مقامی حکومتوں کی تشکیل وقت کی اہم ضرورت

مقامی حکومتوں کی تشکیل وقت کی اہم ضرورت

اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اس وقت منتخب حکومتیں فعال ہیں مگر افسوس ہے کہ پنجاب میں فعال لوکل گورنمنٹ کی تشکیل کا عمل خاصا سست روی سے جاری ہے۔ مختلف وجوہات کی بنا پر 2017ءکے بعد منتخب مقامی حکومتوں کی عدم موجودگی کے باعث تشویش رہی ہے۔تین مرتبہ انتخابات کی ابتدائی تیاریاں بھی ہوئیںمگر ہربار نئی قانون سازی کی بنا پر انتخابات کا انعقاد نہیں کیا جاسکا۔افسوس کا مقام ہے کہ آئین کی قدغن کے باوجود اور پھر ملک کے تینوں صوبوں میں منتخب حکومتوں کے تسلسل کی موجودگی میں پنجاب اس سے محروم چلا آرہا ہے اور دیگر حکومتی ادارے اور سرکاری افسران عارضی بنیادوں پر ہی مقامی حکومتوں کے امور کی انجام دہی میں مصروف ہیں جس پر صرف یہ کہا جاسکتا ہے کہ حرکت تیز تر ہے مگر سفر آہستہ آہستہ ۔منتخب مقامی حکومتوں کی عدم موجودگی میں مختلف ترقیاتی اور فلاحی کاموں کا بہتر اطلاق نہیں کیا جا سکتا کیونکہ نہ تو مقامی ضروریات کی فوقیت یا ترجیح طے کی جا سکتی ہے اور نہ ہی عملدرآمد میں شہریوں کی شراکت یا اونر شپ تفویض کی جاسکتی ہے اور نہ ہی احتساب اور جوابدہی کی شکل موجود ہوتی ہے اور پھر ہمارے ملک کی ریاستی پالیسی کے بنیادی اصولوں میں درج ہے کہ ہمارے ملک میں مقامی حکومتیں ہوں گی، جس میں علاقے کے منتخب نمائندے ہوں گے اور ان نمائندوں میں عورتوں اور محنت کشوں کی نمائندگی بھی یقینی بنائی جاسکے گی۔ گزشتہ سالوں میں ملک کی اعلیٰ عدلیہ نے آئین کے آرٹیکل 7 کی مزید تشریح کی ہے کہ وفاق اور صوبوں کے بعد لوکل باڈیز سے مراد مقامی حکومتیں ہیں اور پھر آئین کا آرٹیکل 140-A صوبائی حکومتوں کو پابند کرتا ہے کہ وہ ایسے قانون کے مطابق مقامی حکومتیں قائم کریں اور انہیں انتظامی، مالیاتی اور سیاسی اختیارات منتقل کریں۔ اتنی واضح آئینی پابندیوں کے باوجود پنجاب میں منتخب مقامی حکومتوں کی عدم موجودگی اور انتخابات میں مسلسل تاخیر باعث تشویش ہے۔اب موجودہ حکومت نے پنجاب میں قانون سازی کا جائزہ لینے کے لئے ایک کمیٹی قائم کی جو اس بارے پیش رفت کر رہی ہے۔ الیکشن کمیشن کی وضاحت پر پنجاب حکومت کی اس کمیٹی نے ایک مسودہ قانون بھی فراہم کیا ہے جو ابھی تک پبلک نہیں کیا جاسکا۔ پنجاب کی سول سوسائٹی کے ادارے بھی مقامی گورننس کی اس کیفیت پر سخت تشویش کا اظہار کرتے ہوئےمطالبہ کر رہے ہیں کہ مستقبل کی قانون سازی کے لئے ہماری تجاویز پر غور کیا جائے بلکہ لوکل گورنمنٹ بارے نئی قانون سازی کے حوالے سے قائم کمیٹی ان کی گزارشات کو بھی مدنظر رکھے اور انہیں اس کمیٹی کا حصہ بنایا جائے اور جلد انتخابات اور منتخب مقامی حکومتوں کی تشکیل مکمل کی جائے ۔ پنجاب کی سول سوسائٹی اداروں کی گزارشات ہیں کہ صوبائی قانون سازی، حکومت اور اسمبلی کا آئینی حق ہے مگر جمہوری روایات کے حوالےسے مقامی حکومتوں کی آئے دن تحلیل اور ہربار نئی قانون سازی سے مقامی حکومتوں کی تعطل کا دورانیہ بڑھ جاتا ہے اور عوام میں مایوسی اور لاتعلقی بڑھانے کا موجب بنتا ہے۔ اس لئے قانون سازی کرتے وقت سبھی سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کر لی جائے بالخصوص اپوزیشن سے مکالمہ کر کے لوکل گورنمنٹ کا نظام وضع کیا جائے اور پھر اسے تحفظ دیا جائے۔ انتخابات کا تسلسل قائم رکھا جائے اور آئے روز کی قانون سازی کا رواج کچھ عرصہ کے لئے ملتوی کیا جائے تو بہتر نتائج برآمد ہوں گے۔تاہم اب کی بار نئی قانون سازی کی جائے تو درج ذیل امور کو نئے قانون میں ایڈریس کیا جائے۔(الف) بنیادی یونٹ یونین کونسل ہو ۔گو کہ اس کا نام بدلا جا سکتا ہےمگر آبادی کی بنیاد 20 ہزار نفوس سے زائد نہ ہو۔(ب) یونین کونسل اور ضلعی سطح پر قائم شہری اور دیہی مقامی حکومتوں کے مابین براہ راست تعلق ہو۔(ج) یونین کونسل میں نمائندوں کی کم از کم تعداد 5 جنرل، 2 خواتین، ایک ایک یوتھ، غیر مسلم سپیشل پرسن اور ایک آفیشل نامڑد کردہ ٹیکنوکریٹ ہو۔ کل 13 ممبران ہوں۔ چیئرپرسن اور ڈپٹی چیئرپرسن مشترکہ ٹیم کے طور پر ہو۔(د) یونین کونسل کے 13 ممبران کا براہ راست بالغ رائے دہی کی بنیاد پر انتخاب ہو۔ (م) نمائندگی میں وسعت اور گہرائی۔ منتخب مقامی حکومتوں میں آبادی کے سبھی حصوں بالخصوص نظرانداز رکھے گئے طبقات کی نمائندگی کو بھرپور اور مؤثر بنانا ضروری ہے۔ پہلے سے یہ کم ہے اور بتدریج کم ہو رہی ہے جبکہ آبادی بڑھ رہی ہے۔ ہماری تجویز ہے کہ یونین کونسلوں یا سب سے نچلے یونٹ میں خواتین کی نمائندگی کم از کم 40 فیصد رکھی جائے ۔