چوٹی بالا تاریخ کے آئینے میں

تین صدیوں سے آباد یہ شہر آج بھی اپنی قسمت پر نوہہا کنعاں ہے یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب تلاش کرنے کے لیے میرے ذہن میں ایسی کھلبلی مچی ہے کہ کوئی اس سوال کا جواب تلاش کر کے مجھے دے لیکن جواب ندارد دنیا کے زوال پذیر شہر بھی اپنی قسمت کو تبدیل کر کے اپنی بلندیوں کو چھو رہے ہیں لیکن اس کی حالت ویسی کی ویسی رہی کہیں ہم خود تو اس شہر کے ذمہ دار تو نہیں تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے اس شہر کی اکثریت ابادی زیور تعلیم سے محروم تھی علاقائی نمائندوں نے قبائلی نظام کے زیر تسلط زندگی گزاری ان نمائندوں نے اپنی نسل کی بقا کے لیے اس شہر کے حقوق کے لیے آواز بلند نہیں کی اگر کی بھی ہوگی تو جاگیرداری سوچ نے اسے دبا کر رکھا قیام پاکستان کے بعد اس شہر کی باگ ڈور سیاسی اور جاگیرداری خانوادوں نے سنبھالی ہر سیاسی دور حکومت میں اس شہر کو نظر انداز کیا گیا پیپلز پارٹی اور ن لیگ اور کبھی کیو لیگ اور آمریت کے ادوارِ اس شہر نے اپنے آنکھوں سے دیکھے ان سب ادوار میں جاگیرداری نظام اس شہر کے لے صف اول میں کھزا تھا اس شہر کے ارباب اقتدار نے صدارت کے عہدے تک رسائی پائی لیکن یہ شہر کوئی جامع میگا پروجیکٹ نہ لے سکا ماسوائے مٹھاون پروجیکٹ کے اب کے وہ پروجیکٹ بھی علاقے والوں کے لیے قحط سالی وجہ بن رہا ہے کیونکہ گزشتہ بارشوں سے آنے والی ندیوں کے پانی نے اس کے واہ سسٹم کو تہس نہس کر دیا علاقائی لوگ اب اپنے رقبے سیراب کرنے کے لیے پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں اس شہر کے لیے نہ تو تعلیم ضروری ہے اور نہ صحت اربابِ اختیار کی ستم ظریفی دیکھئے کہ علاقے کی ماؤں بہنوں کو ڈیلیوری کی سہولت کے لیے ایک لیڈی ڈاکٹر تک مہیا نہیں ان کے بچے انکی کوکھ میں راستے میں دم توڑ دیتے ہیں اور ماہیں درد کی شدت سے تڑپ ثڑپ کر موٹر سائیکلوں کی مدد سے 26کلومییٹر کا فاصلہ طے کرتی ہیں ڈیلوری کیس کے لیے پرائیوٹ ڈاکٹروں سے مہنگے علاج کرا کر جان کی امان پاتی ہیں اور نہ روزگار کے مواقع کیونکہ اس شہر کی قسمت میں ستر سالوں سے اگر لکھا ہے تو صرف اور صرف غربت افلاس بے روزگار ی اس شہر کے لوگ آگر دوسرے شہر مزدوری کے لیے جائیں وہاں بھی ملکت الموت ان کا پیچھا نہیں چھوڑتی ان لوگوں کے لیے مزدوری کے مواقع ان جگہ ملتے ہیں جہاں کیمیکلز ہوتا اور ایک ہی قوم کے دو سو افراد کو نگل لیتی ہے اور یا سٹون کریشز کی ڈسٹ ان کے گردوں کو فارغ کر دیتی ہے بیرون ملک حصول روزگار کے لے ان لوگوں نے اپنی ماؤں کے زیورات بیچ کر بھی اپنی قسمت آزمائی کی لیکن اکثریت خالی ہاتھ لولٹتے ہیں کچھ صاحب استطاعت لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت ہمت کر علاقے سیے میگریشن کی اور اپنے بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کیا محدود وسائل کی کمی سےکیا محدود وسائل کی کمی سے وہ اپنے علاقے کی خدمت کرنے سے قاصر ہیں شہر اور ملک اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتے جب تک وہاں تعلیم نہ ہو ہمارے شہر کی بھی یہی صورتحال ہے اگر اس شہر میں تعلیم کا اچھا ادارہ ہوتا تو شائد اس علاقے کی قسمت میں تبدیلی آسکتی ہے کوئی مسیحا اگر اس علاقے میں تعلیم کا اچھا ادارہ قائم کرے تو علاقے کے نوجوان زیور تعلیم سے آراستہ ہو سکتے ہیں اور اس کی بھی اچھی خاصی آمدنی ہوگی اور علاقائی خدمت کا موقع بھی اس ملے گا اس شہر کے نوجوانوں میں مثبت سوچ پیدا ہوگی اور وہ زیور تعلیم سے آراستہ ہو کر دوسرے شہروں میں مختلف انڈسٹریز میں روزگار حاصل کر سکیں گے شوشل میڈیااور پرنٹ میڈیا کے اس دور میں اگر علاقے کے لیے آواز بلند کرنے کی جسارت کرتاہے تو اس کی حوضلہ افزائی کی بجائے اس کو پریشرایز کیا جاتا ہے اور وہ خوف کی وجہ سے چپ ہو جا تا ہے اس پر مجھے شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کا یہ شعر دل کو چھبتا ہے کہ
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کوخیال اپنی حالت کے بدلنے کا