپنا مفاد ہو،وہاں حکومت کا ساتھ دیتے بھی نظر آتے ہیں اور اکثر عوامی مسئلے پر خاموشی اختیار کر لیتے ہیں۔گزشتہ دنوں فیس بک پر کسی نے لکھا’’جب چاول 130 سے یکدم 350 تک پہنچا تو زمیندار نہیں چیخا۔دو ہزار والی کپاس 6 ہزار تک پہنچنے پر زمیندار نہیں چیخا۔پچھلے سیزن میں 4 ہزار سرکاری ریٹ والی گندم غریب کو ٹکا کر 5500 روپے بیچنے والے زمیندار اور آڑھتی آج گندم کا ریٹ کم لگنے پر کیوں رو رہے ہیں۔پچھلے سال غریب کا جو خون چوسا تھا اور ڈنکے کی چوٹ پر چوسا تھا۔اس کا حساب کون دے گا‘‘۔یہ تصویر کا دوسرا رخ ہے،گزشتہ سال کسان نے چار ہزار روپے من پر گندم فروخت کی تھی تو اس بار تین ہزار پر اتنا شور واویلا کیوں۔ایک ہزار کے فرق سے کیا ہوا۔فرض کریں کسان کو گزشتہ سال 1500 منافع ہوا تھا تو اس بارپانچ سو روپےہوگیامگر کیا وہ ان لاکھوں،کروڑوں لوگوں سے بہتر نہیں ہیںجو خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔یہ لالچ ہی ہے جو انسان کو اپنے مفاد سے ادھر ادھر نہیں ہونے دیتا۔لالچ ایسی نفسیات ہے جو اپنے سے کمزور کی طرف دیکھنے بھی نہیں دیتی۔اس لیے کہ اگر ایسا ہوتا تو زمیندار 130 سے 350 روپے چاول ہونے پر شور کرتا اور دو ہزار سے چھ ہزار کپاس ہونے پر بھی واویلا کرتامگر چونکہ یہاں اپنا فائدہ تھا،اس لیے خاموشی اختیار کر لی گئی۔ انگلینڈ سے آئے دوست ذوالفقار کے ساتھ ہم سب ایک ریسٹورنٹ میں کھانا کھا رہے تھے۔ایک زمیندار دوست نے کہا اس بار گندم کی وجہ سے کسان بہت پریشان ہے، راشد بھائی جن کی برسوں سے غلہ منڈی میں دکان ہےکہا’’کسان ملک کا 10فیصد ہیں جبکہ عوام 90 فیصد،عوام کا کوئی نہیں سوچتا،نہ حکومت،نہ کسان۔سب اپنے مفادات کو سامنے رکھتے ہیں۔اگر کسان اس سال گندم سے کچھ نہیں کما سکےتو گزشتہ سال تو کمائے تھے‘‘۔اپنے مفاد کو عزیز رکھنے والے ان لالچ زدہ لوگوں کو ان تراسی کروڑ انسانوں کا بھی سوچنا چاہیےجو رات کو بھوکے سوتے ہیں اور دنیا کی 40 فیصد آبادی (1۔3 ارب)ناکافی غذائیت کا شکار ہے۔نوزائیدہ بچوں کی نشوونما نہیں ہوتی،قد نہیں بڑھتاجس کی وجہ سے باقی عمر کےلیے وہ بیماریوں کا آسان ہدف ہوتے ہیں۔کیا غربت کی لکیر سے نیچے چلے جانے والے ان لوگوں کا خیال بھی کوئی کرے گا۔آئے روز مختلف سرکاری ملازم احتجاج کرتے نظر آتے ہیں کہ ان کی تنخواہوں اور پنشن میں اضافہ کیا جائے۔اب جون میں بھی یہ مطالبے زوروشور سے ہوں گے اور کہا جائے گا کہ تنخواہوں میں دس فیصد اضافہ کسی صورت قبول نہیںہے،کم ازکم تیس فیصد ہو،مہنگائی اتنی ہے کہ گزارہ نہیں ہوتایعنی 70 ہزار سے ڈیڑھ لاکھ لینے والوں کا بھی گزارہ نہیں ہوتا اور یہ میں چھوٹے سرکاری ملازم کی بات کر رہا ہوں۔ان سرکاری ملازمین کو یہ بھی سوچنا چاہیے کہ یہاں ایسے کروڑوں لوگ بھی رہتے ہیںجن کی سرکاری تو کجاپرائیویٹ ملازمت بھی نہیں۔میری ایک پرائیویٹ سکول کی پرنسپل سے گپ شپ ہورہی تھی۔باتوں کے دوران ان سے پوچھا۔یہ جو سرکاری سکولز کے اساتذہ تنخواہوں میں اضافے کےلیے احتجاج کر رہے ہیںجس سے بچوں کا تعلیمی نقصان بھی ہو رہا ہے۔کیا یہ احتجاج کا حق رکھتے ہیں تو وہ فورا بولیں۔جی بالکل۔ ۔۔اساتذہ کا حق ہے کہ ان کی تنخواہیں بڑھائی جائیں کہ انہیں اپنے حق کےلیے سڑکوں پر نہ آنا پڑے۔میں نے کہا آپ اپنے سکول کی اساتذہ کو کتنی تنخواہ دیتی ہیں،پہلے تو وہ مجھے حیرت سے دیکھنے لگیں۔پھر کہاہم پندرہ ہزار بھی دیتے ہیں،بیس ہزار بھی مگر آپ کیوں پوچھ رہے ہیں۔میں اس لیے پوچھا رہا ہوں کہ جن سرکاری اساتذہ کی تنخواہوں میں اضافے کی بات آپ کر رہی ہیں۔وہ پہلے ہی 70 ہزار سے ایک لاکھ تک تنخواہ لے رہے ہیں اور آپ اپنے اساتذہ کو بمشکل 15 سے 20 ہزار دیتی ہیں۔اگر پرائیویٹ اساتذہ کا پندرہ سے بیس ہزار میں گزارہ ہوسکتا ہے تو سرکاری کا ایک لاکھ میں کیوں نہیں ہوتا۔وہ خاموش ہو گئیںاس لیے کہ کوئی جواب نہ تھا۔اصل مسئلہ غربت اور فاقے کا نہیںلالچ کا ہے۔یہاں ایک مزدور گرمی میں مشقت کے بعد ایک ہزار کماتا ہے اور ہنسی خوشی گھر چلا جاتا ہے۔احتجاج نہیں کرتااس لیے کہ کسی مافیا کا حصہ نہیں۔ورنہ ہر شعبہ اپنے مفاد کےلیے عوام کو کچلنے پر آمادہ نظر آتا ہے۔ایک مہنگائی گورنمنٹ کرتی ہے دوسری مافیاز اپنے طور پر کرلیتے ہیں۔آج بھی دنیا میں پیدا ہونے والی خوراک تمام انسانوں کےلیے کافی ہےمگر مفاد اور لالچ انسان سے انسان کی بنیادی ضرورت یعنی خوراک تک چھین لیتے ہیں۔اس لیے کہ بڑا مسئلہ فاقہ نہیں لالچ ہے۔