چوہدری کا گامے سے مکالمہ(1)

چوہدری:اوے گامے آج بہت پریشان بیٹھا ہے کیا بات ہے
جی چوہدری جی عید سر پر آن پہنچی ہے اور کام کاج کے حالات ہی نہیں ہیں اس لئے پریشا ن ہوں کی بچوں کی عید کا انتظام کہاں سے ہو گا بچے تو نہیں جانتے کہ میری جیب میں پیسے ہیں یا نہیں ہیں انہیں تو حلال اور حرام کی بھی پتا نہیں ہے نا انہیں تو کھانا چاہئے نئے کپڑے اور،،،اور چوہدری جی وہ تو پیٹ بھر کے کھانا مانگتے ہیں
چوہدری:اوے تو تو کام بھی کرتا ہے پھر بھی حالات کیوں خراب ہیں فضول خرچی کم کیا کرو نا۔
گاما:چوہدری جی یہ دنیامیں سب سے بڑی بیماری اور مجبوری کا نام غربت ہے بھوک ہے بھوک سے بڑی کوئی بیماری کوئی پریشانی نہیں ہوتی چوہدری جی اتنی تنخواہ میں کیسے گذارا ہوتا ہے
چوہدری:گامے کتنی تنخواہ ہے ویسے تیری
گاما:چوہدری جی میری تنخواہ سے آپ کے بچے ایک دن پیزا اور برگر کھا سکتے ہیں بس جتنا آپ اپنے بچے کو ماہانہ جیب خرچ دیتے ہو نا میری تنخواہ اس سے بھی کہیں کم ہے
چوہدری:اس کا مطلب قربانی کا بکرا نہیں لیا ہوگا
گاما نہیں چوہدری جی نہیں لیا کیونکہ قربانی سنت ہے بیوی بچوں کی کفالت کرنا میرا فرض ہے لہذا فرض اولین ہے سنت بعد میں ہے نا چوہدری اگر جان کی امان پاوں تو ایک عرض کروں؟۔
چوہدری:ہاں ہاں گامے بول کیا کہنا چاہتے ہو۔
چوہدری اصل میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ قربانی آپ کی وہ جائز نہیں ہے
کیا مطلب؟
چوہدری کسی کا حق کھانے والے کی قربانی قبول کیسے ہو سکتی ہے
اوے بدتمیز میں کس کا حق کھایا ہے کمینے شخص کیا بکواس کر رہا ہے
چوہدری جی وراثت میں سے بیوہ بہن کا حق کھایا ہے آپ نے اپنے ملازمین کا حق کھاتے ہو تم
چوہدری تم بکواس کرتے ہو میں ملازمین کا حق نہیں کھاتا ملازمین کام چور ہیں کام نہیں کرتے چوری کرتے ہیں دھوکہ بازی کرتے ہیں جب ان کے سر پر ہو تا ہی کام کرتے ہی ورنہ سارا دن ادھر ادھر گھومتے رہتے ہیں
گاما:چوہدری جی اگر آپ ان کو ان کا حق دیں گے ان کی تنخواہ ٹائم پر دیں گے مجبوری میں کی گئی چھٹی کے پیسے نہیں کاٹیں گے تو وہ چوری ہرگز نہیں کریں گے چوہدری جی غریب انسان ایماندار بہت ہوتا ہے اسے اس کے مالکان بے ایمان بناتے ہیں چوہدری جی اگر انسان کا پیٹ بھرا ہو نا وہ اپنا حلال نہیں کھا سکتا حرام کیسے کھائے گا جب اس کی ضرورت جائز طریقے سے پوری کر دی جائے گی تو وہ ناجائز طریقہ کبھی نہیں اپنائے گا میں مانتا ہوں چوہدری جی سب ایماندار نہیں ہوتے مگر زیادہ تر غریب اور مزدور کو بے ایمان بنانے میں مالکان کا قصور ہے مزدور مالک کو کما کر دیتا ہے وہ موسموں سے لڑتا ہے سردی اور گرمی شدت کی پروا کئے بنا دن رات محنت کرتا ہے اس کے بعد اگر اسے اس کی محنت کا سلہ نہ ملے تو وہ بے ایمانی ہی کرے گا مزدور بھی انسان ہے اگر اس سے دوست جیسا سلوک کرو گے اس سے حال چال کے بعد اس کی پریشانی میں اس کی مدد کر دو گے تو وہ آپ کا سبب سے بڑا وفادار بن جائے گا کبھی نقصان نہیں کرے گا اگر آپ اس سے نفرت کرو گے اسے کمتر سمجھو گے تو وہ آپ سے دور ہو جائیں گے آپ کی خامیاں لوگوں کو بتائیں گے جس سے لوگ آپ سے متنفر ہو جائیں گے۔
چوہدری:گامے اگر ہم نوکروں کو دوست بنا لیں تو وہ کام ہی نہیں کریں گے۔
گاما:چوہدری ایسا نہیں چند ایک بد خصلت افراد کے علاوہ باقی ایسے نہیں آپ انہیں دوست بنا کے بہت سارے معاملات احسن طریقے سے حل کر سکتے ہیں
چوہدری:گامے میں ہر سال دو جانور ذبع کر کے تقسیم کرتا ہوں گھر بھی نہیں لے کر جا تا اور میں کیا کروں
گاما:چوہدری بڑے جانور تو تقسیم کرتے ہیں مگر بکرے تو فریج میں رکھ لیتے ہیں غریب بند پندرہ دن مہینے بعد ہی سہی بڑا گوشت توکھا لیتا ہے مگر چھوٹا گوشت تو عید پر بھی نہیں کھا سکتا بڑے لوگ بکرے فریج میں رکھ لیتے ہیں اور عید کے مہینہ بعد تک کھاتے ہیں چوہدری اللہ تعالی کو آپ کے بکرے کٹے وچھے سے کوئی غرض نہیں اسے تو آپ کی نیت سے غرض ہے وہ تو تقویٰ پسند کرتا ہے ران چانپیں قیمہ اسے پسند نہیں اسے تو آپ کا تقویٰ پسند ہے
چووہدری:گامے تو تو مولوی نہین بن رہا فتوے جھاڑ رہا ہے
گاما:نہیں چوہدری صاحب مجھے بُرا بھلا کہ لیں پر مولوی نہ کہیں چوہدری صاحب ہمارے معاشرے میں سب سے زیادہمسائل ان نام نہاد دین کے ٹھیکداروں کی وجہ سے ہیں جنہوں نے ہمیں ایک نہیں ہونے دیا اصل دین اور نبی کریم کی شریعت سے دور رکھا ان ملاوں نے دیک میں بھی یونفارم متارف کروا دی ہیں ایک کی وردی دوسرے سے ملتی ہے نہ پگڑی اب تو ساتھ میں جوتے میں میچ کر کے پہننے کا رواج آ چکا ہے مگر اسلام کہتا کہ کسی گورے کو کالے اور کسی عربی کو عجمی پر کوئی فوقیت حاصل نہیں،مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں تو بھی یہ تفرقہ پھیلانے والے مولوی کسی کے پیرو کار ہیں جو ایک مسجد میں دوسرے فقعہ کے لوگوں کو عبادت نہیں کرنے دیتے کفر کا فتوہ جیبوں میں لئے پھرتے ہیں
چوہدری:گامے اب مجھے ضروری کام کے لئے گھر جاناہے کل پرسوں چکر لگانا گپ شپ ہو گی
گاما:ٹھیک چوہدری جو آپ کا حکم
(جاری ہے)