پنجاب کی ساڑھے 12 کروڑ سے زائد آبادی کا ہر شہری کتنا مقروض ہے، بجٹ دستاویزات میں تفصیلات سامنے آ گئی ہیں حکومت پنجاب جون 2024 کے اختتام پر ایک ہزار 685 ارب روپے کی مقروض ہو گی، اس وقت پنجاب کی آبادی تقریباً 12 کروڑ 77 لاکھ سے زائد ہے، پنجاب کا ہر شہری لگ بھگ 13 ہزار 200 روپے کا مقروض ہے۔حکومت پنجاب عالمی بینک کی 3.5 ارب ڈالر کی مقروض ہے جبکہ اسے ایشین ڈیولپمنٹ بینک کا 1.29 ارب ڈالر ادا کرنے ہیں، اس کے علاوہ حکومت پنجاب چین کی 1.39 ارب ڈالر کی مقروض ہے۔کاغزی کاروائی کے مطابق پنجاب کے قرضوں کا 25 فیصد زراعت اور لائیوسٹاک کے منصوبوں پر خرچ کیا گیا جبکہ ٹرانسپورٹ اور مواصلات کے شعبے میں اخراجات 21.6 فیصد رہےاسی طرح کاغزوں میں تعلیم کے منصوبوں پر مجموعی قرض کا 20 فیصد خرچ کیا گیا جبکہ صحت کے شعبہ میں 4 فیصد قرضوں میں سے استعمال کیا گیا زراعت لائیو سٹاک اور تعلیم کے منصوبوں پر کاغزی طور پر اربوں روپے خرچ کر نے کے باوجود تخت لاہور ہزاروں سرکاری سکول خود چلا نہی پارہا اور نہ ہی اساتزہ کو تنخوہیں دینا ان کے لیے ممکن ہے اور ان سکولوں لو مرحلہ وار این جی اوز کو پرائیویٹ افراد کو دینے کا عمل شروع کیا جا چکا ہے اور بچے کھچے سکولوں کو چلانے کے لیے غیر ملکی ادارے جائیکا اور یونیسف سے بھاری گرانٹ وصول کر کے یہاں داخلوں کا پراجیکٹ شروع کر دیا گیا ہے سکول جانے والے بچوں کو جو سرکاری وظیفہ ملےا تھا وہ بھی ختم ہو چکا ہے اس کے باوجود اربوں روپے کے قرضے اور اربوں روپے سرکاری بجٹ سے تعلیم پر خرچ کیے جا چکے ہیں تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ رقم سیاسی اشرافیہ اور وزیروں مشیروں کے بچوں کی تعلیم ہر خرچ ہوئ یا عام آدمی کے بچوں کی تعلیم پر جس کے قرضے پنجاب کا ہر شخص اتارے گایہی حال زراعت کا ہے پنجاب کے چھ کروڑ کسانوں سے گندم کی فصل خریدنے کے لیے پنجاب حکومت کے پاس پیسے نہی تھے کسان برباد ہو گیا اور اربوں روپے کے قرضے زراعت پر خرچ ہو گئے کسانوں کے پاس اگلی فصل لگانے کے پیسے نہی ہیں اور کپاس کی کاشت کے بجائے اب تل اور سبزیوں کی کاشت کی جا رہی ہے لیکن حکومت کے اربوں روپے کے اخراجات زراعت پر ہو رہے ہیںحکومت صحت اور تعلیم کی بنیادی سہولیات بھی عوام تک پہنچانے سے قاصر ہے لیکن ٹیکس عوام کے خون سے بھی نچوڑنا ضروری پے اگر بھاری ٹیکس وصول کرکے بھی حکومت عوام کو بنیادی سہولیات فراہم نہی کرتی اور اشرافیہ پر نوازشات ہوتی ہیں اور ان کی بیرون ملک جائدادوں اور زرائع آمدن پر ٹیکس کا کوئ سوال نہی کرتا تو یہ تفاوت عوام میں بے چینی اور ریاست کے خلاف جزبات کا باعث بنتی ہے اور حضرت علی کا فرمان ہے کہ حکومت ناانصافی سے قائم نہی رہ سکتی حکمرانوں کو اپنے رویوں اور پالیسیوں پر نظرثانی کرنا ہوگی۔