کہتے ہیں ریاست ماںکی طرح ہوتی ہے اور ماں کو اولاد بہت پیاری ہوتی ہے۔ اہلیان وطن سبھی پاکستان کے بچے ہوئے ان کا ہر لحاظ سے خیال رکھنا ریاست (ماں) کا فرض ہے۔سرکاری اہلکار چونکہ ماں کی خدمت کرتے ہیں اس لحاظ سے وہ زیادہ لاڈ پیار کے مستحق ہوتے ہیں جو اپنی جوانی کی تمام تر توانائیاں اس ماں کی خدمت میں تج کر اپنی زندگی کی اخیر کر کے آرام (ریٹائرمنٹ) میں آ جائیں تو وہ نہ صرف ماں کی زیادہ محبت بلکہ کیئر کے بھی مستحق ہوتے ہیں مگر یہاں گنگا الٹی بہتی ہے جونہی ملازم اپنی سروس مکمل کر کے ریٹائرمنٹ پر جاتے ہیں وہ اس ماں کے لیے بوجھ بن جاتے ہیں اور وہ ان سے جان چھڑانے کے سو سو حیلے بہانے ڈھونڈنے لگ جاتی ہے،کبھی آئی ایم ایف کا ڈر تو کبھی معیشت پر ناروا بوجھ کا بہانہ۔ ملازم سرکار ہر سال بجٹ کے موقع پر اپنی ماں سے توقع رکھتے ہیں کہ انہیں عیدی ملے گی ،تنخواہیں حکومت بڑھا دے گی اور ان کے مالی حالات کچھ سنبھل جائیں گے۔ جبکہ ماں اپنی جیب کو دیکھ کر اپنی اولاد کے اس لاڈ پیار کا جواب دیتی ہے۔ایسے میں ریاست کی سوتیلی اولاد ’’ریٹائرڈ ملازمین‘‘کی نظریں بھی بجٹ پر ہوتی ہیں کہ ان کے مہنگے دوا داروکے لیے ماں ان کے کشکول میں بھی کچھ ڈال دے گی ،یہاں سوتیلا پن اپنا کام دکھاتا ہے۔ سگی اولاد کے طفیل انہیں بھی تھوڑا بہت دیکھ کر ٹرخا دیا جاتا ہے اور وہ آہ بھر کر رہ جاتے ہیں، اس لیے کہ ان کے قویٰ مضمحل ہو چکے ،ان کی آواز دھیمی پڑ چکی ،ان کے جذبے ماند پڑ چکے اور وہ زندگی سے عاجز ٹھہرے کہ حاضر سروس ملازمین کی طرح جن کی باقاعدہ یونینز ہوتی ہیں بجٹ کے موقع پر شور و غوغا کر کے اپنی اجرت میں اضافہ کرا لیتے ہیں یہ ٹھہرے طفیلیے کہ ان کے لیے بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹنا ہے تو اتنا مل جاتا ہے۔چنانچہ سال رواں کے مالی بجٹ کا اعلان ہوا تو ملازمین کو درجہ بدرجہ سکیل نمبر 1 تا سکیل نمبر 16 کو 25 فیصد اور سکیل نمبر 17 تا سکیل 22 کو 20 فیصد تنخواہوں میں اضافہ دیا گیا۔ یہاں یہ ذکر کرنا اشد ضروری ہے کہ یہ ماں ایک ہاتھ دیتی ہے تو دوسرے ہاتھ چھین لیتی ہے۔جی ہاں تنخواہ بڑھائی تو انکم ٹیکس دگنا کر دیا۔وطن عزیز میں ٹیکس کا کلچر تو ہے نہیںبڑے بڑے مگرمچھ اربوں کا ٹیکس ایف بی آر کی مدد سے ڈکار جاتے ہیں صرف ایک تنخواہ دار طبقہ ہے جو حکومت کے شکنجے میں آتا ہے اور اس سے بندوق کی نوک پر تنخواہ دینے سے پہلے کاٹ لیا جاتا ہے۔یہاں ہماری اس ماں کے لیے ڈوب مرنے کا مقام ہے کہ گزشتہ مالی سال کے دوران سارے پاکستان کے تاجروں ،صنعت کاروں ،جاگیر داروں ،پارلیمنٹ کے اراکین اور دیگر تمام کارو باری لوگوں نے 36 ارب روپے ٹیکس ادا کیا جبکہ اس مجبور طبقے سے 326 ارب روپے جبری وصول کیے گئے۔ اب اس جلتے پر مزید بوجھ ڈال کر انکم ٹیکس کے چھ سلیبز کی جگہ چار سلیبز بنا کر مزید جکڑ دیا گیا ہے۔ اب چھ سے 12 لاکھ پر پانچ فیصد 12سے 16 لاکھ پر 90 ہزار زائد رقم پر 20 فیصد 16 سے 32 لاکھ پر دو لاکھ دس ہزار زائد پر 30 فیصد 32 سے 50 لاکھ پر ساڑھے چھ لاکھ پلس زائد پر 40 فیصد ٬ 50 لاکھ سے زائد پر 16 لاکھ 10 ہزار پلس زائد پر 45 فیصد انکم ٹیکس دینا ہوگا،یوں تنخواہوں میں یہ بڑھوتی جتنی بجٹ میں دکھائی گئی ہے اس کی نصف سے بھی کم رہ جائے گی جہاں تک سوتیلی اولاد کا تعلق ہے اسے محض 15 فیصد دیا گیا ہے۔ اگر اسے یہ نہ بھی دیا جاتا تو اس مجبور و معذور طبقے نے کون سی قیامت ڈھا دینی تھی اس طبقے کے ساتھ ہمیشہ زیادتیاں ہوتی رہی ہیں۔ ان کی ناتوانی بڑھاپے اور خدمات کا بھی خیال نہیں رکھا جاتا۔ یہاں بھی ان کے ساتھ تو ہاتھ کیا گیا بجٹ کے سرکاری ریکارڈ میں انہیں 22.5 فیصد اضافہ دکھایا گیا۔ کابینہ نے بھی اس کی منظوری دی لیکن وزیر خزانہ نے اپنی تقریر میں 15 فیصد بتایا۔ ابھی یہ ابہام باقی ہے کہ یہ اضافہ پنشنرز کی نیٹ پنشن پر ہوگا یا ان کی ابتدائی پنشن پر ہمیشہ نیٹ پنشن پر ہی اضافہ ملتا ہے لیکن گزشتہ سال کے بجٹ کے موقع پر یہ اعلان کیا گیا تھا کہ آئندہ پنشن میں اضافہ کمپاؤنڈنگ بنیاد پر نہیں ہوگا بلکہ ابتدائی پنشن پر ہوگا۔یہ امر اس وقت تک پوشیدہ ہے جب تک نوٹیفکیشن نہیں آ جاتا خدانخواستہ اگر بنیادی پنشن پر اضافہ کیا جاتا ہے تو یہ اضافہ 15 فیصد تو دور کی بات محض ایک یا دو فیصد کی سطح پر آ جائے گا۔ حکومت کا رونا یہ ہے کہ حاضر سروس ملازمین پر جتنا بجٹ پنشنرز پر خرچ ہوتا ہے اتنا ہی ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن پر اضافہ دینا حکومت کے لیے بہت بڑا عذاب ہے۔ اب پنشن سے ہر صورت چھٹکارا حاصل کرنا ہوگا یوں سوتیلی اولاد کی جان پر آ بنتی ہے۔ ان سے نجات حاصل کرنے کے لیے کنٹریبیوشن سسٹم اور ملازمین کو 20 سال اور بیوہ کو 10 سال تک پنشن محدود کرنے کی اصطلاحات رائج کرنے کا اعلان پہلے ہی ہو چکا ہے۔مطلقہ اور دیگر شادی شدہ بچے کی آئندہ چھٹی، موجودہ پینشنرز سے قانونی طور پر نجات کا کوئی اور راستہ نظر نہیں آتا ماسوا اس کے کہ ان کا گلا گھونٹ دیا جائے اور پنشن میں اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر اضافہ دے کر ان سے گلو خلاصی کرائی جائے۔یہاں ماں یہ بھول جاتی ہے کہ حکومت کے اپنے ناروا اخراجات کی وجہ سے ملک کا بچہ بچہ 2 لاکھ 80 ہزار روپے کا مقروض ہو چکا ہے۔ اراکین اسمبلی کی مراعات میں 300 فیصد اضافہ حکومتی زعما کے بیرون ممالک دورے وغیرہ حکومت پر بوجھ نہیں بنتے اور نہ ہی یہ آئی ایم ایف کو نظر آتے ہیں اور انہیں ہی حکومت ختم کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ ان عقل کے اندھوں کو یہ نظر نہیں آتا کہ پنشنرز پر اخراجات اس لیے زیادہ ہیں کہ انھوں نے گزشتہ 74 برس کی یہ سابق اسٹیبلشمنٹ ہے جنہوں نے وطن عزیز پر اپنی جوانیاں قربان کی ہیں وہ مفت کی بھیک نہیں مانگتے وہ اپنی خدمات کے عوض پنشن لے رہے ہیں جو ان کا حق ہےفلاحی مملکت تو پنشنرز کو کیا مراعات دیتی ہیںیہاں ان کا اپنا حق دیتے ہوئے ہماری دھاڑیں نکلتی ہیں۔ یہ موجودہ حکومتی مشینری اسٹیبلشمنٹ سے کہیں دس گنا زیادہ تعداد میں موجود ہیں۔اس لحاظ سے تو ان کے اخراجات موجودہ اسٹیبلشمنٹ سے اگر پانچ گنا زیادہ بھی ہوتے تو وہ اس کے مستحق ہیں نہ کہ موجودہ اسٹیبلشمنٹ کے برابر کے اخراجات حکومت پر گراں ہیں ۔پنشنرز کو ہمیشہ بجٹ میں حاضر سروس ملازمین کے برابر پنشن میں اضافہ ملتا رہا ہےبلکہ دو ہزار کی دہائی میں حاضر سروس ملازمین سے تھوڑا زیادہ بھی دیا گیا۔ پنشنرز طبقہ انتہائی مجبور اور بے بس ہوتا ہے۔ یہ ہماری توجہ کا زیادہ مستحق ہوتا ہے کہ تمام تر قویٰ مضمحل ہو کر جواب دے چکے ہوتے ہیں، وہ زندگی سے بیزار ہوتا ہے اور دسیوں بیماریوں کا شکار، اس کے طبی اخراجات ہی اتنے زیادہ ہوتے ہیں کہ گزر اوقات مشکل ہی نہیں ناممکن ہو جاتا ہےخصوصاً ان حالات میں کہ ادویات کی قیمتوں میں آئے روز اضافہ ہو جاتا ہے۔ایک اندازے کے مطابق گزشتہ تین برسوں میں ادویات کی قیمتوں میں 5 سو فیصد سے لے کر 600 فیصد تک اضافہ ہو چکا ہے اور اس طبقے کی آمدنی وہیں کی وہیں منجمد ہے۔انہیں 2010 میں تنخواہ کا 20 فیصد اور 25 فیصد بحساب گریڈ حاضر سروس ملازمین کے مطابق میڈیکل الاؤنس دیا گیا تھا اور پھر 2016 میں اسی میڈیکل الاؤنس کا 25 فیصد دیا گیا تاحال اس میں کوئی اضافہ نہیں کیا گیا۔ اس دوران ادویات کی پرواز 50 گنا سے لے کر 60 گنا تک دراز ہو چکی ہے۔یہاں یہ امر بھی قابل توجہ ہے کہ 2010 کے بعد اب تک کم و بیش چھ سات مرتبہ ملازمین کے سکیل ریوائز ہو چکے ہیں جو 600 فیصد کی سطح کو چھو چکے ہیں۔چونکہ اب تک 2010 کا مہنگائی الاؤنس اور میڈیکل اس حالت میں منجمد ہے تو بعد میں ریٹائر ہونے والے ملازمین کا میڈیکل الاؤنس 2010 کو بنیاد بنا کر کاؤنٹ ہوتا ہے یعنی اگر وہ 2023 میں موجودہ تنخواہ پر ریٹائر ہوتا ہے تو جو اس کی تنخواہ ہوگی اس میں چھ گنا تک اضافہ ہو چکا ہے وہی 2010 کی شمار ہوگی۔ موجودہ اسی بنیاد پر میڈیکل الاؤنس شمار ہوگا جو پرانے پنشنرز کے مقابلے میں کم از کم چھ گنا زیادہ ہوتا ہے۔ اس طرح پرانے پنشنرز کا میڈیکل الاؤنس نئے پنشنرز کے مقابلے میں انتہائی قلیل ہے۔ اس پر کبھی توجہ نہیں دی گئی جس کا نتیجہ یہ ہے کہ پرانے پنشنرز حالات کے جبر کا شکار ہیں۔ 2010 سے لے کر اب تک کم و بیش سات مرتبہ سکیل تبدیل ہو چکے ہیں اور 13 ایڈہاک الاؤنسز تنخواہوں میں ضم ہو چکے ہیں جس کا تنخواہ دار حاضر سروس طبقہ برابر استفادہ کر رہا ہے۔ حکومت کا فرض ہے کہ وہ حاضر سروس ملازمین اور ریٹائرڈ ملازمین دونوں کو ایک ہی نظر سے دیکھے، دونوں کو بجٹ میں برابر اضافہ دے، یہ ریٹائرڈ ملازمین کا حق ہے بلکہ بڑھاپے کی عمر پر پہنچ کر توزیادہ ہمدردی کے مستحق ہو جاتے ہیں، اسے زیادہ مراعات دی جانی چاہئیں،نیز پرانے پنشنرز کے میڈیکل الاؤنس کو ختم کر کے انہیں نئے پنشنرز کے مطابق میڈیکل الاؤنس دیا جائے کہ یہ ان کا حق ہے۔موجودہ بجٹ میں کم از کم اجرت کو 35 ہزار روپے سے بڑھا کر 37 ہزار روپے کرنے کا اقدام مستحسن ہے۔بیوگان کی کم از کم پنشن میں کوئی اضافہ نہیں کیا گیا وہ اس مہنگائی کے ہاتھوں پریشان ہیں۔