پاکستان اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کاغیرمستقل رکن

گزشتہ دنوں پاکستان اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا آٹھویں بار غیر مستقل رکن منتخب ہوا۔پاکستان کو 185 میں سے 182 ووٹ ملے جو کہ بلاشبہ پاکستانی عوام اور حکومت وقت کےلئے یہ ایک اعزاز ہے لیکن یہ اعزاز ایک ایسے وقت میں پاکستان کے حصے میں آیا ہے جہاں ایک جانب یوکرین کی بلاوجہ کی جنگ جاری ہے،دوسری جانب اسرائیل غزہ ،رفح اور خان یونس وغیرہ میں فلسطینیوں کی مسلسل نسل کشی کر رہا ہے اور وہ اقوام متحدہ کی کسی قرارداد کو خاطر میں نھیں لا رہا۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مینڈیٹ کے مطابق دنیا میں امن قائم رکھنا پہلی ترجیح ہے لیکن بدقسمتی سے مسئلہ فلسطین اور کشمیر دو ایسے مسائل ہیں جو اقوام متحدہ کےلیے مسلسل درد سر کی حیثیت رکھتے ہیں ۔پاکستان کے غیر مستقل رکن منتخب ہوجانے سے پاکستان کی ذمہ داریوں میں اضافہ ہوجائے گا۔ پاکستان پہلے بھی دنیامیں امن وامان قائم رکھنے میں اہم کردار ادا کرتا ارہا ہےجبکہ اقوام متحدہ کی امن فوج میں پاکستانی فوجیوں کا مرکزی کردار رہاہے اور ایک بڑی تعداد پاکستانی فوجیوں کی خانہ جنگی کے شکار مختلف ممالک میں فرائض سرانجام دے رہی ہے ۔جبکہ بڑی تعداد امن مشن میں خدمات انجام دیتے ہوئے اپنی جانیں بھی قربان کرچکی ہے ۔اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے غیر مستقل رکن منتخب ہونے کے نتیجے میں اب پاکستان دو برس تک ( یکم جنوری 2025 ء تا 31 دسمبر 2026 ء ) تک ایشیاء پیسفک گروپ کی نمائندگی کرے گا ۔سلامتی کونسل کے مجموعی 15 رکن ممالک میں سے 10 غیر مستقل ارکان میں سے بھی ہر سال پانچ اراکین کا انتخاب عمل میں آتا ہے۔پانچ مستقل ارکان برطانیہ ،چین ،فرانس ،روس اور امریکہ ویٹو پاور کے حامل ممالک ہیں ۔ ویٹو سے مراد کسی بھی ایسی قرارداد کی مخالفت میں اگر مستقل اراکین میں سے ایک رکن بھی ووٹ دے تو قرارداد منظور نہیںہوسکتی جسے ویٹو کا نام دیا جاتا ہے ۔جمعرات کے روز پاکستان کے علاوہ چار دیگر منتخب ہونے والے غیر مستقل ارکان میں ڈنمارک ،یونان ،پانامہ اور صومالیہ بھی شامل ہیں ۔جبکہ پچھلے برس منتخب ہونے والے پانچ غیر مستقل ارکان میں الجزائر ،گیانا ،جنوبی کوریا ،سیرالیون اور سلوانیا شامل ہیں ۔جمعرات کے روز غیر مستقل نشست پر آٹھویں بار منتخب ہونے والا پاکستان اپنے ساتھ تجربہ اور اقوام متحدہ کے امن مشن سمیت مختلف امور میں خدمات کی ایک طویل تاریخ رکھتا ہے۔ توقع کی جانی چاہیے کہ مستقل سلگتے مسائل خاص طور پر کشمیر اور فلسطین کے حل کےلیے ٹھوس اقدامات کیے جائیں گے۔