نوجوان نسل ملک وملت کے مستقبل کا ایک بیش قیمت سرمایہ ہے، جس پر ملک وملت کی ترقی وتنزلی موقوف ہے، یہی نوجوان ہی اپنی قوم اور اپنے دین وملت کیلئے ناقابلِ فراموش کارنامے انجام دے سکتے ہیں ، یہ ایک حقیقت ہے کہ نوجوان کی تباہی قوم کی تباہی ہے، اگر نوجوان بے راہ روی کا شکار ہوجاتے ہیں تو قوم سے راہِ راست پر رہنے کی توقع بے سود ہے۔ جوانی کی عبادت کو پیغمبروں کا شیوہ بتایا ہے۔ نوجوان قوم کا اثاثہ ہوتے ہیں اور جس قوم کے نوجوانوں میں بگاڑ پیدا ہوجائے وہ قوم تباہی کے راستے پر چل پڑتی ہے۔ نوجوانوں کی اخلاقی تربیت صرف والدین علماء یا اساتذہ ہی کی ذمہ داری نہیں ہے بلکہ خود نوجوانوں میں بھی اس بات کا احساس پیدا ہونا ضروری ہے کہ وہ کس راہ پر گامزن ہیں اور اس کے کیا نتائج برآمد ہوں گے۔؟ علماء والدین سرپرست اور اساتذہ کے ساتھ حکومت پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ نوجوان نسل کی بربادی کو روکنے اور ان کے اخلاق وکردارکو بہتر بنانے کے لئے مواقع فراہم کریں ۔ ہمارے نوجوان کردار سے عاری ہوچکے ہیں ۔ اخلاق و کردار ہی ہیں جو انسانی نسل کا سب سے قیمتی اثاثہ ہیں ، جب کوئی قوم اخلاق سے محروم ہوجاتی ہے تو کوئی طاقت اسے ترقی سے ہمکنار نہیں کرسکتی۔
بدقسمتی سے آج کے اس پر فتن دور میں بھی اگر کسی کو لگتا ہے کہ ملک و قوم کی ترقی کا دارومدار صرف اور صرف نوجوان نسل پر ہے تو معذرت کے ساتھ ایسا بالکل بھی نہیں ہے۔ نوجوانوں کے کندھوں پر ملک و قوم اور خاندان کی ترقی کا بوجھ ڈال کر ہمارے بزرگ اور خاص طور پر والدین اپنی ذمہ داری سے منہ نہیں پھیر سکتے۔ کسی بھی ملک و قوم کی ترقی اور عروج کا دارومدار معاشرے کے ہر فرد پر ہے۔اور اگر نوجوان نسل سے اتنی امیدیں وابستہ کر ہی رکھی ہیں تو اس نسل کو صحیح راہ دکھانا ان کی تربیت کرنا صحیح و غلط کا فرق سمجھانا صرف اور صرف ماں باپ کا فرض ہے۔ماں کی گود اولاد کی پہلی درس گاہ ہوتی ہے لیکن اس درس گاہ میں اب ملاوٹ آ گئی ہے۔دورِ حاضر میں والدین کا کردار نہ ہونے کے برابر رہ گیا ہے یا یوں کہہ لیں کہ بچے پیدا کر کے ان کو وقت پر روٹی کپڑا اور اسکول بھیجنا صرف یہی ماں باپ کی ذمہ داری رہ گئی ہے ۔اس کے علاوہ تمام ذمہ داری ماں باپ معاشرے سے پیسے کے زور پر خریدنے کی کوشش کرتے ہیں۔والدین کی عدم توجہی اور پھر نت نئی ایجادات اور انکا بے جا استعمال بگاڑ کی اصل وجہ ہے۔
بچے کی تربیت ماں کے پیٹ سے ہی شروع ہو جاتی ہے۔ مگر آجکل کی عورتیں موبائل ٹی وی ڈرامہ دیکھنے اور گانے بجانے میں بہت مصروف ہیں۔سٹار پلس پر ساس بہو کے ڈرامے دیکھ کر ہر وقت ڈرامے کرنے میں مصروف خواتین بچوں سے بالکل بے خبر ہیں ۔ بچے کو پیدا ہونے کے بعد بھی مختلف میوزک لگا کر بہلانے کی کوشش کرتی ہیں۔ بچوں کو ناچ گانے پر لگا کر انکی ویڈیو بنا کر فخر محسوس کرتی ہیں۔ایک زمانہ تھا کہ بچہ روتا تھا یا چوٹ لگتی تھی تو مائیں تڑپ اٹھتی تھیں اور خون کے آنسو روتی تھیں ۔ایک آج کا دور ہے کہ بچہ اگر کسی مخصوص انداز میں روتا ہے یا اس کو چوٹ لگتی ہے تو سب سے پہلے ویڈیو یا تصویر بنا کر سٹیٹس لگا دیا جاتا ہے۔ باپ اولاد کو دنیا جہاں کی سہولتیں فراہم کرنے کے لئے دن رات محنت کرتا ہے۔مگر جس اولاد کےلئے اتنی محنت کرتا ہے اس اولاد کے پاس بیٹھ کر ان کے مسائل سننے ان سے بات کرنے کی اسے فرصت ہی نہیں ہے۔ آجکل معاشرے میں چوری ریپ نشہ گھر سے بھاگنا اور خود کشی کے واقعات عام ہو گئے ہیں جو کہ صرف اور صرف والدین کی عدم توجہی اور تربیت کی کمی کی وجہ سے ہی ہے۔ قوموں کی تہذیب پہلے گھر سے شروع ہوتی ہے پھر تعلیم گاہوں سے۔ ہم سب کو برملا اس بات کا اعتراف کرنا چاہیے کہ بحیثیت والدین ہم اپنے بچوں کی اخلاقی تربیت سے بالکل غافل ہوتے جارہے ہیں۔والدین کی عملی زندگی بچوں کیلئے ایک نمونہ ہوتی ہے۔اسی طرح ہمارے اسکولوں اور کالجوں کا ماحول بگڑا ہوا ہے۔استاد و شاگرد کا رشتہ اخلاقی نہیں بلکہ کاروباری بن کر رہ گیا ہے۔ ایسے میں ہمارے نوجوانوں کی کیا خاک تربیت ہوگی۔! پھر جب وہ اپنی تعلیم مکمل کرکے اپنے وسیع تر معاشرے کے لچھن سے واقف ہوجاتے ہیں تو ان کے کردار کا خدا حافظ۔ یہ ہمارا آپ کا پیدا کردہ وہ معاشرہ ہے جس میں قدم قدم پر جھوٹ و فریب چلتا ہے۔ الغرض ہمارا نعاشرہ وہ معاشرہ ہے جس میں دین و اخلاق اورآئین و قانون کی کھلے عام دھجیاں اڑائی جاتی ہیں۔ایسے میں اگر کسی صاحب کا ایمان سلامت رہے اس کا درجہ و مقام فرشتے سے بڑھ جاتا ہے۔
ضرورت اس امر کی ھے کہ ہم ہوش کے ناخن لیں۔اپنی بربادی کا تماشہ نہ دیکھیں۔اگر زمانے میں ہمیں بحیثیت ایک زندہ قوم کے عزت و آبرو سے رہنا ہے تو چاہئے کہ ہم انفرادی و اجتماعی سطح پر اپنا جائزہ لیں۔ہم لوگ خود کو درست کرنے میں لگ جائیں اور اپنی نئی نسلوں کی صحیح ڈھنگ سے دینی و دنیاوی تربیت کرنے میں جٹ جائیں۔اپنے بگڑے ہوئے لوگوں کو راہ راست پر لے آئیں۔تمام معاشرتی برائیوں کا قلع قمع کریں۔